سب کو سب ہی سے ڈر ہے

جمعرات 19 مئی 2016

Sajid Khan

ساجد خان

اب تو پاکستان میں بھی سیاست اور موسم پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ موسم میں تبدیلی کی وجہ تو ماحو کی وجہ سے ہے گرمی اور حدت کے موسم کا دورانیہ بڑے گیا ہے اور اوپر سے ستم یہ کہ بجلی کا کوئی اعتبار نہیں۔ بجلی اور سیاست دونوں پر اعتبار کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے بجلی کی قیمت کا فارمولا اتنا پیچیدہ اور ناقص ہے کہ عوام اس کو بھی خراج کے طور پر ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

حکومتی اشرافیہ آئے دن بجلی کی ترسیل کے لیے نت نئے افسانے سناتے نظر آتے ہیں بجلی کے بڑے وزیر خواجہ آصف اور چھوٹے وزیر عابد شیر علی ایک دوسرے کی بات بھی نہیں سنتے۔ ایسے میں عوام کی بات کون سنے گا۔ اب کار سرکار کے لوگ عوام کو امیددلا رہے ہیں کہ بجلی کے معاملات 2018 میں ٹھیک ہو سکتے ہیں 2018 اصل میں الیکشن کا سال ہے۔

(جاری ہے)

مگر ملک میں سیاسی موسم بہت ہی خراب ہوتا نظر آرہا ہے۔

اس خراب سیاست اور خراب موسم نے جمہوریت کے ماحول کو خطرہ بھی لاحق کر دیاہے۔
خبر ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ پانامالیکس کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی بدنظمی نظر آرہی ہے اور باہر بھی ہمارا چہرہ متاثر ہو رہا ہے آپ اس معاملے پر توجہ دے کر اس کو ختم کروائیں۔ اور یہ بات کوئی ایسی نہیں تھی کہ اس کو اہم خبر کی حیثیت دی جاتی تاہم کرپشن کے معاملات ایسے ضرور ہیں جن پر حکومت کو بہت ہی تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔


صوبہ بلوچستان میں اعلیٰ اختیاراتی نوکر شاہی شخصیت کے گھر سے بھاری رقوم کی برآمدگی صوبے کے کئی لوگوں پر الزام لگا رہی ہے اور کچھ اہم لوگ وزیراعظم کے بہت ہی قریب سمجھے جا رہے ہیں۔ نوکر شاہی، سیاسی اشرافیہ اور مقامی سردار جو کھیل دکھا رہے ہیں وہ جمہوریت کی آڑ میں ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ حکومتی ادارے اس معاملے کو حسب معمول روایتی طریقے سے دیکھ رہے ہیں ۔

اس وقت پاکستان کی داخلی صورتحال دہشت گردی کی وجہ سے بہت ہی ابتر ہے۔ فوج اس وقت ضرب عضب میں مصروف ہے دہشت گردوں کو بہت حد تک پسپا کیا جا چکا ہے۔ مگر ان کے سہولت کار جو اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر جگہ اپنی جگہ بنا چکے ہیں اس کے لیے ایک اور ضرب عضب کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے بد نظمی، بدانتظامی پرتوجہ دے جس کی وجہ سے کرپشن کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔


اس وقت کرپشن کے معاملے پر پیپلز پارٹی میں کافی تقسیم نظر آرہی ہے صوبہ سندھ کی پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر عاصم کے مقدمے کی وجہ سے چپ سادھ رکھی ہے۔ صرف پنجاب ونگ کرپشن کے معاملات پر حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے مگر ان لیڈر خورشید شاہ آئے دن سابق صدر آصف زرداری کے فرمودات کے تناظر میں بیان بدلتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی واحد امید بلاو زرداری میدان عمل میں نظر آرہا ہے وہ خاصی سخت زبان استعمال کرتا ہے۔

وہ واحد نوجوان ہے جس کے بارے میں مسلم لیگ نواز بہت سوچ سمجھ کر بات کرتی ہے شاید پرانے حلیف آصف زرداری کا خیال آتا ہے آصف زرداری کو اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف کی شفقت کی وجہ سے پیپلز پارٹی پانچ سال پورے کر سکی اور ان کی صدارت بھی برقرار رہی اگرچہ انہوں نے اس کی قیمت وزیراعظم کی قربانی دیکر پوری کی تھی۔
پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کو بچانے نکلے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ پارٹی کو اگر زندہ رکھنا ہے تو کرپشن کے خلاف سب کا ساتھ دینا ہوگا۔

بظاہر ان کا نشانہ وزیراعظم پاکستان لگ رہے ہیں ۔ یہ بات درست نہیں ہے کرپشن کے معاملات پرحکومتی طریقہ کار مناسب نہیں ہے ایک طرف وزیراعظم پاکستان خراب صحت کے باوجود محترک نظر آئے اور جلسے بھی کئے مگر جن لوگوں کے ساتھ انہوں نے خیبر پختونخوا میں جلسہ کیا ان کی اپنی حیثیت بہت مخدوش ہے۔ ان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جاتے رہنا چاہیے یہ وقت کی ضرورت ہے اور ان کے پاس معقول سیاسی قوت بھی ہے ۔

ارکان اسمبلی ان کے بات سنتے بھی ہیں وہ اسمبلی اور سینیٹ کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے جلسوں سے تاثر ملا کہ وہ قبل از وقت انتخابات کا سوچ رہے ہیں اور یہ ہی بات حزب اختلاف چاہتی ہے۔
دوسری طرف عمران خان کی جلسوں کی سیاست سے بھی یہ تاثر ملا کہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے تیاری کر رہے ہیں جبکہ پنجاب اور مرکز کے وزراء عمران خان کے خلاف جو زبان استعمال کر رہی ہیں اس سے بھی مسلم لیگ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اس وقت میاں نواز شریف کے خلاف عوام نہیں ہیں ان کو اگر خطرہ ہے تو ان لوگوں سے جو اسمبلی اور سینیٹ میں ہیں ملک میں ایک اور تاثر عام ہے کہ آصف زرداری اور میاں نوازشریف دونوں ایک ہی طرف ہیں۔

آصف علی زرداری کی کوشش ہے کہ پارٹی ایک حد تک میاں نواز شریف کو پریشان رکھے اور اگر وہ حد بڑھ گئی تو ان کو بھی پریشانی لاحق ہو سکتی ہے ۔ اب ایک دفعہ پھر ملک سے باہر پاکستان کے مہربان اور قدردان دوست آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے مشاورت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگلے چند دن میں میاں صاحب لندن جانے والے ہیں جہاں وہ اپنا سیاسی اور جسمانی چیک اپ کرواسکتے ہیں۔

یہ سب کچھ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں نیا نہیں ہے دوسری طرف کرپشن کے خاتمے کے لیے آئی ایم ایف ہمارے اداروں کی نجکاری کروا رہا ہے پھر یہ بھی خبر ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے پرسے دست شفقت کا سایہ ابھی مزید رکھ سکتا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ فریقین کے پاس وقت کم ہے ملک بھر میں بے چینی تو ہے ایک تو بجٹ کے معاملات میں بھی حکومتی لوگ یکسو نہیں ہیں پھر نوکر شاہی کی کرپشن اتنی عام ہے کہ اب وہ نظام کا حصہ بن چکی ہے۔

پھر اختیار اور اقتدار میں شریک لوگ عوام کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں چند دن پہلے ہی فیس بک پر ایک لطیفہ پڑھا کہ ایک مقتدر شخصیت نے مقامی اسکول کا دورہ کیا ایک بچے نے کہا جناب 14 مہینے ہو گے ہیں اسکول ٹیچر نہیں آیا ۔پوچھا پھر اسکول کیسے چل رہا ہے بچہ بولا جناب جیسے ملک چل رہا ہے تو ملک چلانے کے مشورے باہر نہیں ملک کے اندر کرنے ضروری ہیں سو سوچ لیں کہ کب کیا کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :