یومِ ولادتِ رسولﷺ کے تقاضے

جمعہ 25 دسمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

بلاشبہ ہم اپنے نبیٴ مکرم ﷺکی ولادت کایہ دِن انتہائی عقیدت واحترام سے مناتے ہیں، گھروں، گلی محلوں اور بڑی بڑی عمارتوں کوجھنڈیوں اور بجلی کے قمقموں سے سجاتے ہیں، میلادکی محافل منعقد کرتے ہیں اورجلسے جلوس ،ریلیاں نکال کرآقا سے اپنی محبت اورعقیدت کابھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہرمسلمان جس میں رتی بھربھی ایمان ہے وہ حرمتِ رسول پرکَٹ مرنے کوہمہ وقت تیاررہتا ہے ۔

سوال مگریہ ہے کہ ہمارادین ہمیں جو حکم دیتاہے اورجو آقا کی سنت ہے ،کیاہم اُس کے تقاضوں پرپورے اترتے ہیں؟۔ انتہائی دُکھ سے کہناپڑتا ہے کہ اِس کاجواب نفی میں ہے اورہماری حالت توبقول اقبال یہ کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یہ بجاکہ ہم یومِ ولادتِ رسول پراپنی بھرپور عقیدتوں کااظہار کرتے ہیں لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدت ،احترام اورالفت ومحبت محض ایک دِن تک محدودرہتی ہے اور جونہی یہ عقیدتوں بھرا دِن اپنے اختتام کوپہنچتا ہے توہم پھراُنہی خرافات کے اسیرہو جاتے ہیں جو اہلِ مغرب سے مرعوبیت کی بناپر ہماری نَس نَس میں سما چکی ہیں ۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی ،سماجی ، دینی اوراخلاقی اقدار نہ صرف روبہ زوال بلکہ تقریباََ پامال۔ ہم ذہنی طورپر تہذیبِ مغرب کے اتنے اسیرہو چکے کہ ہمیں یہ تک یادنہیں رہاکہ ربّ ِ لَم یَزل نے ہمیں ”خیرِ اُمت“ بناکر بھیجا ۔سورة آل عمران میں ارشاد ہوتاہے ” تم دنیامیں وہ بہترین گروہ ہوجسے لوگوں کی اصلاح وہدایت کے لیے میدان میں لایا گیاہے ۔

تم نیکی کاحکم دیتے ہو ،بدی سے روکتے ہو اوراللہ پرایمان رکھتے ہو“۔ گویا ربّ ِ کردگارنے توقومِ مسلم کودنیاکا امام بناکر بھیجالیکن ہم غلام بَن کررہ گئے ۔یہی وجہ ہے کہ اب توہماری دعائیں بھی مستجاب نہیں ہوتیں ۔وہ اُمت جسے خیرکی امامت سونپی گئی، وہ فسق وفجوراوربَداخلاقی وبے حیائی میں اتنی آگے نکل گئی کہ یہودوہنود بھی انگشت بدنداں ۔

وہ نسلِ نو جسے زمانے کی امامت کرنی تھی ،آج اُس کایہ عالم کہ دُورسے یہ تمیزکرنا مشکل کہ مذکرہے یامونث یاپھر مخنث ۔کانوں میں بالیاں ،ہاتھوں میں کنگن ،گلے میں مالا اورکمرتک لٹکتے بال دیکھ کربھلاکون اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ لڑکی ہے یالڑکا۔ اُدھرہمارے حکمرانوں کا یہ عالم کہ اُنہیں”لبرل پاکستان“ عزیز اور” دیوالی وہولی“ میں شمولیت کا شوق ۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرو، اُنہیں اُن کے جائز حقوق نہ دواور اُن کے ساتھ محبت اوررواداری سے پیش نہ آوٴ ۔ہم تویہ عرض کرتے ہیں کہ اُن کی مشابہت اختیارنہ کروکیونکہ میرے آقا کافرمان ہے ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی ،وہ اُنہی میں سے ہے “۔ ایک اورموقعے پر آقا نے فرمایا ”مشرکین کے ساتھ نہ رہو ،نہ اُن کے ساتھ اُٹھو بیٹھو۔

جواُن کے ساتھ رہے گا، وہ اُنہی میں سے شمارہو گا“۔غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت حکمرانوں پر لازم، اُنہیں عبادات اوراپنے مذہبی تہوارمنانے کی کھلی چھوٹ کہ یہ میرے دین کاتقاضہ ہے لیکن اُن کی نقالی اورمذہبی تہواروں میں شرکت کی سختی سے ممانعت ۔
میرے آقا کایہ بھی فرمان ”قیامت اُس وقت تک نہ آئے گی جب تک میری اُمت پہلی اُمتوں کے طورطریقے اخیتار نہ کرلے ۔

اگروہ ایک بالشت چلیں گے تویہ بھی ایک بالشت چلے گی ،اگروہ ایک ہاتھ چلیں گے تومیری اُمت بھی ایک ہاتھ چلے گی“۔ اب آپ خودہی اندازہ کرلیجئے کہ کیایہ قربِ قیامت کی نشانی نہیں کہ اُمتِ مسلمہ اپنی تہذیب وتمدن ،رسوم ورواج اورمعاش ومعاشرت میں مکمل طورپر اہلِ مغرب کے رنگ میں رنگی جاچکی ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ اِس وقت دنیامیں سب سے زیادہ کم علم اورجاہل مسلمان ہی ہیں۔

کیااِس میں کوئی شک ہے کہ لبرل ازم اورفیشن کے نام پربے باکی وبے حیائی عام ہوچکی ۔تہذیبِ مغرب کازہر توہماری نَس نَس میں یوں سماچکا کہ اب امّی اورابّوکی جگہ موم ڈیڈ اورماما ،پاپا نے لے لی ۔آقا کافرمان ہے کہ ہمیشہ سلام کرنے میں پہل کرو لیکن ہم توٹیلی فون اُٹھاتے ہی اسلامُ علیکم کی بجائے ہیلو ،ہائے کہتے ہیں ۔ہم پہلے بھی عرض کرچکے کہ حبّ ِ رسول ہماری نَس نَس میں موجود لیکن حبّ ِ رسول کے تقاضوں کی طرف مطلق دھیان نہیں ۔

عید میلادالنبی پرچراغاں بجا ، محافل کاانعقاد بھی مستحسن ،جلسے جلوس اورریلیاں بھی درست لیکن کیاصرف ایک دِن کے لیے؟۔ اگرہم واقعی حبّ ِ رسول کااظہار کرناچاہتے ہیں توپھر ہمیں لہو ولہب سے باہرنکلنا ،اسلامی تہذیب وتمدن کواپنانا ہوگا ،رقص وسرور ،میوزیکل کنسرٹ ،فن فیئر ،فیشن شوز اورمینابازار جیسی خرافات سے جان چھڑانی ہوگی ۔
دُکھ تویہ کہ اسلام کے نام پرحاصل کیے گئے اِس ملک میں یوں تو ہرکوئی اسلام کوبہترین نظامِ حیات قراردیتا اور اسلامی نظام لانے کی خواہش کااظہار بھی کرتاہے ۔

ہم نے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کاذکربھی کیا جس نے سات سالوں میں پورے آئین کواسلامی قالب میں ڈھالناتھا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل بھی پاچکی لیکن آج بیالیس سال گزرنے کے باوجود عملاََ کچھ بھی نہیں ہوا ۔یہ دراصل ہمارے ذاتی واجتماعی کردارکی منافقت کاشاخسانہ ہے ۔ ہم نام کے مسلمان ضرور ،کام کے ہرگز نہیں ۔علامہ اقبال توبہت پہلے اپنے اِس دُکھ کااظہار کرچکے کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ، جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
آئیے ! ہم سب مِل کراِس مبارک دِن کے موقعے پر عہدکریں کہ ہم اغیار کی نقالی کی بجائے سُنتِ رسول کی پیروی کریں گے اوراقوامِ عالم پریہ ثابت کریں گے کہ ہمارادین ہی سب سے بہتر اوراسی میں فلاح کی راہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :