تقسیم در تقسیم دنیا کا مستقبل

جمعہ 18 دسمبر 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

دنیا گلوبل ویلج بننے کی وجہ سے ممالک کے مفادات مشترکہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ہیں،ہر ملک اور اتحاد چاہتا ہے کہ اس کی بات مانی جائے اور اس کے لئے اس کے پاس کافی مضبوط دلائل بھی موجود ہیں،اورجس کی وجہ سے دنیا میں جنگیں تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں ،اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی موقف اور ترجیعات تبدیل ہورہی ہیں جس کی وجہ سے دنیا مزید تقسیم ہوچکی ہے،نئے اتحاد سامنے آرہے ہیں پرانی اتحاد اور اتحادیوں پر بھروسہ ختم ہوتاجارہا ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ ہر ملک گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا اپنے مفادات کی حفاظت کو اولین ترجیع دے رہا ہے مگر اس سارے ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ چند افراد پاکستان کے تعلقات عرب ممالک کے ساتھ خراب کرنا چاہتا ہے ،سمجھ میں آتا کہ خارجہ پالیسی کے ماسٹر مائنڈزان سے کیوں نظریں چرارہے ہیں۔

(جاری ہے)


اس کی نئی مثال دو بڑی سپرپاورز کی سامنے آنے کو ہے ،امریکاو روس نے کہا ہے کہ شام میں قیامِ امن کے حوالے سے اقوامِ متحدہ میں قرارداد کی منظوری کے لیے عالمی طاقتوں کے نمائندے جمعہ کو نیویارک میں جمع ہوں گے یہ فیصلہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے بات چیت کے بعد کیا گیا ہے ۔

اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد سرگئی لاروف نے کہا کہ دونوں فریق شامی حزبِ مخالف کے وفد کی تشکیل جیسے متنازع معاملات پر بات کرتے رہیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں گذشتہ ماہ ویانا میں طے پانے والے قیامِ امن کے عمل کے اصولوں کی توثیق کے لیے اقوامِ متحدہ میں قرارداد منظور کروائی جائے گی۔جان کیری نے اس موقع پر کہاکہ امریکا اور روس میں کچھ معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے جن میں دہشت گرد گروپوں کا معاملہ بھی شامل ہے ۔

جبکہ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ و روس میں بشارلاسد کو نہ ہٹانے پر بھی اتفاق ہوا ہے جس سے مشرق وسطی کی جنگ نئی شکل اختیار کرنے جارہی ہے ،اور یہ نیا اتحاد شام میں بھی استعمال ہوگا۔خود سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی مخالف اسلامی ممالک کا نیا اتحاد داعش کے خلاف جنگ کے لیے معلومات کا تبادلہ کرے گا،فورسز کو تربیت دے گا، انھیں مسلح کرے گا اور اگر ضروری ہوا تو فوج بھی بھیجے گا -یمن میں عسکری کارروائیاں کرنے والے سعودی عرب کی زیرِ قیادت اتحاد نے متنبہ کیا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے ۔

اتحاد کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد سے معاہدے کی 150 مرتبہ خلاف ورزی کی جا چکی ہے اور اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ باغیوں کو بتا دے کہ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ۔
تیزی سے بدلتی صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اہم معاملات میں پاکستان سے مشاورت کی سطح میں ناکام رہتا ہے 34 رکنی فوجی اتحاد کا اعلان ہوا اور پاکستانی دفتر خارجہ نے مبہم بیان جاری کیا دوسری جانب پاکستان میں سعودی سفارت خانے کا بھی یہی حال ہے جب ان سے رابطہ کرکے اس کی تفصیلات معلوم کرنا چاہیی تو تاحال خاموشی ہے،یا پھر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی جارہی ہے اتنا بڑھا اعلان اور دونوں جانب اسلام آباد میں لاعلمی اور خاموشی نقصان دہ ہوسکتی ہے، یمن کے معاملے پرپہلے بھی جب پاکستان کا نام اور جھنڈا اتحاد میں شامل کیا گیا تو پاکستان کا ردعمل درست سامنے نہیں آیا،جس سے غلط فہمی بڑھی تھی۔


گذشتہ روزسعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے 34 اسلامی ریاستوں پر مشتمل فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہے ۔سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق دہشت گردوں کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے سے ہو انہیں فساد پھیلانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ امت مسلمہ کو تمام دہشت گرد گروپوں کے ناپاک عزائم سے بچانا مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں 34 اسلامی ریاستوں پر مشتمل فوجی اتحاد قائم کرلیا گیا ہے ۔ جس میں مصر، قطر اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ ترکی، ملائیشیا، پاکستان، خلیجی عرب ممالک اور مسلم افریقی ریاستیں بھی شامل ہیں۔سعودی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس فوجی اتحاد کا مقصد تمام دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کی کارروائیوں سے اسلامی ممالک کو بچانا، فرقہ واریت کے نام پرمعصوم لوگوں کو قتل کرنے سے روکنا ہے ، اس اتحاد کا صدردفترسعودی دارالحکومت ریاض میں ہوگا۔

جہاں سے فوجی آپریشنز کے سلسلے میں رابطہ رکھا جائے گا اور ہرممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔سعودی عرب کے نائب ولی عہد اوروزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد داعش ہی نہیں ہراس دہشت گرد کا مقابلہ کرے گا جو امت مسلمہ کے مقابل آئے گا۔
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کا بیان سامنے آیا پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں 34 ممالک کے فوجی اتحاد کا خیر مقدم کرتا ہے تاہم اس میں شرکت کے لیے تفصیلات کا انتظار کیا جارہا ہے ،اس بیان کا مقصد کیا ہے سمجھ سے بالاتر ہے جب خیر مقدم کررہے ہو تو قوم کو بتا دینے میں کیا حرج ہے کیا ہماری خارجہ پالیسی بنانے والے اتنے کمزور ہیں کہ ردعمل کے خوف سے چھپ ہیں ،جبکہ دوسری جانب ہر ملک اپنے مفادات کے لئے کھل کر مشرق وسطی کی صورت حال پر سامنے آچکا ہے۔

اور اپنے اتحادیوں کو یقین دلارہا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہے اور ہر ممکن تعاون کرے گا، ایران،روس اس کی بڑی مثال ہے،مگر اس ساری صورت حال میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟کس کے ساتھ ہیں؟کیا سب راضی ہوسکتے ہیں؟ ماضی میں ہمارا ساتھ کس نے دیا؟ اب کون دے رہا ہے؟سب معلوم ہے مگر کمزور پالیسی میکرز اور چند افراد کی اجارہ داری کی وجہ سے ہم کھول کر فیصلے کرنے میں ناکام رہے ہیں ،حکمران ہمشہ دیر کردیتے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر،تاپی ایگرمینٹ میں برسوں لگ گئے ،اب بھی وقت ہے کہ ایک مضبوط وزیر خارجہ مقرر کیا جائے جو کہ طویل مدتی مفادات کے لئے دوست ممالک کے ساتھ پاکستانی مفادات کے تحفظ کے لئے مل کر فیصلے کرے اب بین السطور باتیں کرنے کا وقت نہیں جدید دور میں باتیں ہوا سے تیز سفر کرکے پہنچتی ہیں،اس لئے دوست اور اتحاد دونوں کی ہمیں کل بھی ضرورت تھی اور آج بھی ہے۔

۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :