پڑھے لکھے جاہل

جمعرات 31 دسمبر 2015

Mohammad Bilal Qadir

محمد بلال قادر

شانی اپنی پھوپھو سے اجازت لے کر لاہور ریلوے سٹیشن کے لیے روانہ ہو گیا ۔ اس نے اپنے ابائی گھر اسلام آباد کے لیے روانہ ہونا تھا سٹیشن پہنچ کر اس نے ٹکٹ خریدا ۔ ٹکٹ لینے کے بعد وہ ٹرین کا انتظار کرنے لگا ۔ کافی دیر انتظار کے بعد ٹرین آگئی ۔ شانی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ اس کے ارد گرد بھی اسی کی طرح جوان تھے ۔ سب کئچھ نہ کچھ پڑھ رھے تھے کوئی انجنیئرنگ کر رہا تھا اور کوئی معیشت پڑھ رہا تھا تو کوئی بزنس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔

اتنے سارے نوجوانوں میں ایک پرانے زمانے کے بابا جی بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو کم تعلیم یافتہ لگتے تھے ۔ شانی اور ان نوجوانوں کے سامنے دو پھول کی کلیاں بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس بات پر زرا غور کیجیے گا !! اور ان کا ننھا منھا سا بھائی اوپر لیٹا ہوا تھا جو ہماری باتوں پر بڑی دلچسپی لے رہا تھا ۔

(جاری ہے)

لو جی اب سفر کا آغاز ہو چکا تھا اور سب آپس میں گپیں لگانا شروع ہوگئے تھے ۔

شانی بھی ان میں گھل مل گیا تھا اور اب جگتوں کا مقابلہ شروع ہو چکا تھا ۔ نوجوان پھول کی کلیاں دیکھ کر اور جوش میں آتے ایک سے ایک بڑھ کر بیہودہ قسم کی جگت کرتے ۔ بابا جی بڑے غور سے ان نوجوانوں کی باتیں سن رہے تھے ، سوٹوں (سگریٹ) کا بھی آغاز ہو چکا تھا سب بڑے جوش کے ساتھ سوٹے لگا رہے تھے ۔اتنے میں ٹرین جہلم سٹیشن جا کر رکی ۔ بابا جی نے سٹیشن سے نان پکوڑے لیے ۔

اور آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ ٹرین چلی تو بابا جی نے کھانا شروع کر دیا ۔ بابا جی سے پکوڑے بار بار گر رہے تھے ۔ اور وہ بار بار اٹھا کر کچھ اس پر پڑھ کر کھا رہے تھے ۔ سب انہیں دیکھ کر ہنس رہے تھے ۔بابا جی کو محسوس ہو گیا تھا کہ ہم انہیں دیکھ کر ہنس رہ ہیں اور ان کا مذاق اڑا رہ ہیں تو انہوں نے کہا بچوں ہنس لو لیکن سامنے پڑھو وہ کیا لکھا ھے ، سامنے لکھا ہوا تھا No Smoking یعنی سگریٹ پینا منع ہے ۔

بابا جی نے کہا بچوں تم سب پڑھے لکھے ہو اور سامنے لکھا بھی ہے کہ سگریٹ پینا منع ہے ، سامنے ایک بزرگ بھی بیٹھا ہوا ھے دو لڑکیاں بھی بیٹھی ہوئی ہیں اور اوپر ایک بچہ بیٹھا ہوا ہے ، تم نے ایک بزرگ کا بھی خیال نہ رکھا ، تم نے یہ بھی خیال رکھا کہ سامنے لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں ان کا ہی کچھ خیال کر لیتے تمہارے پڑھے لکھے ہونے کا کیا فائدہ ؟ ان کے سامنے بیٹھ کر اخلاق سے گری ہوئی باتیں کر رہ ہو کیا ، تم سے اچھا تو میں ہو ں جس کی تعلیم پانچ جماعتیں ہیں سگریٹ پاس ہونے کے باوجود میں نے نہیں پی ۔

بابا جی کی باتیں سیدھا شانی کے دل کو لگ رہی تھی اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کیا اس کی تعلیم کو اسے فائدہ ہو رھا ہے کیا یہ ڈگریاں اس کی اخلاقی تربیت کے لیے کافی ہیں ؟ جب شانی فیصل آباد سے لاہور آرہا تھا تو اس نے دیکھا ٹرین پر کافی رش ہے اور کافی لڑکیاں کھڑی ہیں جن کو جگہ نہیں مل سکی اور حوس کے پوجاری بار بار انہیں ٹکر مارتے ، اس گاڑی میں ڈگری والے تھے کیا ان کی تعلیم و تربیت نے انہیں نہیں سکھایا کہ وہ گھنٹے دو گھنٹے کے لیے قربانی دے دیں اور ان لڑکیوں کو اپنی جگہ دے دیں اپ کسی ڈئیوو بس میں سفر کریں وہاں تو یہ پڑھے لکھے ایسے گرے ہوتے ہیں جیسے چرس پی کر آے ہوں ، اور بچاری بس ہاسٹس کو کونیاں مارتے ۔

خدا کی قسم مدارس کے طلبا ہم سے زیادہ تمیز اخلاقی تربیت کے مالک ہیں انہیں معلوم ہے کھانا کس طرح کھانا ہے بڑوں کا کس طرح آدب کرنا ہے اساتذہ کا احترام کس طرح کرنا ہے ْ آپ کسی یونیورسٹی یا شادی کے فنکشن میں چلے جائیں وہاں جب کھانا کھلتا ہے تو ان پڑھے لکھے لوگوں کی حالت دیکھا کریں کھانا ضائع الگ کرتے ہیں اور گراتے الگ ہیں اور بہانہ لگاتے ہیں کہ بندے زیادہ ہو جائیں تو ایسا ہو جاتا ھے جاو مدارس کے طلبا کی تعداد دیکھ کر آو ان سے کچھ تمیز سیکھ کر آو ۔ ہمارے اساتذہ اور والدین کو سوچنا ہو گا ، صرف ڈگریاں لینے یا پیسے بنانے سے کچھ نہیں ہو گا اپنے طالب علموں اور اولاد کو پڑھا لکھا بناو لیکن پڑھے لکھے جاہل نہ بناؤ !!!!!!!!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :