مسلہٴ کشمیرپر عالمی ضمیرخاموش کیوں؟؟؟

پیر 8 فروری 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

5 فروری کوپوری دنیامیں کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی منایا گیا ۔پاکستان میں ہرسال یہ دن انتہائی جوش وجذبے سے منایاجاتا ہے ۔اِس باربھی پاکستان میں کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی ،مظاہرے ہوئے ،ریلیاں نکالی گئیں اور تحریکِ آزادی کے حق میں قراردادیں منظورہوئیں ۔وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب نے مظفرآباد میںآ زاد کشمیراسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلہٴ کشمیر کے حل کے بغیرپاکستان اوربھارت خوشحال نہیں ہو سکتے ۔

اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ”اقوامِ متحدہ کی کچھ قراردادوں پرسیاہی خشک ہونے سے پہلے عمل درآمد ہوجاتا ہے لیکن عالمی ادارہ بتائے کہ وہ مسلہٴ کشمیرپر اپنی منظورکردہ قراردادوں پر عمل درآمداور تنازع حل کروانے میں کیوں ناکام ہوا ۔

(جاری ہے)

یہ اقوامِ متحدہ کی ساکھ کاتقاضہ ہے“۔کشمیری حُریت رہنماء سیّدعلی گیلانی نے5 فروری کے حوالے سے پیغام دیا ”مقبوضہ وادی میں پاکستانی پرچم لہرانے کی تحریک کشمیریوں کی پاکستان سے یکجہتی کاثبوت ہے ۔

مسلہٴ کشمیرکے حل کے بغیرخطّے میں امن واستحکام ممکن نہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد فیصلہ کُن موڑپر ہے اِس لیے پاکستان کوچاہیے کہ بین الاقوامی محاذگرم کرے اوردنیا پرمسلہٴ کشمیر کے حل کے لیے دباوٴ ڈالے “۔ حُریت رہنماء میر واعظ عمرفاروق نے کہا ”یومِ یکجہتی سے دنیاکو یہ پیغام ملتاہے کہ پاکستان مسلہٴ کشمیرکا ایک فریق ہے ۔ دنیاکو یہ پیغام بھی جاتاہے کہ جموں وکشمیر کے عوام تحریکِ آزادیٴ کشمیرمیں تنہانہیں”۔


5 فروری کوبطور ”یومِ یکجہتی ٴ کشمیر“ منانے کی بنیاد امیرِجماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم ومغفور نے رکھی جنہوں نے 5 جنوری 1989ء کولاہورمیں پریس کانفرنس منعقد کی جس میں پوری دنیامیں مسلہٴ کشمیر کواجاگر کرنے کے لیے 5 فروری کو ہڑتال کی اپیل کرکے یومِ کشمیر منانے کافیصلہ کیا ۔اُس وقت پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاں نواز شریف تھے اورمرکز میں محترمہ بینظیربھٹو وزیرِاعظم ۔

مرکزاور پنجاب میں محاذ آرائی کایہ عالم تھاکہ میاں نواز شریف اوربینظیربھٹو ایک دوسرے کاسامنا کرنے سے بھی گریزاں تھے لیکن قاضی صاحب مرحوم کی اپیل پردونوں نے ہی لبّبیک کہااور یوں یومِ یکجہتی کشمیرکا آغاز ہوا۔تب سے اب تک پاکستان ،مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیراور دنیابھر میں جہاں جہاں بھی کشمیری بستے ہیں ،یہ دِن اِس عزم کے ساتھ منایا جاتاہے کہ حصولِ آزادی تک یہ دِن منایا جاتارہے گا ۔

پاکستان میں حکومت آمریت کی ہویا جمہوریت کی ،سبھی متفق کہ کشمیریوں کی حمایت جاری رہے گی ۔ وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب نے ہربین الاقوامی فورم پرکشمیری عوام سے اظہارِیکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیاء میں اُس وقت تک امن کاخواب ادھوراہی رہے گاجب تک مسلہٴ کشمیرکو کشمیری عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق حل نہیں کیا جاتا ۔سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے تودوٹوک الفاظ میں کہا کہ مسلہٴ کشمیر تقسیمِ ہندکا نامکمل ایجنڈا ہے ،پاکستان وکشمیرلازم وملزوم ہیں ۔

خطے میں امن واستحکام کے لیے کشمیرمیں امن ضروری ہے ۔
سپہ سالارکے یہ الفاظ کہ ”پاکستان اورکشمیرلازم وملزوم ہیں “ ہمیں1946ء میں لے گئے جب حضرت قائدِاعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پرسری نگرکے دورے کے دوران یہ تاریخی الفاظ کہے کہ ”کشمیرپاکستان کی شہ رَگ ہے“۔ یہ ہمارے عظیم قائد کی بصیرت تھی جو اُنہوں نے بہت پہلے بھانپ لیاکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ادھوراہے ۔

قیامِ پاکستان سے صرف 25 دن پہلے 19 جولائی 1947ء کوسری نگرمیں سردارابراہیم کے گھرمیں ”قراردادِ الحاقِ پاکستان“ منظورہوئی لیکن جب کشمیریوں کے اِس فیصلے کوپرکاہ برابر بھی حیثیت نہ دی گئی تو 23 اگست 1947ء کو نیلابٹ کے مقام سے آزادی کی مسّلح جدوجہد کاآغاز ہواجس میں کشمیری نوجوانوں اور فاٹاکے پختونوں نے بھرپورحصّہ لیااور پندرہ ماہ کی مسلسل جدوجہدکے بعدجب مجاہدین سری نگر کے دروازے پردستک دے رہے تھے تواُس وقت کے وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہروگھبرا کراقوامِ متحدہ پہنچ گئے جہاں اقوامِ متحدہ نے 5 جنوری 1949ء کومتفقہ طورپریہ قرارداد منظورکی کہ کشمیریوں کو آزادانہ طریقے سے بذریعہ ووٹ پاکستان یابھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کاحق حاصل ہوگا ۔

اِس قرارداد کوجواہر لال نہرونے قبول کیالیکن ہندوپنڈت کی منافقت یوں سامنے آئی کہ اقوامِ عالم کے سامنے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کرنے کے باوجود کشمیرمیں فوج اتاردی اور65 سال گزرنے کے بعدبھی کشمیریوں کو یہ حق نہیں دیا جارہاجو یقیناََ عالمی ضمیرپر تازیانے کے مترادف ہے ۔اب سوال اُٹھتا ہے کہ اُس اقوامِ متحدہ کاکیا فائدہ کہ جواپنی ہی قراردادوں پرعمل کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتی ۔

یہ بجاکہ اقوامِ متحدہ امریکہ کے گھرکی باندی اوردَر کی لونڈی ہے اورامریکہ وبھارت کی آجکل گاڑھی چھنتی ہے لیکن کیاپوری دنیا صرف انہی دوممالک پر مشتمل ہے؟۔ کیایہ سمجھ لیاجائے کہ باقی اقوامِ عالم آزادوخود مختار نہیں بلکہ اِن کی غلامِ بے دام ہیں؟ ۔اگر اقوامِ عالم آزادوخود مختارہیں توپھر اِن کاضمیر کہاں جا سویاہے؟۔ انہیں لاکھوں کشمیریوں کے اُس خون کی لالی نظرکیوں نہیںآ تی جولگ بھگ چھ عشروں سے بہایاجا رہاہے ۔

ہزاروں عفت مآب بیٹیوں اوربہنوں کی عصمت دَری اوربھارتی فوج کے وحشی درندوں کی درندگی سے اُن کے ضمیرمیں خلش کیوں محسوس نہیں ہوتی؟۔ تحریکِ کشمیرشعبہ خواتین کی مقبوضہ کشمیر کی سربراہ محترمہ زمردحبیب نے اپنی کتاب قیدی نمبر 100 میں لکھا ”کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج تحریکِ آزادیٴ کشمیرکو کچلنے کے لیے کشمیری خواتین کوبراہِ راست جسمانی ،نفسیاتی اورذہنی تشددکا نشانہ بنارہی ہے“۔

زمردحبیب نے عالمی ضمیرکو جھنجوڑنے کے لیے بھارتی مظالم کے ناقابلِ تردیدثبوت پیش کرکے بھارت کامکروہ چہرہ بے نقاب کردیالیکن عالمی ضمیرپھربھی خوابِ خرگوش میں ۔ہٹلرکے یہودیوں کے ساتھ مظالم (ہولوکاسٹ) پربات کرنااور قلم اٹھاناقابلِ گردن زنی لیکن لاکھوں کشمیریوں کے خونِ لاحق پرعالمی ضمیر ”ٹُک ٹُک دیدم ودَم نہ کشیدم“۔ دہشت گردی پر امریکہ ”لنگوٹ کَس کے“ میدان میں اورحواری دائیں بائیں۔

سوال یہ کہ کیابھارت کشمیرمیں دہشت گردی نہیں کر رہا؟۔ کیاحق کی وہ آوازجسے اقوامِ عالم نے بھی تسلیم کیا ،اُس کو بزورِ بازو دبانادہشت گردی نہیں؟۔ ہم یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ اقوامِ عالم بھی زورآوروں کاہی ساتھ دیتی ہیں اوراُن کے ہاں بھی ”ہے جُرمِ ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :