اتفاق رائے اور پی آئی اے

ہفتہ 6 فروری 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

ہر کام کو اس حد تک بگاڑ لینا کہ سدھار کی کوئی صورت نظر نہ آئے ،یہ شائد ہمار ا قومی وطیرہ بنتا جارہا ہے ۔اتفاق رائے نام کی ایک نئی بیماری ہماری سیاست میں در آئی ہے ۔کوئی بھی اہم مسئلہ ہو تو بھانت بھانت کی بولیوں کے صحرا میں اتفاق رائے کی روٹی کا ذرہ تلاش کیا جانے لگتا ہے۔ انسان تو خدا کے وجود کے اقرار یا انکار پر اتفاق رائے نہیں کرسکا تو کسی اور مسئلے پر اتفاق رائے کیسے کرے گا۔


کالا باغ ڈیم جیسا شاندار منصوبہ اس کی نذر ہوا ،موٹر وے تعمیر ہونے لگی تو ا س پر بھی بہت باتیں ہوئیں ،آج لیکن سب ہی اس پر بڑ ے شوق سے سفر کرتے ہیں ۔میٹرو کا آغاز ہوا تو سب نے بے دریغ تنقید کی لیکن اب سندھ حکومت کراچی میں بنار ہی ہے اور پشاور والے بھی خواہشمند ہیں۔اقتصادی راہداری جیسا کوئی منصوبہ شائد ہی اس خطے میں بنا ہو لیکن اس کا آغاز ہوتے ہی ہر طرف سے ہا ہاکار مچ گئی ۔

(جاری ہے)

وہ لوگ بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں جنہیں اس کے روٹ کا بھی پتہ نہیں ۔ الزام یہ لگا کہ پسماندہ صوبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس منصوبے کے تحت بلوچستان کی پہلی موٹر وے کا افتتاح ہوچکا ہے ۔لاہور میں اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بننے لگا تو ساری اپوزیشن سور ہی تھی اب اس پر کام شروع ہوا ہے تو احتجا ج کیا جارہا ہے اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیں ۔

اس کو بے وقوفی کہاجائے یاسازش کے اورنج لائن ٹرین کی تعمیر سے اتنا نقصان نہیں ہونا جتنا اب اس کے آغاز کے بعد اس کو گرانے پر ہوسکتا ہے ۔لیکن عوام کے نقصان کی فکر کس کو ہے سب کو اپنی سیاست کی پڑی ہے ۔ اور اب باری ہے پی آئی اے کی !
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں بہت سے ادارے بستر مرگ پر جا پہنچے تھے ۔ موجود ہ حکومت اپنی مقررہ آئینی مدت کا تقریباََ نصف گزار چکی ہے لیکن ابھی تک زمینی حقائق یہ ہیں کہ کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔

میاں نواز شریف نے جب حکومت سنبھالی تو ان کے سامنے دہشتگردی اورتوانائی بحران کے خاتمے اور معاشی خوشحالی جیسے بڑے ہدف موجود تھے ۔ اتمام حجت ( جسے بعض حلقے بعد از خرابی بسیاربھی کہتے ہیں)کے بعددہشتگردی کے خلاف جو آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھابلاشبہ اس نے بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں لیکن بہت سا کا م ابھی باقی ہے کہ پینتیس برس کا کچرا چار سال میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔

جہل اور ظلم کا سیلا ب طاقت کے استعمال کے بغیر روکنا ممکن نہیں تھا لیکن بعض”دینی سیاسی “جماعتوں کا موقف اب بھی یہ ہے کہ گھر کے بگڑے ہوئے بچے ہیں سختی نہ کی جائے ۔چارسدہ میں یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان نے سینیٹ میں کھڑے ہوکر ”کلمہ حق “کہا کہ ”اب تک پچاس سے ساٹھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں،طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں“۔

بہرحال یہ ایک اور موضوع ہے جس کے ساتھ انصاف اس کالم میں ممکن نہیں۔توانائی بحران کے خاتمے کے لئے حکومت کا ہدف دوہزاراٹھارہ ہے ۔ گزشتہ دو برس میں حالات میں کافی بہتری کے باوجود بہت مشکل ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں توانائی بحران کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے ،بہتری کا اعتراف نہ کرنا مگر بددیانتی ہوگی۔جہاں تک بات معاشی خوشحالی کی ہے اس کے لئے مختلف اداروں میں بنیادی تبدیلیوں کے بغیر ان کی کارکردگی میں بہتری ممکن نہیں ۔

سٹیل ملز،پی آئی اے،ریلوے اور اسی طرح اور بہت سے شعبے ہیں جن میں بہتری کے بغیر ملکی معیشت اور سماج کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا۔ لیکن ہم ہیں کہ بحران حل کرنے کی بجائے نت نئے بحران تلاش کرتے ہیں تاکہ بر سر اقتدار سیاسی جماعت کا دھڑن تختہ کر کے خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں ۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے بڑی حد تک مفاہمتی فارمولے پر عملدرآمد کے باوجود دوسری سیاسی پارٹیوں نے وزیراعظم نواز شریف کا سکھ کا سانس لینا کا موقع بہر حال نہیں دیا۔


سب سے پہلے دھاندلی کو بنیاد بنا کر عمران خان صاحب نے اسلام آباد میں طوفان بدتمیزی برپا کیا ،طاہرالقادری، چودھری برادران، جماعت اسلامی، لال حویلی کے لعل اور بعض ریٹائرڈ بے چین روحوں کے ساتھ ساتھ ایسے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد کنٹینر والوں کی ہمنوا تھی جنہیں عوام نے عام انتخابات میں گھاس نہیں ڈالی تھی ۔وزیراعظم کو دھمکیاں دینے اور پی ٹی وی پر حملے کے بعد بھی کچھ نہ بنا تو ایمپائر کو آوازیں دی گئیں لیکن الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ۔

دھرنے کا شور تھما تو ایک نیا شوشا چھوڑا گیا کہ سول اورفوجی قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں اور بہت جلد میاں نواز شریف حسب عادت بم کو لات مارنے والے ہیں ۔ میراخیال لیکن بالکل مختلف ہے ،مشرف کے آمرانہ دور میں میاں صاحب نے بہت کچھ سیکھا اور اس پر عمل بھی وہ حتی الامکان کر رہے ہیں کوئی نہ مانے تو الگ بات ہے ۔اس تگ ود ومیں تقریبا اڑھائی برس گزر گئے اور جب کچھ نہ بن پڑا تو ایک بے وقت کی راگنی جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی چھیڑی گئی ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں ممکنہ توسیع اعتزاز احسن اور خورشید شاہ سمیت ان لوگوں کی طبیعت پر گراں گزر رہی تھی جنہوں نے جنرل کیانی کی تین سالہ یک مشت توسیع پر لب سئے رکھے ۔لیکن ایک ٹوئٹ نے اس غبارے سے بھی ہوا نکال دی ۔ اب حکومت کے خلاف رنگ جمانے کے لئے کوئی ”پکا ٹھکا“ جواز موجود نہیں رہا تو پی آئی اے ہاتھ آگیا ہے ۔

ایک بار پھر کچھ ”جیدصحافی“ پر جوش ہیں اور روزانہ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر ”اووو گئی“کا نعرہ لگاتے ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے جانے کی پیشین گوئیاں سن سن کر میرے تو کان پک چکے ہیں۔لیکن میاں صاحب ہیں کہ انہوں نے ان سب نجومیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔دور کی کوڑیا ں لانے والے ایسے کئی تجزیہ کار اور دانش ور ہیں کہ اگر کوئی اخبار نویس یا صحافی حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف کردے تو یہ ٹولہ اس بیچارے کو فوراََ حکومتی چمچہ اور تنخواہ دار خوشامدی جیسے القابات سے نوازنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔

تجزیوں کا چورن بیچنے والے یہ حکیم اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ فوج اب اپنی آئینی حدود سے تجاوز کے موڈ میں بالکل نہیں ۔ جنرل راحیل شریف کے ذہن میں اگر کوئی ایسا خیال ہوتا تو اس کو عملی جامہ پہنانے کا بہترین وقت وہ تھا جب ڈی چوک میں ہر رات ایک طوفا ن بدتمیزی برپا ہوتاتھا،لیکن انہوں نے چور دروازے کے خواہش مندوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔


بات پی آئی اے کی ہور ہی تھی ،جس کے دو ملازمین احتجاج کے دوران اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر رزق خاک ہو چکے ہیں۔ جن کے ورثاء سے اظہار ہمدردی کرنے میں سب سیاستدان پیش پیش ہیں۔ لیکن یہ نوبت کیوں پیش آئی ؟اس پر سوچنے یا بات کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں کیونکہ اس کی بریکنگ نیوز نہیں بنے گی۔
میں حکومت کی طرف داری بالکل بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پی آئی اے کا کنٹرول نجی شعبے کے حوالے کرنے کی بات ہوئی اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر اورباہر اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیاتو حکومتی حلقوں کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پی آئی اے کا کوئی ملازم بیروزگار نہیں کیا جائے گا، لیکن ظاہر ہے اپوزیشن نے اس پر یقین نہیں کیا ۔

ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ حکومت اور اپوزیشن نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قومی اسمبلی او ر سینیٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو پی آئی اے سے متعلقہ تمام امور کا تفصیل سے جائزہ لے اور پھر ایک قابل عمل لائحہ عمل تشکیل دیا جائے ۔ کمیٹی بن بھی گئی لیکن اس دوران اپوزیشن جماعتوں کو پیپلزپارٹی نے معلوم نہیں کیا پٹی پڑھائی کہ سعید غنی کی قیادت میں ایک قرارداد کے ذریعے پی آئی اے کے حوالے سے ایوان میں پیش ہونے بل کو مسترد کردیا گیا۔

جس پر حکومت کاغصے میں آنا فطری تھا کہ ایک طرف تو اپوزیشن یہ شکایت کرتی ہے کہ اسے آن بورڈ نہیں لیا جاتا لیکن جب معاملات کو مشاورت سے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کوئی پیراشوٹر بیچ میں آٹپکتا ہے اور سارا معاملہ چوپٹ کردیتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی دہائی دے رہے ہیں کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ پی آئی اے سے متعلق آرڈیننس جس کی مخالفت کی جارہی ہے اور جسے سینیٹ میں قرارد اد کے ذریعے مسترد کیا گیا ہے اس میں ادارے کی نجکاری کا کوئی ذکر ہی نہیں۔

حکومت اگر پی آئی اے کی نجکاری کرنا بھی چاہے تو یہ اس کا مینڈیٹ ہے ،قومی زندگی میں ہمیں احتجاجی ہجوم کی مرضی پر نہیں زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے ۔تاہم پی ٹی آئی کی منافقت کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی جس نے اپنے منشور میں پی آئی اے کی نجکاری کا وعدہ کیا لیکن اب اسی معاملے پر حکومت کی مخالفت کر رہی ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے اندھا دھند سفارشی بھرتیوں اور نااہل وزیروں کے ذریعے پی آئی اے کا بیڑہ غرق کیا۔

جب ایک کی جگہ چار ملازم رکھے جائیں ،اور وہ کام کی بجائے یونین اور اپنے سرپرستوں کی دھونس جمائیں تو ان حالات میں ادارے کیسے چل سکتے ہیں۔یونین کا کام دستیاب حالات اور وسائل میں ملازمین کی بہتری کی گنجائش پید اکرنا ہوتا ہے نہ کہ ایسے حالات پید ا کرنا جن کے نتیجے میں سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ”حرام“ ہوجائے ۔ پیپلز پارٹی کی یہ بات
درست ہے کہ ان کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کی تھی ۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کو نجکاری کی مخالفت کا موقع دینے والے آج کس منہ سے نجکاری کے خلاف بات کر رہے ہیں؟یونین کی بات سنی جانی چاہیے اور بالکل سنی جانی چاہیے ،لیکن ادارے کی یونین اس بات پر ضد نہ کرے کہ پی آئی اے کا انتظام نجی شعبے کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ اسے ملازمین کی نوکریوں کے تحفظ اور ادارے کی سلامتی کی بات کرنی چاہیے ۔

حکومت پی آئی اے کی بحالی کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس کے لئے وہ نجکاری سمیت کیا راستہ اختیار کرتی ہے یہ اس کا مینڈیٹ ہے اپوزیشن کو اس میں کوئی خرابی نظرآتی ہے تو پارلیمنٹ میں اس کی نشاندہی کرے اور اسے بے نقاب کرے نہ کہ ملازمین کے احتجاج کو ہوا دے کر ایسے حالات پید اکرے کہ جس میں حکومت ،پی آئی اے اوراس کے ملازم سب ہی خسارے میں ڈوب جائیں۔
واللہ عالم با الصواب

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :