غزہ مہذب دنیا کی سب سے بڑی جیل

ہفتہ 6 فروری 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جہاں یہودیوں کے مظالم کے واقعات تاریخِ عالم میں مشہور ہیں وہاں یہودی اسرائیلی ناجائز حکومت نے اس دور میں بھی ایک اور ظلم کی داستان رقم کی ہے۔فلسطین میں غزہ کی پٹی کو دس سال سے زمینی، ہوائی او بحری ناکہ بندی کر کے فلسطینیوں کی کثیر تعداد کو جیل میں بند کیا ہوا ہے۔ اسی پربرطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا تھا۔

پورے فلسطین کی طرح غزہ کی پٹی کے اندر بھی اسرائیلی فوج تعینات تھی۔ دس سال پہلے اسرائیل نے ایک حکمت عملی اور اوسلو معاہدے، جس کے تحت فلسطین میں دو حکومتی نظام قائم کرنا طے ہوا تھا، کے تحت غزہ سے فوج نکال لی تھی۔ اس معاہدے کے تحت مصر نے اسرائیل کی ناجائز حکومت کو تسلیم کیا تھا۔اس کے معاہدے کے تحت یاسرعرفات نے بھی بندوق کاندھے سے اُتار دی تھی۔

(جاری ہے)

اب ثابت ہو رہا ہے کہ یہ امریکا اسرائیل کی سیاسی چال تھی۔ امریکا کے وزیر خارجہ اب فرما رہے ہیں کہ فلسطین میں دو حکومتی نظام قابل عمل ہیں۔ غزہ سے انخلا کے بعد فلسطینیوں نے اسرائیل مظالم کے خلاف مزاحمت شروع کی اور اسرائیل پر دیسی ساختہ راکٹ فائر کئے جس سے کچھ اسرائیلی ہلاک و زخمی ہوئے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی جس سے پچاس سے زیادہ فلسطینی شہید اور تین کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔

فلسطینیوں نے سال ۲۰۰۶ء میں الیکشن میں حصہ لیا جس میں ڈالے گئے ووٹوں کا ۴۲/ فی صد حصہ حماس نے حاصل کیا۔فتح صرف صدارت بچانے میں کامیاب رہی۔جب اسرائیل کے مخالف حماس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اسرائیل کو یہ کامیابی ہضم نہیں ہوئی اور اُس نے غزہ کی ایک چھوٹی سی فلسطینی جمہوری حکومت پر تجارتی پابندی لگا دی۔موصولات تک حماس کی حکومت کو دینے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل نے اپنی فوجی جیلاد شالت کے اغوا کا الزام حماس پر لگا کر غزہ پر دوبارہ حملہ کیا۔جب سے حماس نے غزہ کاالیکشن جیتا تھا اسرائیل نے اس کی ناکہ بندی شروع کی ہوئی ہے۔اسرائیل نے غزہ پر پہلے حماس کے ۶/ فوجیوں کو شہید کیا تھا۔ جوابی کاروائی میں حماس نے راکٹ فائر کیے۔اس پر اسرائیل نے غزہ پر تیسری بار مکمل حملہ کر دیا جس سے حماس کے چودہ سو سے زائد فوجی اور شہری شہید ہوئے۔

چار ہزار مکا نات جن میں اسکول اور ہسپتال شامل ہیں تباہ کر دیے گئے۔بجلی پانی کی سہولیات بھی تباہ کر دی گئیں۔ اسرائیل کے صرف تیرہ فوجی مارے گئے۔غزہ کی اتنی سخت ناکہ بندی کی گئی کہ غزہ میں کچھ بھی داخل نہ ہونے دیا گیا جس میں تباہ شدہ مکانات کے لیے عمارت سامان بھی شامل ہے۔فاضل پرزے تک نہ داخل ہونے دیے۔ سخت احتجاج کے باجود ہر قسم کی چیزوں کو روک دیا گیا۔

جب اتنی سخت حالت ہو گئی تو مسلمان ملک ترکی نے ریلیف کے لیے ایک بحری” فریڈم فلوٹیلا“ غزہ لے جانے کا اعلان کیا تھا۔اس فریڈم فلوٹیلا میں مختلف ملکوں کے سماجی کارکن شامل تھے جس میں پاکستان کے مشہور صحا فی اور ٹی وی اینکر بھی شامل تھے۔ فریڈم فلوٹیلا کے جہازوں نے ترکی و یونان کی بندرگاہوں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ریلیف کے سامان سے لدے ہوئے بحری جہاز اسرائیلی سمندری حدود سے دور ابھی بین الاقوامی سمندری حدود میں ہی تھے کہ اسرائیل کے فوجی حملہ آوروں نے اس پر حملہ کر دیا اور ترکی کے جہاز ماوی مر مر پر حملے میں سات سماجی کارکن بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔

بعد میں ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلوقات ختم کر دیے تھے۔ دنیا بھر میں اس بہمانہ حملے کی شدید مذمت کی گئی اور اس طرح غزہ کی دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اسرائیل کے مظالم کا دنیا میں بھرپور چرچا ہوا۔پھر غزہ کے محصورین پرمصر کو کچھ رحم آیا اور اُس نے رفح کراسنگ کھول دی گئی۔ عام ٹریفک پر دستور پابندی تھی۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ۱۸/ سے۴۸/ سال کی عمر کے اشخاص کی رفح کراس کرنے پر پابندی بر قرار رہی۔

اسرائیل کی طرف سے صرف عمارتی سامان اور صنعتی خام مال آنے کی اجازت دی گئی جو کہ گنی چنی تعداد میں تھی۔ایک بار پھر دنیا کے بیس ممالک کے لوگوں کی انسانیت جاگ اُٹھی اور ان بیس تنظیموں نے انسانی ہمدردی کے تحت غزہ کے جیل خانے کو کچھ ضروریات زندگی دینے کے لیے بیس جہاز یونانی بندرگاہ پر جمع ہوئے انہوں نے ایک دوسرا فریڈم فرٹیلا غزہ لے جانے کا اہتمام کیا تھا جن میں یونان کی بندر گاہ نے ان میں سے انیس جہازوں کو جانے کی اجازت نہیں دی، صرف ایک فرانس کی کشتی وہ بھی اسرائیلی بحریہ کی نگرانی میں غزہ جا سکی۔

انسانی ہمدردی کے تحت غزہ کی امداد لے جانے والے کسی جہاز کو بھی غزہ کے ساحلوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ اس کے بعد پھر ایک کشتی ایسٹیلا سے چلی کہ غزہ کی جیل کی صورت حال کو مہذب دنیا کے سامنے پیش کی جا سکے۔اس کشتی پر کینیڈا، فن لینڈ،یونان، اسرائیل، ناروے سپین اور سویڈن کے شہری سوار تھے جن میں چار یورپی یونین کی پارلیمنٹوں کی بھی نمائندگی بھی شامل تھی ۔

جب یہ کشتی بین الاقوامی سمند میں تھی کہ اسرائیل فوج نے قبضہ کر لیا اور غزہ کی جیل تک نہ پہنچنے دیا۔اس کے بعد اسرائیل نے پھر غزہ کی جیل پر ظالمانہ حملہ کر دیا اور ایک سو پچاس فلسطینیوں کو شہید کر دیا جس میں ایک سو دو شہری تھے۔اس حملے میں غزہ کی جیل کے مظلوم قیدیوں کا ایک ارب بیس کروڑ ڈالر مالیت کا نقصان ہوا تھا جس میں املاک اور تنصیبات شامل ہیں۔

دوسری بار پھر اسرائیل کی خاصب فوجیوں نے غزہ کی جیل کے مظلوم قیدیوں پر شدید ترین حملہ کیا جس میں مکمل تباہی مقصود تھی ان حملے میں دو ہزارسے زیادہ فلسطینی جس میں مرد، عورتین، بچے، اور بوڑھے شامل ہیں شہید ہوئے۔ بچوں کی تعداد پانچ سو پچاس بتائی جاتی ہے۔اس جارحیت میں حاملہ خواتین بھی شامل تھی۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ جو سکولوں میں قائم کیے گئے تھے انہیں بھی بمباری سے اُڑا دیا گیا تھا۔

یہ سارے مظالم صرف اس وجہ سے روا رکھے گئے ہیں کہ فلسطینی پریشان ہو کر اپنا آبائی وطن فلسطین چھوڑ جائیں اور یہودی وہاں اپنی ناجائز بستیاں قائم کریں جو ان کا پُرانہ مقصد ہے ۔ یہ غزہ کی جیل کے مظلوم فلسطینیوں کی داستان ہے جس پر کچھ انفرادی اشخاص کے علاوہ کسی مہذب حکومت نے کچھ احتجاج نہیں کیا۔صرف ترکی کی حکومت کو چھوڑ کر ،نہ ہی امت مسلمہ کے پٹھو حکمرانوں نے غزہ جیل کے قیدیوں کے لیے آوازبلند کی۔

مسلم دنیا کے حکمران اپنے قبلہ اول کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ اس کثیر تعداد فلسطینی قیدی جن کواسرائیل نے غزہ میں قید کیا ہوا ہے کو دس سال سے پورے ہوگئے ہیں اسرائیل کے قائم کردہ اس مظلوم قید خانے کو ختم کروانے کے لیے اس دور کی نام نہادمذہب انسانیت کو کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے ورنہ مکافات عمل کے تحت اللہ کے قہر کے لیے تیار رہنا چاہیے جس سے پھر کوئی ظالم نہ بچ سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :