امان اللہ خان کی جہد مسلسل

جمعہ 29 اپریل 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

جدوجہد آزادی کشمیر کے ایک عہد کا اختتام جناب امان اللہ خان کے اس دارِ فانی سے چلے جانے کے بعد ہوا۔ پچاسی سالہ زندگی میں انہوں نے اپنے مادر وطن کی آزادی اور مختاری کے لئے جوجدوجہد کی اس کا اعتراف اُن کے نظریاتی مخالفین کو بھی ہے۔ اس طویل جدوجہد انہوں نے اپنے اصول نہ بکنے، نہ جھکنے اورنہ رکنے کی عملی تصویر پیش کی۔ اُن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب نہ کوئی کشمیر کے ٹکڑے کرسکے گا اور نہ ہی کشمیری عوام کی منشا کے بغیر کوئی حل ممکن ہوگا۔

وہ ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیوں کے درمیان ایک پل اور رابطہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وادی کشمیر ہو یا جموں، آزادکشمیر ہو یا گلگت بلتستان، ہر جگہ ان کا نظریہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔

(جاری ہے)

دنیا بھر پھیلے ہوئے کشمیری ان کی وفات پر دلی صدمے سے دوچار ہیں۔ بقا صرف ذات خدا ہے باقی ہر شئے نے ایک دن اپنے اختتام کو پہنچنا ہی ہے لیکن کچھ لوگ اس دنیا سے جاکر بھی دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

امان اللہ خان انہی میں سے ایک شخصیت ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے داعی تھے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان سے اُن کی محبت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی اور وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ وہ بانی پاکستان قائد اعظم کی شخصیت کا بہت احترام کرتے تھے اور اُن سے بہت متاثر تھے۔ و ہ قا ئد اعظم کی کشمیر پالیسی کی روشنی میں اپنے خودمختار کشمیر کے نظریہ کی وضاحت کرتے تھے ۔

اُن کی قیادت میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تحریک آزادی کشمیر کا ہروال دستہ بن گئی۔ پاکستان کی اکثر حکومتوں کے ناروا سلوک کے باوجود انہوں نے مملکت پاکستان یا نظریہ پاکستان کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا ۔ وہ حکومت اور ریاست کے فرق کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور یہی درس انہوں نے اپنے کارکنوں کو دیا۔ انہوں نے ایک عام آدمی کی طرح اپنی زندگی کی جدوجہد کی اور ہر طرح کے نامساعد اور مشکل حالات میں ہمت نہیں ہاری ۔

سیاست اور تحریک آزادی کشمیر سے ہٹ کر بھی اُن کے زندگی ہر کسی کے لیے رہنمائی کا باعث ہیں اور اُن کی کتاب جہد مسلسل کا مطالعہ سب کے لیے بہت مفید اور رہبر کا کام دے سکتا ہے۔
اُن میں کچھ ایسی خوبیاں تھیں جو دورحاضر کے بہت سے سیاسی رہنماؤں اور سرکردہ شخصیات میں مفقود ہیں اور میں ذاتی طور پر اس کا گواہ ہوں۔ مجھے یاد اُن سے میری پہلی ملاقات ۱۹۸۶ء میں لاہور میں عارف کمال بٹ کے گھر پر ہوئی۔

وہ برطانیہ بدر ہونے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ میں اپنے بھائی طارق محمود چوہدری کے ہمراہ انہیں ملنے کے لئے گیا اور ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اس ملاقات میں کشمیر فریڈم موومنٹ کے سپریم کمانڈر سید عبدالحمید دیوانی مرحوم بھی موجود تھے۔ اس پہلی ملاقات کے بعد پھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور سویڈن آکر اُن سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ اُن کی شخصیت میں نہ بناوٹ تھی اور یہ ہی ریا کاری۔

بہت سے سیاسی رہنماؤں اور دیگر شخصیات سے ملنے کا تفاق ہوا ہے لیکن امان اللہ خان جیسا خلوص، عاجزی، اعلیٰ اخلاق اور ملنساری کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملی۔ وہ ہر ملنے سے بہت احترام سے پیش آتے اور اس میں بڑے یا چھوٹے کا فرق روا نہ رکھتے تھے۔ اپنے کارکنوں کے نام یاد رکھتے تھے اور اکثر انہیں ٹیلی فون بھی کرلیتے تھے۔ ستمبر ۲۰۰۷ء میں اُن سے جب ملاقات ہوئی توانہوں نے اپنی خود نوشت جہد مسلسل کا دوسرا حصہ مجھے اپنے دستخط اور ستائش کے الفاظ کے ساتھ عنائیت کیا۔

میرے لئے یہ بھی اعزار ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں میرا ذکر بھیکیا ہے۔ ان میں اعلیٰ انسانی اوصاف اور ایک قائد کی خوبیاں تھیں۔ کسی لالچ یا خوف نے انہیں اہپنے مقاصد سے دور نہ کیا اور وہ ہر فورم پر اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ سیاسی جدوجہد میں غلطیاں اور ایسے فیصلے بھی ہوجاتے ہیں جن کے نتائج مضررساں ہوتے ہیں ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے وہی فیصلے کیئے جو تحریک آزادی کے لیئے بہتر تھے۔

ان کی وفات پر سرنگر میں کرفیو کا نفاذ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ امان اللہ خان کا نظریہ سے کس قدر پھیل چکا ہے۔ سری نگر، سوپور، بارہ مولہ، ہندواڑہ، اننت ناگ، پلوامہ اور ریاست جموں کشمیر کے اور بہت سے علاقوں غائبانہ نماز جنازہ اور تعزیتی اجتماعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کشمیری عوام کے دلوں میں اُن کے لئے کس قدر محبت اور احترام ہے۔
وہ ریاست جموں کشمیر کے تمام باشندوں کے حقوق کے علمبرادر تھے اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کے مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسلام نظریہ حیات کے حامی تھے۔

انہوں نے دومرتبہ عمرہ اور روضہ رسول پاک کی زیارت بھی کی۔ اپنی کتاب جہد مسلسل کی پہلی جلد کے صفحہ ۴۷ پر وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قدروں پر میرا پختہ ایمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب عمرہ کرنے گئے تو خانہ کعبہ کو دیکھ کر فرط جذبات سے میرے آنسو نکل گئے اور ہچکی بندھ گئی۔ طواف، ہجر اسودکو بوسہ دینے اور نماز کی ادائیگی کے دوران بھی دل و دماغ کی ایک عجیب سی کیفیت رہی۔

جب میں نے مسجد الحرام کی پر جلال عمارت کو اندر اور باہر سے دیکھا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیاکہ مسلمان بھی ایسے عظیم ورثے کے مالک ہیں۔ یہ عمارت اپنے جمال اور جلال دونوں حیثیتوں سے یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے گرجا گھروں سے کہیں ارفع ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں نماز کی ادئیگی کے بعد جب روضہ مبارک کے پاس سے گذار تو دل و دماغ کی میں شدت کی کیفیت طاری ہوگئی۔

انہوں نے اپنی کتاب میں کامیابی کی کسوٹی کے لئے جو اہم رہنماء اصول دیے ہیں انہوں میں نے اپنی نوٹ بک میں لکھ رکھا ہے۔ ہر شخص ان اصولوں پر عمل کرکے زندگی میں کامیابی اور عروج حاصل کرسکتا ہے۔ اُن صولوں میں خلوص، منزل کا تعین، مسلسل محنت، جھوٹ سے احتراز، ثابت قدمی، خود اعتمادی، قوت برداشت، اخلاقی جرات، کسرِ نفسی، مشکلات سے استفادہ، یقین محکم، قول و فعل میں ہم آہنگی، بلند نظری، خود احتسابی، دوسروں پر اعتماد، میانہ روی، مناسب معلومات، وسیع النظری، انصاف پسندی، خود داری ، منلساری اور زندہ دلی شامل ہیں۔

انہی اصولوں کے تحت وہ باعزت زندگی گذار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگرچہ اُن کی زندگی میں اُنہیں کامیابی کی منزل نہ ملی لیکن اُن کے اپنے الفاظ میں کہ اگر آج مر جاؤں تو کم از کم اپنی سیاسی کارکردگی کے بارے میں اطمینان سے مروں گا۔ ان کی شروع کی گئی جدجہد جاری ہے اور قافلہ آزادی یٰسین ملک کی قیادت میں رواں دواں ہے جس سے اُن کی روح کو اور بھی اطمینان نصیب ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :