رشوت بیماری نہ مجبوری

بدھ 22 جون 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

یہ 2008ء یا 2009ء کی بات ہوگی۔ گاؤں سے ایک مہمان علاج معالجے کی غرض سے ہمارے ہاں ایبٹ آباد آئے، وہ ہزارہ کے ایک نامور اور سپیشلسٹ ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کروانا چاہتے تھے۔ شہر اقتدارمیں زیادہ عرصہ گزارنے کی وجہ سے اس وقت میں ایبٹ آباد کی گلیوں، محلوں، ہسپتالوں، کلینک اور ہوٹلوں سے زیادہ واقف نہیں تھا لیکن پھر بھی گھر والوں نے میری ڈیوٹی لگائی کہ میں اس مہمان کیلئے ڈاکٹر کا نمبر لے کر دوں۔

میں جان نہ پہچان کے عالم میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ مہمان اب مہینے بعد ہی کہیں چیک ہوگا کیونکہ میں نے اکثر لوگوں سے یہ سنا تھا کہ اس ڈاکٹر کے ساتھ جو بندہ ہے نمبر دینے والا وہ بڑا سخت ہے، نمبر جلدی بھی ملے تو ایک مہینے سے پہلے نہیں ملتا۔ دل ہی دل میں یہ سوچ سوچ کر جب میرا برا حال ہوا تو آخر میں دل کی بات زبان پر لے آیا اور آنکھیں بند کرکے میں نے مہمان صاحب سے کہا کہ اس ڈاکٹر سے آج کیا ایک ہفتے بعد بھی چیک اپ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

میری بات سن کر وہ مسکرائے۔۔ پھر بولے بڑے سادہ ہو ۔۔ شہر میں رہتے ہو لیکن دنیا کے لوگوں اور کاموں سے واقف نہیں ہو ۔۔ میں نے کہا میں سمجھا نہیں ۔۔ کہنے لگے قائد اعظم کے ہوتے ہوئے اس دنیا پھر اس ملک میں کوئی کام مشکل ہے ۔۔؟ اس ڈاکٹر سے میں ایک نہیں کئی بار چیک اپ کروا چکا ہوں ۔۔اس کے ساتھ نمبر دینے والا جو بندہ ہے اس کے ہاتھ میں چپکے سے سو پچاس کا نوٹ تھما دو ایک سیکنڈ میں ہی نمبر مل جائے گا۔

ساٹھ سالہ بزرگ مہمان کی زبان سے یہ بات سنتے ہی میرے تن بدن میں تو آگ سی لگ گئی، میں سوچ رہا تھا اس مہمان کی عمر کو دیکھو اور اس کی باتیں۔ میں تو اس کو بڑا شریف اور سادہ سمجھ رہا تھا وہ تو کھلاڑیوں کے بھی کھلاڑی نکلے۔ میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ سادہ اور جاہل ہوں۔ زندگی کا اکثر حصہ شہر میں گزارنے کے باوجود مجھے دنیا کے اس قسم کے کاموں اور معلومات کا ذرہ بھی علم اور تجربہ نہیں اورہوبھی کیسے۔

۔؟ جس ماں کے ہاتھوں میری تربیت ہوئی اس نے بچپن میں ہی جب مجھے دائیں اور بائیں ہاتھ کی تمیز بھی نہیں تھی۔اس وقت بتا اور سمجھا دیا تھا کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنم کی آگ میں جلا دیا جائے گا۔ اس قسم کے کام اور معاملات تو اس کے ہاں ناقابل معافی جرائم کی فہرست میں شامل تھے اور وہی فہرست اس نے اعلیٰ تربیت کے ذریعے ہمارے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔

اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام نصیب فرمائے ۔امین ۔کہ انہی کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج تک ہمیں ہر قسم کے جرائم اور برائیوں سے دور رکھا۔ بہر حال سات طبق روشن ہونے کے بعد میں نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا سنا ہے کہ وہ بندہ بڑا سخت ہے۔ وہ مہینے سے پہلے کسی کو نمبر دیتا ہی نہیں وہ بھلا کیسے سو پچاس روپے لے کر نمبر دے گا۔

۔؟ وہ پھٹ کر بولے پیسے بھی کوئی نہیں لیتا ۔۔؟ اس دنیا میں گیم ہی تو ساری پیسوں کی ہے ۔۔ ؟ لوگ پیسوں کیلئے تو گدھے کو بھی سلام کرتے ہیں۔ تم آؤ میرے ساتھ میں کیسے نمبر لیتا ہوں ۔۔؟ تھوڑی دیر میں ہم دونوں اس ڈاکٹر کے ہسپتال نما کلینک پہنچے ۔نمبر دینے والے بندے کو جب میں نے دیکھاتو وہ واقعی شکل و صورت سے سخت لگ رہا تھا۔ ماتھے پر اس کے 12 بج رہے تھے ۔

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کر رہا تھا۔ ہمارا وہ مہمان اس کے قریب ہوا۔ علیک سلیک اور تھوڑی سی سرگوشی کے بعد اس سخت گیر بندے کے بجھے اور روٹھے چہرے پر بھی ہلکی پھلکی خوشی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ رشوت کے اس عادی مجرم کو براستہ دائیں ہاتھ ایندھن مل ہی گیا۔ اسی دوران وہ مہمان میرے پاس آئے اور کہنے لگے دیکھا کیسے اس نے نمبر دیا ۔

۔؟ سو روپے دیئے تو اس نے آج کا نہیں ابھی کا نمبر دے دیا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر تک میرا چیک اپ ہو جائے گا۔ رشوت دینے اور لینے والوں کا یہ دوسرا واقعہ تھا جو میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس سے پہلے راولپنڈی میں قیام کے دوران ایک دن ایک دوست جس نے اسلام آباد میں اپنا کوئی پلاٹ بیچا تھا اس کے پیسے جو لاکھوں میں تھے لینے کیلئے اسے ایف ایٹ کچہری جا ناتھا۔

اس وقت اس کے ہاں گاؤں سے کوئی رشتہ دار آیا تھا جس کے پاس گاڑی تھی ۔میرے وہ دوست ڈرپوک اور دل کے بہت چھوٹے تھے۔ اس وجہ سے اس نے میرے سمیت دو تین اور دوستوں کو بھی ساتھ چلنے کوکہا اور گاؤں سے آئی اسی گاڑی میں ہم سوارہوکرایف ایٹ کچہری روانہ ہوئے۔اس دوست کے پاس ایک لائسنس یافتہ پستول بھی تھا جو وہ واسکٹ کے نیچے باندھ گئے تھے مگر اس کا لائسنس گھر میں ہی بھول آئے تھے۔

راستے میں ہر منٹ دو منٹ بعد وہ اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے دل کو مضبوط سیکورٹی کا اطمینان تو دلا رہے تھے مگر لائسنس کا اس کو کوئی غم نہیں تھا۔ واپسی پر جب ہزار اور پانچ سو نوٹوں کی گڈیاں انہوں نے گاڑی کی ڈگی میں رکھیں تب اس کے دل کے کسی کونے سے یہ مدہم سی آواز آئی کہ پستول کے لائسنس نے گھر میں رو رو کر برا حال کر دیا ہے۔ آتے ہوئے پنڈی سے اسلام آباد کچہری تک کسی نے ہماری گاڑی نہیں روکی لیکن واپسی پر مین ہائی وے پر فیض آباد پل کے قریب ٹریفک والوں نے ہماری گاڑی کو اشارہ دے دیا۔

گاڑی رکتے ہی میرے دوست کے پسینے چھوٹنے لگے اور حالات بھی ایسے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پسینے چھوٹنے ہی تھے۔ کیونکہ بکری جب شیروں کے درمیان آہی گئی تھی۔ پولیس ٹریفک والی ہو یا عام وہ تو ویسے بھی ایسے موقعوں کی تلاش میں در بدر پھرتی ہے۔ یہ تو پھر ایسے تھا کہ آسمان سے گرا اور منہ میں اٹکا۔ پولیس کی تو ہر جگہ اپنی بادشاہت ہوتی ہے وہ اگر دن کو رات اور رات کو دن کہیں تو پھر ماننا ہی پڑتا ہے۔

ایسے میں اگروہ پولیس اہلکار صاحب کے گلے میں بندھے لائسنس چھوڑ پستول اور گاڑی کی ڈکی میں نوٹوں کے انبار دیکھتے تو کیا سے کیا نہ کرتے ۔۔؟
یہی غم میرے دوست کو اندر اندر سے کھائے جارہاتھا۔ اسی وجہ سے اس نے ڈرائیور جو ہمارے اس مہمان کی طرح گاؤں سے آیا تھا سے کہا کہ ان کے ساتھ معاملات جلدی جلدی نمٹا لو۔ اس ڈر سے کہ پستول والی سرکار کو کہیں خوف سے دل کا دورہ ہی نہ پڑ جائے۔

میں گاڑی سے اترا اور پولیس والوں سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ بھی عام پولیس والوں کی طرح حدسے زیادہ شریف تھے۔ان کوپتہ تھاکہ ان کی موجودگی میں معاملات طے نہیں ہوسکیں گے۔ اس وجہ سے انہوں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ گاڑی میں بیٹھیں۔ ہم ڈرائیور سے گاڑی کے کاغذات چیک کرتے ہیں۔ ادھر وہ ڈرائیور ان کا بھی باپ نکلا۔ پستول صاحب کی طرح ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کے دیگر کاغذات تو اس کے پاس تھے ہی نہیں اوپرسے 10 روپے کے پانچ پانچ نوٹ یعنی کل پچاس روپے بتی کی طرح گول کر کے پولیس اہلکار کی مٹھی میں بند کر دئیے۔

پولیس اہلکار نے رخ دوسری طرف مڑ کر مٹھی میں جب 10 ، 10 کے پانچ نوٹ دیکھے تو وہ یک دم چلائے اور فوراً میری طرف بڑھے۔ مٹھی میں 10, 10 کے نوٹ مجھے دکھاتے ہوئے ڈرائیورکی طرف اشارہ کرنے لگے۔ اس کودیکھو۔۔ اس کی شکل دیکھو ۔۔ شناختی کارڈ اس کے پاس ہے نہیں، لائسنس بھی نہیں اور گاڑی کے کاغذات توپتہ نہیں یہ کب کے گھر بھول کے آیا ہے اور پیسے کتنے دیتا ہے ۔

۔ ؟دس کے بانچ نوٹ ۔وہ بھی بتی بناکے۔خیر پھر اس نے اس کو 100 روپے دئیے یا ڈیڑھ سو ہم وہاں سے چلے گئے۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ رشوت دینے والا رشوت لینے والے کو بہت دور سے پہنچانتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی ایسی خاصیت ضرور مشترک ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے آشنا کر دیتی ہے۔ورنہ میراجیساکوئی ہوتاتووہ دن بھریاتوپولیس والے کے ساتھ بحث کرتایاپھران کامہمان بنتا۔

رشوت نے آج ہمارے اس معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے رشوت کے خاتمے کے کئی دعوے کئے لیکن سرکاری محکموں میں رشوت کی بڑھتی بیماری دیکھ کر لگتا ہے کہ اس موذی مرض کو ختم کرنا پی ٹی آئی والوں کے بھی بس کی بات نہیں کیونکہ ابھی تک رشوت ختم نہیں ہوئی البتہ ریٹ ضرور بڑھ گئے ہیں، پہلے جو لوگ سرعام رشوت لیتے تھے وہ اب خفیہ لے رہے ہیں اور جو ہزار پانچ سو لیتے تھے اب وہ پانچ سے دس ہزار لیتے ہیں۔

محکمہ مال سمیت ایسے کئی ادارے ہیں جہاں آج بھی رشوت کا بازار گرم ہے، رشوت کے معاملات سے ہمارے جیسے بے خبر لوگ آج اپنے جائز کاموں کیلئے بھی سرکاری اداروں اور دفاتر کے چکر پر چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ رشوت کی بیماری نے اس ملک اور ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جو لوگ رشوت کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں وہ پھر ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی بجائے تباہی سے دوچار ہوتے ہیں۔

ایک طرف ہم سود اور رشوت کو فروغ دینے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے دوسری طرف پھر ہم حالات کا رونا روتے ہیں۔ ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ اور اس کے پیارے رسول کے احکامات سے بغاوت کرنے والے لوگ مہینے کے 30 اور سال کے پورے 365 دن روتے ہی رہتے ہیں۔ حرام اور مردار کھانے سے انسان موٹا ضرور ہوتا ہوگا لیکن صحت مند، پرسکون اور کامیاب کبھی نہیں رہتا، جو لوگ حرام پر حرام کھانے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں چہرے کا نور اور دل کا سکون ان سے اٹھا لیا جاتا ہے۔

ایسے لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر بھی انسان کو ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ رشوت کے ساتھ پھر سکون کیلئے بھی در بدر پھرتے ہیں۔ ایک بار گاؤں جاتے ہوئے بٹگرام شہر میں ایک پولیس اہلکار سے میری ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں رشوت کی بات چلی تو اس نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار میں نے کسی سے 500 روپے رشوت لی، اتفاق سے اسی دن تھانے سے چھٹی پر مجھے گھر جانا ہوا، گھر پہنچا تو دیکھا کہ میری چھوٹی بیٹی جن سے میں بہت پیار کرتا تھا ۔

درد اور بخار سے تڑپ رہی تھی اسی وقت ا س کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ پانچ سو روپے وہ اور پانچ سو اپنی جیب سے دے کر اس کیلئے دوائی لی۔مجھے اندازہ ہوگیاکہ رشوت لینے کاانجام کیاہوتاہے۔۔؟اسی وجہ سے اسی وقت توبہ کی کہ آئندہ ایک روپیہ بھی کسی سے رشوت نہیں لوں گا۔ اس کے بعد وہ دن اور آج کا دن میں نے رشوت لینا تو دور اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔

جن لوگوں کے اندر ایمان کا ایک ذرہ بھی ہو جب بھی وہ کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں تو اللہ ان کو راہ راست پر لانے کیلئے فوراً کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور دیتا ہے۔ عقل مند اور کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس قسم کے اشاروں سے عبرت حاصل کر کے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو لوگ سرکشی اور گمراہی میں حدیں پھلانگ دیتے ہیں وہ پھر تباہی اور بربادی کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم بھی دنیا کی حرص و لالچ میں رشوت اور سود سے رشتہ استوار کرکے تباہی و ناکامی کی قبر میں زندہ دفن ہو جائیں ہمیں اپنے رحیم و کریم رب کی طرف رجوع کرکے ان گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ تائب ہونا چاہیے۔لوگ رشوت دینے کو مجبوری سمجھ رہے ہیں کیونکہ اگر رشوت نہ دی جائے تو کام نہیں ہوتے لیکن اگر قبر و حشر کو سامنے رکھا جائے تو اس لعنت سے بچنا اور جان چھڑانا بھی بہت بڑی مجبوری ہے۔

سگریٹ، نسوار، چرس اور شراب کے نشے کو اگر چھوڑا جا سکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں۔۔ ؟ جہنم کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ سرکاری اہلکار و افسران ہوں یا عام لوگ۔ اس لعنت سے اسی دنیا میں ہی جان چھڑا دیں تاکہ جہنم کی آگ سے بچا جاسکے۔ دنیا کی یہ زندگی چند دن کی مہمانی یا میزبانی ہے۔ ہم سود اور رشوت لیں یا نہ۔ یہ دن تو پھر بھی گزر ہی جائیں گے لیکن اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ ایسے میں اگر ہمارے ہاتھ رشوت اور منہ سود سے کالا ہوگا تو پھر وہاں ہم کیاجواب دیں گے۔۔؟ اس لئے روز محشر سرشرم سے جھکانے کی بجائے بہتر ہے کہ ہم آج ہی رشوت اور سود سمیت تمام گناہوں اور برائیوں سے اپنے ہاتھ ہی اٹھا لیں۔ اللہ ہمیں ہر برائی سے بچائے۔۔۔۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :