پٹھانکوٹ،پاکستانی مفاد اور جیشِ محمد

ہفتہ 16 جنوری 2016

Sareer Khalid

صریر خالد

پٹھانکوٹ میں ہوائی فوج کے ایک اہم اڈے پر ہوئے جنگجوئیانہ حملے کی کئی خاص باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پٹھانکوٹ کے جموں کشمیر کی سرحد کے قریب ہونے کے باوجود بھی یہاں ہوئے اس حملے کا سرکاری طور،ممبئی یا دیگر شہروں میں ہوتے آئے حملوں کے برعکس،کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق جوڑنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔تاہم جموں کشمیر میں سرگرم جنگجو تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس حملے کا تعلق بالآخر کشمیر کے ساتھ جوڑ ہی دیا ہے حالانکہ سرکاری ایجنسیاں اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہیں اور انہوں نے ابھی تک اس بات کو حتمی طور قبول نہیں کیا ہے کہ آیا اس حملے میں کشمیری جنگجو وٴں کا کوئی ہاتھ ہے بھی یا نہیں۔

سرکاری ایجنسیوں کا ابھی تک اندازہ ہے کہ حملہ جیشِ محمد کی کارستانی ہے جبکہ پاکستان نے پہلی بار کسی چوں و چرا کے بغیر اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف اپنے طور کارروائی کرنے کا ہندوستان کو یقین دلاتے ہوئے کئی حلقوں کو حیران کردیا ہے…!۔

(جاری ہے)


پٹھانکوٹ کا حملہ ہندوپاک تعلقات اور دونوں ممالک کے مابین استوار ہورہے نئے رشتوں کے حوالے سے ایک انتہائی نازک اور غیر معمولی موڈ پر یوں پیش آیا ہے کہ گویا سر منڈواتے ہی اولوں کی بارش ہو گئی ہو۔

ممبئی حملوں کے بعد تعطل کا شکار ہوئے تعلقات ابھی حال ہی میں بڑی مشکل سے مگر انتہائی جوشیلے اور غیر روایتی انداز میں بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔روس کے شہر اوفا سے لیکر بینکاک تک وزیرِ اعظم نریندر مودی اور اُنکے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے مابین ہونے والی ملاقاتوں اور ان سب سے بڑھکر نریندر مودی کے پردیس سے گھر واپسی کے دوران اچانک ہی لاہور اُترنے سے دونوں ممالک کے تعلقات اچانک ہی عروج پر نظر آنے لگے ہیں۔

مودی کا یہ Surpriseاور اسکے بعد کے ممکنہ اقدامات ابھی ذرائع ابلاغ اور دیگر حلقوں میں زیرِ بحث ہی تھے کہ پٹھانکوٹ میں ہوائی فوج کے ایک اہم اڈے پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ ہوگیا۔حملہ بھی اس انداز میں کہ جس میں حملہ آوروں کی زبردست تربیت،مہارت،منصوبہ بندی،حساس مقامات تک رسائی ،حکمتِ عملی اور دیگر کئی باتوں کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ مبصرین و مشاہدین انگشت بدنداں ہوگئے۔

حملہ آوروں کی جانب سے ایس ایس پی جیسے اہم اور سینئر پولس افسر کے ”اغوا“اور اُنکی دفتری گاڑی و موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے نہ جانے کب اور کہاں تک تحقیقات جاری رہے گی۔ یہ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ اس تحقیقات کا ماحاصل کیا ہوگا کہ ایس ایس پی کی بیان کردہ کہانی،جس میں فی البدیع کئی نقائص اور سُراخ دکھائی دیتے ہیں،سچ ثابت ہوتی ہے یا آگے چل کر بم اور بارود سے ہونے والے دھماکوں سے بڑھکر بھی دھماکے سنے جائیں گے۔

لیکن ایک بات اہم اور غیر معمولی و غیر روایتی یہ ہے کہ ہندوپاک نے پہلی جست میں حال ہی بحال ہوئے تعلقات کو متاثر نہ ہونے دیکر گویا حملے کے منصوبہ سازوں کو ناکام بنادیا ہے اگر واقعی اُنکا مقصد دونوں ممالک کے تازہ تعلقات کو پھر سے جمود کا شکار کرنا تھا جیسا کہ ابھی تک پٹھانکوٹ حملے کے ممکنہ مقاصد کے حوالے سے اندازہ لگایا جارہا ہے۔
اگر اس حملے کا مقصد واقعی ہندوپاک تعلقات کو ایک بار پھر خراب کرنا تھا تو پھر منصوبہ سازوں کو ابھی تک ناکامی ہوئی ہے کہ دونوں ممالک نے باالعموم اور ہندوستان نے با الخصوص پہلی بار انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلقات کو بحال رکھا ہے۔

چناچہ ممبئی،گجرات،دلی اور دیگر مقامات پر ہوتے آئے حملوں کے برعکس اب کے سرکاری ایجنسیوں نے پٹھانکوٹ حملے کا تعلق فوری طور کشمیر کے ساتھ نہیں جوڑا ۔نہ اس حملے کی منصوبہ بندی کشمیر میں ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور نہ ہی اسکے لئے کشمیر سے Logisticفراہم ہونے کا ہی دعویٰ کیا گیا جیسا کہ ہندوستان میں کہیں بھی کچھ بھی ہونے پر کیا جاتا رہا ہے حالانکہ بعد کی تحقیقاتوں نے اس حوالے سے اکثر دعویداریوں کو غلط ثابت کیا ہے۔

حملے کے فوراََ بعد جو خفیہ ایجنسیوں اور دیگر متعلقہ اداروں کا اندازہ رہا وہ یہ ہے کہ حملے میں مولانا مسعود اظہر کی جیشِ محمد کا ہاتھ ہے۔چناچہ متعلقہ ایجنسیوں نے پہلے ہی یہ دعویٰ کیا اور ابھی تک اسی پر قائم ہیں جبکہ یہ بھی پہلی بار دیکھا گیا کہ پاکستانی وزیرِ اعظم نے ہندوستانی ہم منصب کو فوری طور فون کرکے نہ صرف اس حملے،جو تب جاری ہی تھا کہ جب فون پر دونوں لیڈروں کی بات ہوئی،کی مذمت کی بلکہ اپنے طور سے کارروائی کرنے کا یقین بھی دلایا۔

نوز شریف نے تعزیت کرکے اور مودی نے تعزیت قبول کرکے گویا یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے اب کے غیر روایتی جرأت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھان لی ہے اور وہ بادِ مخالف کے تندو تیز جونکوں سے اُمیدوں کے اُن چراغوں کو بجھنے نہیں دینگے کہ جو ابھی ابھی جلائے جاچکے ہیں۔
پٹھانکوٹ کا زیرِ تبصرہ حملہ اس حوالے سے ایک الگ حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ اس میں کئی غیر روایتی اور منفرد باتیں دیکھی گئی ہیں جن میں ایک یہ بھی جُڑ گئی ہے کہ جموں کشمیر میں سرگرم جنگجو تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے اسکی ”فخریہ“انداز میں ذمہ داری قبول کرکے گویا یہ کہنا چاہا کہ یہ سب کشمیری جنگجووٴں کا کیا دھرا ہے۔

جہاد کونسل نے یہ کہکر کہ ”بھارت ہر حملے کے پیچھے پاکستان کا کردار تلاش کرنے سے باز رہے“گویا پاکستان کو برأت دینے کی کوشش کی تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاد کونسل نے پاکستان کو بچانے سے زیادہ اسکے لئے مسئلہ پیدا کردیا ہے۔جموں کشمیر میں سرگرم ایک درجن سے زیادہ جنگجو تنظیموں کا اتحاد ریاست کی سب سے بڑی جنگجو تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کی قیادت میں متحدہ جہاد کونسل کے نام سے قائم ہے۔

پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے مظفر آباد میں مرکز رکھنے والے اس کونسل کی پوری قیادت بھی وہیں یا اسلام آباد میں مقیم ہے اور ہندوستان کا ماننا رہا ہے کہ جہاد کونسل اور اس میں شامل تنظیمیں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی تخلیق ہیں حالانکہ پاکستان اور خود ان جنگجو تنظیموں کا اس بات سے انکار رہا ہے۔جہاد کونسل کے ترجمان سید صداقت حسین نے سرینگر میں خبررساں ایجنسیوں کے نام ایک مختصر بیان جاری کرکے دعویٰ کیا کہ پٹھانکوٹ میں کونسل کی ممبر تنظیموں کے ”نیشنل ہائے وے اسکوارڈ“نے حملہ کردیا ہے۔

سید صداقت حسین کا کہنا تھا”دراصل مجاہدینِ کشمیر کا پیغام ہے کہ بھارت کی کوئی بھی حساس تنصیب مجاہدین کی دسترس سے باہر نہیں ہے۔ بھارتی قیادت کے لیے ابھی وقت ہے کہ وہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرے اور جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری طور بند کرے“۔بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ’ ’پاکستان پر الزامات لگا کر بھارت کشمیریوں کی جہدوجہد ِآزادی کونہ ماضی میں سبوتاژ کر سکا ہے اور نہ آئندہ کر سکے گا‘ ‘۔

جہاد کونسل کے اس بیان سے پٹھانکوٹ حملے کے مقاصد ،اس میں شامل ہاتھوں اور اس سب سے متعلقہ دیگر باتوں کے حوالے سے بحث کا رخ اور زاویہ ہی بدل گیا بلکہ بعض مبصرین کے مطابق پورے معاملے کو ہی ایک نیا موڈ مل گیا۔حالانکہ ہندوستان کو ہر بات کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے سے پرہیز کرنے کی صلاح دیکر متحدہ جہاد کونسل نے پاکستان کو کنارے کرنے کی کوشش کی لیکن مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسے میں پاکستان عملاََ اس مسئلے کے بیچ میں آگیا ہے۔

ایسا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ قریب ایک دہائی قبل جب ممبئی میں حملہ ہوگیا تھا تو ہندوستان کو ،اس کے بقول،کئی ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے خلاف معاملہ بنانے میں دقعتیں درپیش آئی تھیں جبکہ اب کے متحدہ جہاد کونسل نے اسکے لئے معاملہ کچھ آسان کردیا ہے۔ان مبصرین کا ماننا ہے کہ چونکہ جہاد کونسل کو پاکستانی فوج اور جنگجووٴں کے بیچ Liasonمانا جاتا ہے اس کی جانب سے ذمہ داری لینے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے ذرئعے سے پاک فوج نے ہندوپاک کے تازہ تعلقات،جنہیں بعض لوگ ہندوپاک تعلقات سے زیادہ نواز شریف اور نریندرمودی کے تعلقات کہتے ہیں،کو بے وقعت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس سے چند ہی دن قبل جہاد کونسل نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ معاشی اور اقتصادی مفاد کے لئے ہندوستان کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے اور کشمیر کو نظر انداز نہ کرے۔
متحدہ جہاد کونسل کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا کہ جب ہندوستانی ایجنسیوں کا سارا فوکس جیشِ محمد پر تھااور ذرائع ابلاغ میں یہ شور تھا کہ جیش کے سربراہ مولانا مسعود اظہر،جنہیں انڈین ائر لائینز کے ایک مغویہ جہاز کے تبادلے میں ہندوستانی جیل سے رہا کردیا گیا تھا،کی حوالگی کا مطالبہ کیا جائے گا اور شائد پاکستان کے پاس انکار کی کوئی ٹھوس وجہ بھی نہیں ہوگی۔


ایک جانب جہاں بعض لوگ اس بات کو خوشگوار حیرت کی وجہ قرار دیتے ہیں کہ ہندوپاک نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی نئی دوستی کو متاثر ہونے سے بچایا ہے وہیں بعض مبصرین کے مطابق پاکستان نے ایک طرح سے خود کو اپنے طور سے کوئی نہ کوئی کارروائی کرنے کا پابند کر دیا ہے۔تو کیا پاکستان متحدہ جہاد کونسل کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر آمادہ ہوگا بلکہ کیا وہ ایسا کرنے کا متحمل ہو بھی سکتا ہے؟۔

البتہ اگر الزام جیشِ محمد پر ثابت آجائے تو تادیبی کارروائی کرنا شائد پاکستان کے لئے بھی آسان ہوجائے بلکہ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ جیشِ محمد کا نام آنے ہی کی وجہ سے پاکستان نے اب کے یوں آسانی سے وزیرِ اعظم مودی کو کارروائی کا یقین دلایا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے تو اپنے ایک تجزیہ میں پاکستان کی یقین دہانی کے بارے میں لکھا ہے کہ جیشِ محمد کی تاریخ اور ابھی تک کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے سے واضح ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کے لئے نئی دلی کی مدد کرنا ممکن بلکہ آسان کیسے ہو سکتا ہے۔

جیشِ محمد ،انڈین ائر لائینز کے IC-814 نامی مغویہ جہاز کے بدلے قندھار میں رہا کئے گئے جنگجو لیڈروں میں سرِ فہرست ،مولانا مسعود اظہر کی قائم کردہ جنگجو تنظیم ہے جو کبھی بڑی خطرناک مانی جاتی تھی مگر بعدازاں تقریباََ نابود ہوکے رہ گئی۔جیش نے وجود میں آنے کے فوری بعد سن 2000کے ابتدائی مہینوں میں سرینگر کی بادامی باغ فوجی چھاونی کے مرکزی پھاٹک پر ایک مقامی نوجوان آفاق احمد(17)کے ذرئعہ پہلا خود کش دھماکہ کرواکے گویا کشمیر میں اپنی آمد اور جنگجوئیت کے ایک نئے بلکہ خطرناک دور کے آغاز کا اعلان کرنے سے لیکر جنگجوئیت کے محاذ پر چھائے رہنے کے آخری دن تک جو بھیکارروائیاں کیں اُن میں سے بیشتر پاکستانی مفادات کے منافیسمجھیں گئیں۔

2000میں ہی کرسمس کے دن جیش نے ایک برطانوی شہری (جنگجو)کے ذرئعہ پھر اسی فوجی چھاونی کو نشانہ بناتے ہوئے ایک اور خود کش دھماکہ کرایا اور کشمیر کے ”عالمی جہاد“کے نقشہ پر ہونے کا پیغام دینا چاہا۔جوں جوں جیش کو شہرت ملنے لگی تنظیم نے لشکرِ طیبہ کے برعکس،جس نے خود کو پاکستانی ریاست سے لڑانے سے احتیاط کی پالیسی اپنائی ہے،9/11کے بعد کی صورتحال کے باوجود طالبان وغیرہ کے قریب کرلیا اور ہندوستان میں ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ جنہوں نے نہ صرف کئی بار دونوں ممالک کو آمنے سامنے ہونے کی صورتحال پیدا کی بلکہ خود اسلام آباد کے لئے مسائل کے انبھار لگا دئے۔


وہاں پاکستان میں جیش کو نکیل باندھی گئی اور یہاں جموں کشمیر میں سکیورٹی گرڈ نے تنظیم میں سرائیت کرکے اسے زبردست نقصان پہنچانے میں اس حد تک کامیابی حاصل کر لی کہ بار بار کی کوششوں کے باوجود بھی اسکے لئے کھڑا رہنا ممکن نہیں ہو پایا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 2004کے اوائل میں خفیہ ایجنسیاں جیش میں موجود اپنے مخبروں کے ذرئعہ شمالی کشمیر کے لولاب علاقہ میں تنظیم کی(کشمیر کی) جملہ قیادت کی میٹنگ منعقد کروانے میں کامیاب رہیں اور اسی میٹنگ کے دوران ان سبھی لوگوں کو مار گرایا گیا۔

بعدازاں جب جب بھی تنظیم نے پھر سے پیر جمانے کی کوشش کی سکیورٹی ایجنسیوں نے اسے پیٹا اور پھر سے پیچھے دھکیل دیا یہاں تک کہ ذرائع کے مطابق فی الوقت جموں کشمیر میں تنظیم کے فقط پانچ جنگجو باقی بچے ہیں جنہوں نے خود کو شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع تک محدود کر لیا ہے۔
9/11کے بعد ہی جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے باہر اسوقت تک کے خطرناک دھماکہ میں 38/عام شہریوں کے مارے جانے کے باوجود خود کش بمبار کی شناخت،پاکستانی شہری وجاحت حسین،کرنے اور اس طرح کی دیگر کارروائیوں نے جیش کو پاکستانی ریاست کے لئے ناپسندیدگان کی فہرست میں لا کھڑا کردیا۔

اس دھماکے کو 9/11کے بعد طالبان کے حوالے سے مشرف کے U Turnکا ردِ عمل یا احتجاج سمجھا گیا تھا۔واضح رہے کہ یہ دھماکہ جموں کشمیر میں ایسی پہلی جنگجوئیانہ کارروائی تھی کہ جس کی نہ صرف پاکستان نے مذمت کی تھی بلکہ اسکے لئے لفظِ ”دہشت گردی“ کا استعمال کیا تھا۔
جیش نے پاکستانی ریاست کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے قدم روکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی یہاں تک کہ اسکے پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے قتل کی سازشوں میں ملوث ہونے کا انکشاف ہو گیا۔

14/دسمبر2003کو مشرف پر ہوئے حملے کے بعد ہوئے کریک ڈاون کے بعد جیش تقریباََ پوری طرح نابود ہوکے رہ گئی تھی۔دوسری جانب ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے میں جیشِ محمد کا نام آنے کے ردِ عمل میں ہندوستان نے پاکستان سے جن بیس افراد کی تحویل چاہی اُن میں مولانا مسعود اظہر سرِ فہرست تھے ،پاکستان نے اُنہیں گرفتار کر لیا تاہم اُنہیں بعدازاں رہا کردیا گیا البتہ اُنہیں چُپ چاپ رہکر اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کی ہدایت دی گئی جس پر عمل کرتے ہوئے وہ اس پورے عرصہ اپنے گھر سے باہر نہیں آسکے ہیں۔

پھر جیشِ محمد اچانک ہی،اور وہ بھی تب کہ جب پاکستان کے بمشکل ہندوستان کے ساتھ حالات سدھرنے لگے ہیں،پھر سے منظر ِ عام پر کیسے آسکتی ہے؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ جیشِ محمد کا نام آنے پر اگرچہ پاکستان نے مودی کو کارروائی کا یقین دلایا ہے تاہم متحدہ جہاد کونسل کے سامنے آنے پر اُبھری صورتحال میں اب پاکستان کیا کرے گا؟پھر یہ بھی کہ اگر اس حملے کے ذرئعہ واقعی پاک فوج نے نامو-نواز یارانے کے تئیں ناراضگی ظاہر کرنا چاہی ہے اور اسے بے وقعت کرنا چاہا ہے تو اس مقصد کے بظاہر پورا نہ ہونے کے بعد اس کا اگلا قدم کیا ہوسکتا ہے؟لیکن فی الوقت ان سبھی سوالوں کے جواب دستیاب نہیں ہیں البتہ اتنا طے ہے کہ لشکرِ طیبہ اور متحدہ جہاد کونسل کے برعکس جیشِ محمد کا،پاکستان کے لئے،معاملہ مختلف ہے۔

(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :