جنون

اتوار 20 دسمبر 2015

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

عام طور پر ہر بچہ اپنی پیدائش کے بعد دو سے تین سال میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔مگر اس کی زندگی کا آغاز نہایت عجیب قسم کا تھا۔وہ چار سال کی عمر تک بولنا شروع نہ کر سکاتھا۔دیکھنے میں بظاہر وہ ایک معمولی بچہ تھا جس کے ماں باپ بھی ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔سکول سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا اسے سکول سے نکال دیا گیا اساتذہ کا خیال تھا یہ بچہ اپنی تعلیمی نا اہلی کا اثردوسرے بچوں پر بھی ڈالے گا اس طرح سے اسے سکول سے خارج کر دیا گیا۔

بس یہی نقطہ آغاز تھا ،یہاں سے ایک نئی زندگی کا آغاز ہونے جا رہا تھا اس معمولی سے بچے کے اندر ایک جذبہ انگڑائی لے کر بیدار ہوا اس نے دن رات کی پروا کیے بغیر محنت شروع کردی ۔اس نے اپنی خامیوں کو اپنی طاقت بنا لیا۔

(جاری ہے)

اس نے 1905ء میں زیورچ یونیورسٹی سے ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کر لی۔اس کے باوجود وہ کوئی اچھی نوکری نا حاصل کر سکا۔ مگر اس نے جنون کو ٹھنڈا نہیں پڑنے دیا اسی برس اس نے خصوصی اضافیت ،روشنی سے پیدا ہونے والے برقیاتی اثرات اور براؤنین حرکت کے نظریہ پر مقالات شائع کروائے۔

1913ء برلن یونیورسٹی کی طرف سے اسے پڑھانے کی نوکری مل گئی۔فقط چند برسوں بعد وہ اضافیت کا عمومی نظریہ وضع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔1921ء میں اس جنونی بچے کو اسکی خدمات کے عوض نوبل انعام سے نوازا گیا۔دنیا آج اس معمولی بچے کو آئن سٹائن کے نام سے جانتی ہے۔
یہ 1940 ء کی ایک جْھلستی ہوئی دوپہر کی بات ہے، ایک چودہ سالہ لڑکا بہت تیزی سے سائیکل دوڑاتا ہوا، موجودہ پاکستان کے شہر جھنگ کے قریب اپنے قصبے کی طرف جارہا تھا۔

سخت گرمی کے باوجود اس نے سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ غلطی سے حجام نے اس کا پورا سر مونڈھ دیا تھا۔جوں ہی وہ اپنے محلے کی جانب پہنچا، دونوں جانب قطار میں موجود لوگوں نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور اسکے لئے تالیاں بجائیں۔ اس لڑکے نے پورے صوبے میں میٹرک امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے پچھلے تمام ریکارڈز توڑدئیے تھے۔

انتیس جنوری 1926 کو پیدا ہونے والے سلام نے میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ کالج جھنگ سے حاصل کی۔ 1946 میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ایم اے کیا اور 95.5 فی صد کے ساتھ یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔کیمبرج میں رینگلرماسٹرز تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو وہ سِول سروس سے وابستہ ہوجاتے یا اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک کا رخ کرتے لیکن ایک چھوٹے سے زمیندار کے بیٹے ہونے کے ناطے ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔

خوش قسمتی سے اسے ایک اسکالرشپ مل گئی اور پڑھنے کیلئے انگلینڈ روانہ ہوگئے۔انہوں نے 1946 میں سینٹ جان کالج، کیمبرج میں داخلہ لیا انہیں رینگلر کا خطاب دیا گیا، کیمبرج میں کوئی ماہرِ ریاضی کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کرلے تو اسے' رینگلر' کہا جاتا ہے۔اس لڑکے کا نام عبدالسلام تھا۔ڈاکٹر عبدالسلام کی ڈاکٹریٹ کا واقعہ بھی بہت متاثر کن ہے۔

انہوں نے پی ایچ ڈی کیلئے ایک نہایت مشکل مسئلہ منتخب کیا تھا جس کے تحت میسون تھیوری سے لامتناہیت (انفینٹیس) کا خاتمہ تھا۔ عبدالسلام نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر یہ مسئلہ صرف تین مہینے میں حل کرلیا۔ تاہم انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے تین سال کا انتظار کرنا پڑا کیونکہ کیمبرج یونیورسٹی کے قواعد کے تحت پی ایچ ڈی کی ڈگری داخلے کے تین سال کے بعد ہی دی جاتی ہے۔

آخر کار 1952 میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی۔
جھنگ پنجاب کا پسماندہ ضلع ہے یہ وہی جھنگ جہاں ہیر کا مزار ہے کچھ لوگ اسے صوفیوں کا دیس بھی کہتے ہیں۔جھنگ کے ”میگھریانہ“ میں 1954میں ایک بچہ پیدا ہوا آرٹ کے شعبے میں اس کے شوق اور جنون نے اسے این سی اے پہنچا دیا۔دوران تعلیم ہی جھنگ سے تعلق رکھنے والے اس لڑکے نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے شروع کر دیے تھے۔

گریجویشن کے بعد ہی اسے ایک 70فٹ اونچے مینار کاکام ملاجس میں اس کے فن کو دیکھتے ہوئے شیخ زید بن سلطان بن النہیان نے کراچی کا زیر تعمیر محل بھی اس کی نگرانی میں دے دیاانہی کٹھن راستوں پر اپنے جذبوں کے سہارے چلتے چلتے جھنگ کا یہ لڑکا امریکا کے شہر نیو یارک پہنچ گیا۔ممتاز نامی اس لڑکے نے اپنے اندر چھپے فنکار کو پہچان لیا جنون اب بھی اس کا ساتھی تھا بس پھر کیا تھے ممتاز آگے بڑھتا رہا منزلیں عبور کرتا رہا اسکی بنائی گئی تصاویر نے نیویارک کی 26نمائشوں میں تاریخی پذیرائی حاصل کی اس دوران نائن الیون کا واقعہ ہو گیا پوری دنیا کہ مسلمان Defencive ہوگئے مگر شاید ممتاز حسین کے جنون نے اسے ”ڈیفنسو“ ہونا نہیں سکھایا تھا، اب کی بار ممتاز کے اندر کی ٹیلنٹ کچھ اورکرنے کی ٹھانی اور نائن الیون کے پس منظر میں فلم بناڈالی جس نے اپنے دیکھنے والوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

2011ء میں ممتاز نے ”آرٹ از ایکول ٹو لو“ کے نام سے فلم بنا کر پوری دنیا میں نہ صرف اپنی پہچان بنائی بلکہ پاکستان کا نام بھی پوری دنیا میں منوایا۔#
شوق کوئی بھی ہو جب اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو اْسے پاگل پن سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن فن کی دنیا میں اِس پاگل پن کی وجہ سے جو آب یاری ہوتی ہے، سیانے اْسے جنون اور عشق کا نام دیتے ہیں۔

آپ دنیا کے کامیاب بزنس مینوں ،سائنس دانوں،فنکاروں،سیاستدانوں کی بائیو گرافی پڑھ لیں آپ کو ان سب میں ایک ،جذبہ، لگن،محنت،دیوانگی نظر آئی گی یہ سب جذبے مل کر جنون بن جاتے ہیں دنیا کے کامیاب لوگوں کی کتھا بھی پاگل پن کے اسی کوچے سے ہو کر گزرتی ہے جہاں بڑی مشکل گھاٹیوں کی مسافت درپیش ہوتی ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ ان گھاٹیوں سے صرف دیوانے ہی گزرا کرتے ہیں۔

آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہیں اپنے آپ سے سوال کریں آپ کیا بننا چاہتے ہیں ۔۔۔اپنے اندر کے شخص کی آواز سننے کی کوشش کریں۔اگر آج بھی آپ کے پاس جنون ہے تو آپ کو دنیا کی کوئی طاقت کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔کسی جنونی نے کہا تھا ”خواب وہ نہیں جو بند آنکھوں سے دیکھے جائیں خواب وہ ہیں جو آپ کی نیندیں اڑا دیں“اگر آپ کو اس طرح بے چین کردینے والے خواب آتے ہیں،اگر آپ بھی اپنے ٹیلنٹ ،اپنے شوق،اپنے کام کو جنون میں بدل سکتے ہیں تو آپکوآئن سٹائن ،ڈاکٹر عبدالسلام،ممتاز حسین بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :