گوہاٹی کا سبق

پیر 7 مارچ 2016

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

بارہویں ساوٴتھ ایشین گیمز پانچ سے سولہ فروری کے دوران بھارت کے شمال مشرقی شہروں گوہاٹی اور شائیلونگ میں کھیلے گئے۔ گوہاٹی بھارتی ریاست آسام کا مرکزی شہر ہے جبکہ شائیلونگ ریاست میگھالیہ کا دارالحکومت ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند تحریکوں کا مرکز ہیں۔تقریباً سوا تین کروڑ کی کل آبادی والی دونوں ریاستوں آسام اور میگھالیہ میں جاری علیحدگی کی تحریکوں اور ان کو کچلنے کے لئے ہونے والے فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں تیس ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

علیحدگی کی مسلح جدوجہد اور ان کو کچلنے کے لئے فوجی آپریشن جاری و ساری ہیں۔ ایسے حالات کے باوجود بھارتی حکومت نے گوہاٹی اور شائیلونگ میں سارک گیمز منعقد کر وا کر دنیا پر یہ ثابت کِیا ہے کہ بھارت کے ہر حِصے میں حکومتی رٹ قائم ہے اور بھارت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ بم دھماکوں سے گونجتے علاقوں میں بھی اپنی شرائط پر دیگر ملکوں کے آفیشلز اور کھلاڑیوں کو بلوا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

اِ س سے پہلے بھارت ، مشرقی پنجاب میں جاری خالصتان تحریک کو بھی کچل چکا ہے اور پنجاب کے شہر موہالی میں کرکٹ میچز منعقد کرکے حکومتی گرفت ظاہر کر چُکا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں بھارت کھیلوں کے کئی بڑے مقابلے منعقد کر وا چکا ہے۔ ان میں دوہزار دس میں بھارتی دارالحکومت دہلی میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز اور دوہزار گیارہ میں منعقدہ کرکٹ ورلڈ کپ کے کئی میچز بھی شامل ہیں۔

جبکہ ہاکی اور دیگر کھیلوں کے بھی کئی عالمی مقابلے منعقد کر وا چُکا ہے۔ کھیلوں کے کامیاب انعقاد سے بھارت نا صرف دنیا بھر میں اپنا سوفٹ امیج ابھار رہا ہے، بلکہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو بھی آگے بڑھا رہا ہے ۔ یہ بھارت کی خارجہ اور سیکیوریٹی پالیسیوں کی کامیابی ہے کہ وہ اپنی شرائط پر اپنے تمام پڑوسیوں اور دیگر ممالک سے بھی لوگوں کو اپنے ہر محفوط اور غیر محفوظ، اہم اور غیر اہم علاقے میں ہونے والے ایونٹس میں شرکت پر مجبور کر دیتا ہے۔

دھرم شالہ بھارت کا وہ شہر ہے جہاں اُسنے پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے باغی دلائی لامہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھارت اے کرکٹ ٹیم سے دھرم شالہ میں میچ کھلوانا اپنے اندر بڑا واضح مفہوم رکھتا تھا۔ چین کے قریبی اتحادی کو ڈکٹیٹ کر وانا یہ ظاہر کرتا تھا کہ بھارت ایک طاقت کے طور پر چین کا مقابل بن چُکا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اُس وقت بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین جناب شہریار خان ہی تھے جو وزارتِ خارجہ کے افسر اور سابق سیکرٹری خارجہ کے طور پر ڈپلومیٹک امور کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کا دوبارہ چیئرمین بننے کے بعد بھی اکیاسی سالہ شہریار خان کا ” تجربہ“ اُنکی بھارت کے ہاتھوں بار بار بننے والی درگت سے صاف ظاہر ہے۔ دھرم شالہ سے گوہاٹی تک کا سفر بھارت کی سفارتی اور دفاعی کامیابیوں کی کہانی ہے۔

بھارت کے پالیسی سازوں نے کھیلوں کے اس کامیاب سفر کو کیسے ممکن بنایا اس کا مطالعہ کافی دلچسپ ہے۔ چاہے اِس کو چور کی ڈاڑھی میں تنکا سمجھیں یا ردِ عمل کا خوف ، بھارت میں یہ سوچ بہت پختہ ہے کہ پاکستان جب چاہے بھارت میں گڑبڑ کروا سکتا ہے۔ اِسکا علاج بھارت نے یہ ڈھونڈا ہے کہ ہر ایسے عالمی ایونٹ سے کچھ عرصہ پہلے بھارت اچانک پاکستان سے مذاکرات کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔

اِن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لئے تمام پُرانی شرائط کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔بھارت بڑے زور و شور سے دنیا کو یہ باور کروانا شروع ہوجاتا ہے کہ وہ بات چیت اور پُر امن تعلقات پر یقین رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔پاکستان میں مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے سیاسی اور فوجی قیادت فوراً ایک پیج پر آجاتی ہے۔ اسلام آباد یا دہلی میں خارجہ سیکرٹری یا اس سے بھی اعلی سطحی مذاکرات کا ایک آدھ دور چل جاتا ہے یا کبھی ہمارے بھولے وزیر اعظم پاک بھارت میچ دیکھنے موہالی پہنچ جاتے ہیں۔

اور کبھی تو اس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور کِسی چھوٹے موٹے واقعے کو بنیا د بنا کر پاکستان پر اتنا پریشر بڑھا دیا جاتا ہے کہ پورا پاکستان بھارت میں ہونے والے ایونٹ کا پُر امن انعقاد یقینی بنانے کے لئے چوکیداری پر لگ جاتا ہے۔ بین السطور ، ضمانت حاصل کرتے ہوئے بھارت بڑی شان و شوکت سے عالمی ایونٹ کے کامیاب انعقاد سے فارغ ہوجاتا ہے اور مذاکراتی پرنالہ واپس وہیں گرنا شروع ہو جاتا ہے۔

تاہم اس تمام عرصے کے دوران بھی پاکستان میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں میں کمی نہیں آتی اور ایسی تمام منظم دہشت گردی کی کارروائیاں جِن کے تانے بانے بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے ملتے ہیں ، جاری و ساری رہتی ہیں اور پاکستان کا ایک غیر محفوظ ملک کا تصور قائم رہتا ہے۔ جب سے پاکستان میں دفاعی تنصیبات اور اہم اثاثوں پر دہشت گرد حملوں کی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں ،سری لنکن کرکٹ ٹیم کو نشانہ بنایا گیا ہے اور دہشت گردوں کی فنڈنگ اور ٹریننگ کے تانے بانے بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے ملنے شروع ہوئے ہیں، بھارت کی خارجہ اور دفاعی پالیسی نے مذاکراتی ڈھونگ کا یہ رُخ اختیار کر لِیا ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے واقعات پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ ڈھونگ اور ڈھنگ نمایاں ہوجاتے ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بھارت اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے داخلی سلامتی، سفارتی اور دفاعی ہر طرح کی صلاحیتوں کو دانشمندی سے استعمال کرتا ہے۔
پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل کار پر دازان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مگر مبارک باد کے اصل مستحق تب ہونگے جب پی ایس ایل کا انعقاد پاکستان میں ہوگا۔ گوہاٹی، دھرم شالہ اور شائیلونگ سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستانی پالیسی سازوں کو اپنے مُلک میں بین الاقوامی کھیلوں کے انعقاد اور مُلک کو محفوظ بنانے کے لئے داخلی سلامتی، بیرونی دفاع اور سب سے بڑھ کر سفارتی محاذ پر اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :