پردیسیوں کاغم

منگل 15 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

علامہ مقصود احمد کشمیری بھی میرے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں، صحافی بننے کے شوق میں ملک کے کئی بڑے اخباروں سے دھول ہم نے ایک ساتھ چھانی، وہ تو پھر صحافی بننے میں کامیاب ہو گئے مگر میں۔۔۔۔؟ صحافی تو نہ بن سکا البتہ کالم نگاری کے ذریعے قلم کی چوکیداری کاشرف ضرورنصیب ہوا۔ کالم نگار بنناویسے بھی میرا دیرینہ خواب تھا جو پروردگار عالم نے بہت جلد پورا کیا۔

مقصود احمد کشمیری نیوز کے ساتھ کئی اخباروں کے ایڈیٹوریل بورڈمیں ذمہ دارپوسٹوں پرفرائض سرانجام دینے کے ساتھ دیگرکئی کلیدی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ خاموشی۔۔شرافت۔۔عجزوانکساری کے لبادے میں قلم کے ذریعے دوسروں پر سنگ باری مقصود احمد کشمیری کاہمیشہ خاصا رہاہے۔اسی خاصے نے اسے فرش سے عرش نہیں ۔

(جاری ہے)

۔اپنے وطن سے سات سمندرپارپہنچایا۔موصوف کی سنگ باری سے زخمی کسی سیاسی چور، لٹیرے یا سیاسی شہید کی دعااس قدر اچانک قبول ہو گئی کہ علامہ راتوں رات اٹلی پہنچ گئے جس کی وجہ سے مزیدکئی چوراورلٹیرے علامہ کی سنگ باری کی زدمیں آنے سے بچ گئے۔

گھر کا دیا جلانے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے مقصود احمد کشمیری آج کل سات سمندر پار اٹلی میں زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔ چند روز پہلے رابطہ ہوا تو دیس پردیس کی باتوں اور سات سمندر پار پردیسیوں کے ذکر اور مسائل پرمیری آنکھیں بھی نم سی ہو گئیں۔ ہمارے نوجوان گھر کا دیاجلانے اور اپنوں کی خوشی کیلئے سات سمندر کراس کرتے ہیں لیکن پردیس میں جا کر ان کو جن مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انتہائی دردناک ہے۔

مقصود احمد کشمیری کی طرح میرے کئی خونی رشتہ دار جن میں میرے بھائی مومن خان، کزن غلام یوسف،بہرام،شمال،محمدظاہر اور پیارے انکل حضرت یوسف،محمدامروز ودیگرشامل ہیں گھرکانظام چلانے اورپیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے سات سمندر پار پردیس کاٹ رہے ہیں۔ میرے چھوٹے چچا محمد امروز دلسوز جب پردیس کے حالات سے لڑتے لڑتے تھک ہار جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس بار وطن واپس آکر پھر کبھی واپس نہیں جاؤں گا لیکن ہر باریہاں آکر حالات کے ہاتھوں مجبوراً ان کوپھر دوبارہ پردیس کی آگ میں خود کو جلانے کیلئے سات سمندر پار محو پرواز ہونا پڑتا ہے۔

اس وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اٹلی، آسٹریلیا، کویت سمیت کئی ممالک میں ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانی روزگار کی غرض سے مقیم ہیں۔ ان ممالک میں کئی کے تو حالات بہتر اوروہاں پاکستانیوں کے ساتھ غیروں کارویہ بھی تسلی بخش ہے لیکن کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پاکستانی ملازمین کا بری طرح استحصال عرصہ درازسے جاری ہے۔ عرب ممالک میں پہلے پاکستانیوں کے ساتھ نہایت ہی اچھا برتاؤ کیا جاتا تھا لیکن دوسروں کو دیکھ کر اب عرب ممالک کے شیخوں نے بھی غریب اور مجبور پاکستانیوں کیلئے اپنی آنکھیں سرخ کر دی ہیں۔

اس لئے عرب ممالک میں روزگار کی غرض سے مقیم پاکستانی بھی اب حالات کا رونا رونے پر مجبور ہیں۔ چند روز پہلے سعودی عرب سے ایک رشتہ دار نے فون کرکے کہا کہ جب سے وطن سے آیا ہوں کام کررہا ہوں لیکن تنخواہ ابھی تک ایک مہینے کی بھی نہیں ملی ۔وجہ پوچھی تو کہا کہ کفیل بہت سخت ہے، کام لینے کے سلسلے میں تو انتہائی نرمی کا برتاؤ کرکے اپنا کام نکالتے ہیں لیکن جب تنخواہ کی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کی ایک نہیں دونوں آنکھیں الو کی طرح باہر کی جانب نکل آتی ہیں۔

اس ڈر سے کہ کہیں اس کی آنکھیں بالکل باہر ہی نہ آجائیں ہم ہر بار تنخواہ کی بات کرکے پھر فوراً خاموشی کی چادراوڑھ لیتے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب میں بن لادن کمپنی سے وابستہ ہزاروں پاکستانی جن میں ہزارہ اور خیبرپختونخوا کے بھی بڑے لوگ شامل ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے آج سعودی عرب میں خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔ غیروں کے دیس میں جانے والے ہمارے لاکھوں پاکستانی تو آج کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔

باہر کی دنیا کے مکینوں کو دوسرے ممالک میں جاتے ہوئے جب کوئی چھوٹاسا مسئلہ بھی درپیش آتا ہے تو نہ صرف ان کے سفارتخانے بلکہ حکمران بھی حرکت میں آجاتے ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ ہماری نہ ہمارے سفارتخانوں کو کوئی فکرہوتی ہے اور نہ ہی بے حس حکمرانوں کو۔ ہمارے کسی شہر ی سے جب باہر کے کسی ملک میں کوئی معمولی سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے یا وہ کسی اور مشکل میں پھنستا ہے تو پھر اس کے ساتھ اور اس کی پشت پر کوئی نہیں ہوتا۔

جبکہ دوسرے ممالک اپنے کسی شہری کو دوسروں کے رحم و کرم پر ایک منٹ کیلئے بھی نہیں چھوڑتے۔ اس ملک کا ہر شہری چاہے وہ یہاں رہے یا سات سمندر پار۔ وہ اس ملک و قوم کی عزت اورشان ہے۔ اس کے حقوق کا تحفظ اس ملک کے حکمرانوں پر فرض اور ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ بچہ اگر گھر میں نہ بھی رہے تو تب بھی والدین اس کا خیال رکھتے ہیں۔ پھر ہمارے یہ ہزاروں اور لاکھوں نوجوان جو روزگار کے سلسلے میں سات سمندر پار مقیم ہیں وہ ملک چھوڑ کر نہیں گئے اور نہ ہی ان کو پردیس کاٹنے کا کوئی شوق تھا۔

وہ ایک بڑی مجبوری کے ہاتھوں پردیسی بننے پر مجبور ہوئے ہیں ۔دوئم ان کی وجہ سے نہ صرف ان کے گھروں کا نظام چل رہا ہے بلکہ ان کی محنت، کوشش اور قربانیوں سے اس ملک کا زرمبادلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ وہ جو کچھ کما رہے ہیں وہ اسی ملک میں آرہا ہے کہیں اور نہیں جارہا۔ اس لئے ہمارے ان بے حس حکمرانوں کو تارکین وطن کے مسائل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ ویسے جو لوگ ملک میں مقیم لوگوں کے مسائل حل نہ کر سکیں وہ سات سمندر پار کیا تیر ماریں گے۔

۔۔۔؟ لیکن پھر بھی اگر یہ حکمران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اٹلی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کیلئے صرف آوازبھی اٹھائیں تو اس سے بھی پردیس میں رہنے والوں کا غم کچھ نہ کچھ ہلکا اور کم تو ضرور ہوگا۔ اس لئے حکمران تارکین وطن کو مفت کا مال اور غیروں کے ملازم سمجھنے سے گریز کریں بلکہ ان کے حقوق کیلئے عالمی سطح پر آواز اٹھائیں تاکہ باہر کی دنیا میں پاکستانیوں کا مزید استحصال نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :