یہ ہیں ہم !

ہفتہ 20 اگست 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اس نے پھلوں کی آ خری پیٹی کھولی اور اس کے ساتھ ہی اس کا دل بحرالکاہل کی گہرائیوں میں ڈوب گیا ۔پچاس سالہ ارشدنے برسات کی طرح برستی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔وہ بچوں کی طرح سسکیاں لے رہا تھا اور کوئی چلتا راہگیر اس کا دکھڑا سننے کی لیئے تیا نہیں تھا ۔اس کی آواز کی ہچکی بند گئی تھا اور اس کا اندر ایسے ابل رہا تھا جیسے سوکھی کیکر کی آگ پر ہنڈیا ابلتی ہے ،اس کے اندر میں آگ لگی تھی اور اس کا سارا جسم آنکھ بن گیا تھا ۔

قسمت کا مارا ارشد لاہور کے فیروزپور روڈ پر پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا اور یہی اس کا سب سے بڑا ”بزنس “تھا ۔اس کی یہ روزانہ کی روٹین تھی اور وہ اپنی اس ”پرسکون “زندگی سے بڑا مطمئن تھا ،اس کی دونوں بیٹیاں روزانہ اس سے نئے جوتوں اور نئے کپڑوں کی فرمائش کرتی تھیں اور وہ روزانہ رات سونے سے پہلے اپنی بیٹیوں کی فرمائش کی آگ پر جلتا تھا۔

(جاری ہے)

اس نے آج معمول سے ذیادہ پھل خریدا تھا اور آج وہ بڑا مطمئن دکھا ئی دے رہا تھا ،وہ فروٹ منڈی سے پھل خرید کراپنے ”فروٹ اڈے “پر پہنچ گیا تھا اور اب وہ پھلوں کو ترتیب سے ریڑھی پر لگا رہا تھا،جیسے جیسے وہ پیٹیاں کھولتا گیا اس کا دل ظالم سماج کے اندھیرے کنویں میں ڈوبتا چلا گیا ،اس نے جتنی پیٹیاں کھولی صرف پہلی تہہ کے سیب کھا نے کے قابل تھے اور نیچے کی ساری تہوں کے سیب گلے سڑے تھے اور ان کو دیکھنے کے ساتھ ہی ارشد کا دل بھی گل سڑ گیا تھا ۔

میں سوچتا ہوں ارشد کتنا خوش فہم تھا جو ٰایک ظالم معاشرے میں رہ کر اپنی بیٹیوں کے سر پر ڈوپٹا اوڑھنا چاہتا تھا ،وہ کتنا کم عقل تھا جو پھلوں کی ریڑھی لگا کر اپنی بیٹیوں کی فر مائش پوری کرنا چاہتا تھا ،وہ کتنا بد قسمت تھا جو بھیڑیوں کے معاشرے میں رہ کر انصاف کی امید لگائے بیٹھا تھا اور وہ کتنا بد نصیب تھا جو جنگل کی بجائے انسانے معاشرے میں پیدا ہو گیا تھا ۔

وہ سڑک پر کھڑا رو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج وہ اپنی بیٹیوں اور بیٹے سے کیا جھوٹ بولے گا ۔
یہ حقیقت ہے سوسائٹی کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہیں ۔اس معاشر ے کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم ہیں اور ہم وہ ظالم بھیڑیے ہیں جو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے دوسروں کا خون تک چوس لیتے ہیں ۔جس معاشرے میں جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ عام ہو جائے اس کی تباہی کے لیئے کسی بیرونی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے ۔

ہم ہر واقعے کے پیچھے امریکی سازشیں ڈھونڈنے کی کوششیں کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک اور اس قوم کے لیئے سب سے بڑی سازش ہم خود،ہمارا حریص دل اور ہما ری لالچی سوچ ہے ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں جس معاشرے میں دھوکہ مہارت،ڈاکہ بہادری ،جھوٹ فیشن اور ظلم کاروبار بن جائے اس معاشرے کی تباہی کے لیئے کسی سی آئی اے ،راء اور موساد کی ضرورت نہیں ہوتی۔

صر ف امریکہ ،اسرائیل اور میانمار کے بدھ ظالم نہیں بلکہ ہم سب ظالم ہیں۔ہما رے چپڑاسی سے لے کر صدراور وزیر اعظم تک سب ظالم ہیں ۔صرف ڈاکٹر عاصم مجرم نہیں ہمارا سبزی بیچنے والابھی مجرم ہے ،ہمار اپھل بیچنے والا بھی مجرم ہے ،آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں وہ پھل کے دو تین گھٹیا دانے ضرور شاپر میں ڈال دے گا،ہمار ادوکاندار بھی ظالم ہے وہ آنکھ بچا کر بڑی مہارت سے آپ کو دھوکہ دے گا،ہمارے اساتذہ سکول میں نہیں پڑھاتے کہتے ہیں تم شام کو ٹیویشن آ جانا سب پڑھا دوں گا ،ہمارا ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں علاج نہیں کرتا وہ اپنے پرائیویٹ ہاسپیٹل کا آپ کو کارڈ دے دیتا ہے ،ہمارا تاجر سو کی چیز ہزار میں بیچ رہا ہے ،ہمارا قصاب ہمیں مردہ جانوروں کا گوشت کھلا رہا ہے اور ہماری مشروب ساز کمپنیاں مشروب کے نام پر ہمیں زہر پلا رہی ہیں ،ہمارا کسان دو نمبری سے باز نہیں، ہماری عدالتوں میں انصاف بکتا ہے ،وکیل سچ جاننے کے باوجود جھوٹ کی وکالت کرتا ہے ،جج لفافے کا حجم دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے ،پولیس سیاست دان اور جاگیر دارکی غلام ہے ،گاوٴں کا چوہدری اور جاگیر دار غریب کی بیٹی کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور قانون منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ،ٹریفک وارڈن سو پچاس میں قانون بیچ دیتا ہے ،ہمار اڈرائیور اور کنڈیکٹر پانچ روپے کے لیئے جھوٹ بولنے والی مشین بن جاتاہے ،ہمارے تعلیمی ادارے پانچ پانچ ہزار میں ڈگریاں بیچ دیتے ہیں ۔

آپ ایک پاوٴکھجور لیں اس میں دس کھجوریں کھانے کے قابل نہیں ہوں گی ،آپ ایک پاوٴ سرخ مرچ لیں اس میں آدھا پاوٴڈر ملا ہو گا ،آپ ایک کلو دودھ لیں اس میں تین پاوٴ پانی ہو گا ،آپ بازار سے کوئی کپڑا خریدیں دکاندار قسمیں کھا کھا کر آپ کو یقین دلائے گایہ اعلیٰ کوالٹی کا ہے آپ گھر آئیں گے تو پتا چلے گا یہ تو ایک دھلائی سے ناکارہ ہو جائے گا ،آ پ کو ئی جوتا خریدیں دکاندار حلفا کہے گا یہ دو ہزار کا ہے اور آپ لے کے گھر آئیں گے تو پتا چلے گا اس کی قیمت تو پانچ سو سے زائد ہرگزنہیں ،آپ کوئی گھڑی خریدیں آپ کو ایک سو ایک فیصد یقین دلایا جائے گا کہ یہ واٹر پروف ہے اور آپ بڑے شوق سے اسے پہن کر وضو کریں گے مگر دو ہفتوں بعد آپ کی ساری خوش فہمی دور ہو جائے گی ،آپ کو خدا و رسول کی قسمیں کھا کھا کے یقین دلایا جائے گا کہ یہ برانڈڈپرفیوم ہے مگر آپ اسے ایک بار سے زائد لگا کر آفس نہیں جا سکیں گے ،آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو ہر دوسرا شخص فراڈکرتا ،دھوکہ دیتا،دو نمبری کرتا ،جھوٹ بولتا ،ملاوٹ کرتا ،کرپشن کرتا اور ڈنڈی مارتا نظر آئے گا ۔

آپ کو بیرون ملک اسٹڈی کا جھانسہ دے کر آپ سے لاکھوں روپے ہتھیا لیئے جاتے ہیں ،آپ کو سستے پلاٹ کا دھوکہ دے کر آپ کی ساری جمع پونجی چھین لی جاتی ہے اور آپ کو مضاربہ کے نام پے کنگال کر دیا جاتا ہے۔دس روپے کی چاکلیٹ سے لے کے دس ہزار کے موبائل تک کچھ بھی تو خالص نہیں ملتا ،ایک استاد سے لے کے ایک ڈاکٹر تک کوئی بھی تو اس قوم اور اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ،ایک وکیل سے لے کے ایک جج تک کو ئی بھی توانصاف نہیں دیتا ،ایک تاجر سے لے کے ایک جاگیر دار تک کوئی بھی تو غریب کی حالت پے رحم نہیں کرتا ،ایک ریڑھی والے سے لے کر ایک دکاندار تک کوئی بھی تو لوٹنے سے باز نہیںآ تا ،ایک ٹریفک وارڈن سے لے کر ایک ایس ایچ او تک کو ئی بھی تو قانون بیچنے سے باز نہیں آتا اور ایک منشی سے لے کے ایک سیکرٹری تک کوئی بھی تو رشوت کھانے سے باز نہیں آتا۔


جس ملک کے بیس کروڑ افراد خوداس کی جڑوں پر کلہاڑی ماررہے ہوں اس ملک کی تباہی کے لیئے کسی امریکی اور اسرائیلی سازشوں کی ضرورت نہیں ہوتی ،جس ملک میں ارشد جیسے غریب باپ اپنی بیٹیوں کی فرمائش کی آگ پر جل جل کر مر جائیں اس ملک کی تباہی کے لیئے کسی بیرونی حملے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس ملک میں جاگیر دار غریب کی بیٹی کو اٹھانے میں کوئی عار نہ سمجھے اس ملک کی بربادی کے لیئے کسی یہودی سازش کی ضرورت نہیں ہوتی ،آوٴ سب مل کر اس ملک کا ماتم کریں جس کے اپنے باسی اسے ظلم ،کرپشن،دھوکہ ،فراڈاور بے انصافی کے سمندر میں ڈبونے کے لیئے تیار کھڑیے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :