راستوں کی تلاش!

اتوار 29 مئی 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں عرصے سے ان راستوں کی تلاش میں تھا لیکن یہ راستے ہمیشہ میری جہالت اور میری کم علمی کی بلند دیواروں کے پیچھے چھپے رہتے تھے۔ میں ان راستوں کی طرف بعد میں آوں گا پہلے میں آپ کو دو افراد کا تعارف کروانا چاہتا ہوں ۔ پہلے کا نام ہے قسطنطین افریقی ،یہ 1020میں پیدا ہوا اور1087میں وفات پائی، یہ عرب تاجر تھا ، الجزائر میں پیدا ہوا،یونانی، لاطینی اور عربی زبان پر مکمل عبور رتھا ،دنیا کے مختلف ممالک میں گھومتا رہا ، شام، روم ، ہندوستان ،عراق اور حبشہ کی درسگاہوں سے علم حاصل کیا ،اٹلی کے ساحلی شہر سالرنومیں یورپ کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی تو یہ سالرنو آ گیا ، یہاں اس نے دیکھا اٹلی کے لوگوں کا معیار زندگی بہت پست ہے ، بیماریاں عام ہیں لیکن علاج کرنے والا کوئی نہیں ،لوگ علاج کے لیے جڑی بوٹیاں اور ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں ، جادو ٹونا عام ہے ، لوگ گھروں میں بیمار پڑے رہتے ہیں حکومت کی طرف سے علاج معالجے کا کوئی انتظام نہیں ، اس نے عہد کیا وہ اپنے وطن الجزائر واپس جائے گااور طب کی تعلیم حاصل کر کے یہاںآ کر لوگوں کا علاج کرے گا۔

(جاری ہے)

وہ واپس الجزائر گیا ، تین سال تک طب کی تعلیم حاصل کی اور واپس اٹلی آ کر لوگوں کا علاج شروع کرد یا۔ وہ جب واپس آیا تو اس کے پاس طب کی مختلف کتابیں تھیں جو وہ اپنے ساتھ سالرنو لے آیا تھا ، یہاں آکر اس نے عیسائی راہبوں کے ساتھ اپنے روابط بڑھا دیئے اور کچھ عرصہ بعد عیسائیت اختیار کر لی ۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات عیسائی راہبوں کے ساتھ خانقاہوں میں گزارے ۔

دوسرے شخص کا نام ہے جیرارڈ کرمونی ،یہ عربی اور یونانی کتابوں کا ماہر تھا ،یونانی علوم کے ذخیرے پر اس کی گہری نگا ہ تھی ، اس نے بہت ساری یونانی کتب کا لاطینی میں ترجمہ کیا ، فن ترجمہ پر مکمل عبور تھا ،یہ یونانی کے ساتھ عربی ادبیات اور عربی علوم کا پر بھی دسترس رکھتا تھا اس نے لاطینی زبان میں فلکیات کی سب سے پہلی کتاب بھی تحریر کی اور یہ اپنے زمانے کا مشہور موٴلف بھی کہلایا ۔

ان دوافراد کے تعارف کے بعد ہم واپس آتے ہیں ان راستوں کی طرف، میں نے اپنے محدود مطالعے کے مطابق آج تک جتنا بھی لٹریچر پڑھا اور میں جس دانشور سے بھی ملا میں نے ہمیشہ یہی سنا کہ یورپ کی تحریک احیاء ، نشاة ثانیہ اور مغربی تہذیب کی ترقی مسلمان سائنسدانوں ، فلسفیوں اور اسلامی تہذیب سے حاصل کردہ علوم وفنون کی بنا پر ہوئی ، کہنے کی حد تک یہ ایک رٹا رٹایا جملہ ہے اورعموماہم بحث اور گفتگو کے دوران یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ” مغرب نے جتنی بھی ترقی کی اس کے پیچھے عربوں اور مسلمانوں کا ہاتھ ہے “ کہنے کی حد تک یہ بات ٹھیک ہے لیکن میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ان راستوں کو تلاش کیا جائے جن راستوں سے ہو کر اسلامی علوم وفنون یورپ پہنچے اور اس جملے کی علمی بنیادوں کا کھوج لگایا جائے ۔

میں اپنے محدود مطالعے کی بنیاد پر چند ایسے راستوں کی نشاندہی کے قابل ہوا ہوں جن راستوں سے ہو کر اسلامی علوم فنون یورپ پہنچے ۔ اس سلسلے میں جن دو افراد کا تعارف کیاکرایا گیا ہے وہ ان راستوں کا ہر اول دستہ ہیں ، جیرارڈ کرمونی عربی کتب کا مشہور ترین مترجم تھا اس شخص نے نوے سے زائد کتب کا لاطینی میں ترجمہ کیا ان میں سے بعض خالص عربی کتب تھیں اور بعض وہ لاطینی کتابیں جنہیں عربوں نے اپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کر لیا تھا ،یہ شخص اپنے ہم عصروں میں عربی علوم کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جاتا تھا ، اس نے کئی عربی کتب کو اپنی کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی ، اس نے لاطینی زبان میں فلکیات کی جو سب سے پہلی کتاب تحریر کی خود کو اس کا موٴلف ظاہر کیالیکن بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کی یہ کتاب الفرغانی اور البتانی کی کتب کے اقتباسات پر مبنی تھی اور اس پر مستزاد کہ یہ ان فلکی حسابات کو ٹھیک طرح سے پیش بھی نہ کر سکا، ایک عرصے تک اس کی یہ کتاب مغربی سائنسدانوں کے لیے مرجع کی حیثیت سے جانی جاتی رہی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو عربی کتب کا چربہ تھا۔

قسطنطین افریقی نے کا کردار بھی اس حوالے سے اہم ہے ، اس کے بارے میں ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی کہ وہ اصلا عیسائی تھا یا اس نے بعد میں عیسائیت اختیار کی ، الجزائر سے طب کی تعلیم حاصل کرنے بعد جب وہ سالرنو آیا تو عیسائی راہبوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو گیا ، وہ عربی اور یونانی علوم پر و فنون پر مکمل دسترس رکھتا تھا ،ا س نے ستر سے زائد عربی کتب کا ترجمہ کیا ، اس نے عربی کتب کے ترجمے کے لیے بڑا دلچسپ کام کیا ، اس نے سالرنومیں ایک تنظیم قائم کی ، اپنی ٹیم بنائی اور یکسو ہو کر ترجمے میں مشغول ہو گیا ، وہ اپنی ٹیم میں سب سے بڑا ماہر سمجھا جاتا تھا ، وہ خود اونچی جگہ پر بیٹھتا اور دیگر مترجمین کو اپنے ارد گرد بٹھالیتا ، اس کی ٹیم کے دیگر افراد کی علمی استعداد بہت کم تھی اس لیے سب پر اس کا رعب قائم رہتا۔

جیرارڈ کرمونی کی طرح اس نے بھی کئی عربی کتب کو اپنی طرف منسوب کرنے کی کشش کی ، اس نے عربی کی کئی اہم اور مشہور کتب کو اپنی طرف منسوب کیا ، علی بن موسیٰ مجوسی کی مشہور کتاب کامل الصناعة الطبیةکے بارے میں تقریبا دو سو سال تک یہی مشہور رہا کہ یہ قسطنطین افریقی کی کتاب ہے ، دوسو سال بعداصل کتاب کسی دانشور کے ہاتھ لگ گئی تب پتا چلا کہ یہ تو علی بن موسیٰ کی کتاب ہے اور قسطنطین نے اس کو اپنی طرف منسوب کر لیا تھا۔

قسطنطین نے عربی علوم وفنون کا بہت بڑا ذخیرہ لاطینی اور دیگر زبانوں میں منتقل کیا ، خاص کر اٹلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں طب کی تعلیم قسطنطین کے ذریعے عام ہوئی، اس سے پہلے لوگ علاج معالجے کے لیے عوامی ٹوٹکوں کا استعمال کرتے تھے ، خرافات عام تھیں ،توہمات کی بھر مار تھی لوگ علاج کی بجائے پادریوں پر ذیادہ یقین رکھتے تھے ، کوئی بیمار ہوتا تو پادری کے پا س جا کر اس کے لیے دعاکروائی جاتی ، یورپ کے پاس طب کی تعلیم کا اپنا کوئی نصاب اور نظام نہیں تھا اور یونانی طب کو وہ لوگ بھول چکے تھے ، اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ مسلمانوں نے طب پر جو کام کیا ہے اسے اپنی زبانوں میں منتقل کر لیا جائے اور یہ کام قسطنطین نے خوب کیا۔


عربی و اسلامی علوم وفنون کے ترجمے اور ان کی یورپ منتقلی میں ایک اور نام اہم ہے ، یہ اٹلی کا مشہور عالم لیونارڈو فیبوناجی ہے ، اٹلی کے ساتھ مسلمانوں کے روابط کی وجہ سے یہاں کے عوام کو علوم وفنون کی ہوا لگ چکی تھی اور انہیں عربوں کی مقابلے میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہو چکا تھا ، لیونارڈو کو جب مسلمانوں کے علوم کی اہمیت کا احساس ہوا تو اس نے عربی زبان سیکھنے کا قصد کیا ، سفر کا سامان باندھا اور مشرق کی طرف سفر پر نکل پڑا ، مختلف جامعات میں پڑھتا رہا ،عربی زبان سیکھی ،اسلامی علوم وفنون کا مطالعہ کیا اور کچھ اہم کتب اپنے ساتھ روم لے آیا ۔

یہ ریاضی کا ماہر تھا اور اسے نے روم واپس آکر ریاضیات پر کام شروع کر دیا ،یہ شام اور تیونس میں ریاضی سیکھتا رہا تھا ، اس نے تاریخ ریاضیات میں کئی اہم کتب اور اہم انکشافات کو اپنی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں حقیقت کھلی کہ یہ سب تو عربی کتب کے اقتباسات پر مبنی تھا۔ اس کے علاوہ اور کون سے راستے ہیں ان کا ذکر اگلے کالم میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :