کے پی کے میں 4دن

جمعہ 11 دسمبر 2015

Hussain Jan

حُسین جان

2دسمبر کو ہیڈ آفس سے فون آیا کہ پشاور کے خیبر کالج آف ڈینٹسٹری کے سالانہ کانوکیشن اور 50سالہ گولڈن جوبلی کے پروگرام کی کوریج کے لیے تیاری کرو۔ سوچا ابھی کچھ دن ہو ں گے تو جواب ملا کہ نہیں جناب 3کو آپ جائیں گے اور 4کو کانوکیشن ہے 5,6کو 50 سالہ جشن ۔ اتنے کم وقت میں ایک صوبے سے دوسرئے صوبے میں جاناتھوڑا مشکل ہوتا ہے ، پھر خیال آیا چلو اچھا ہی ہے اسی بہانے خان کا کے پی کے بھی دیکھ لیں گے اور حکومت کی کارکردگی کو ماپنے کا موقع بھی مل جائے گا۔


جب سات بجے پشاور پہنچا تو وہاں سے ہوٹل کے لیے ٹیکسی پکڑی،ہوٹل کا نام بتایا اور بیٹھ گئے سب سے پہلے سوال پوچھا کہ کیا وہ عمران خان کی حکومت سے خوش ہے،کیا پی ٹی آئی کی حکومت عوام کے لیے کچھ کر رہی ہے یا سابقہ حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی آپ کو لالی پاپ دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

اب ٹیکسی والے کو کیا پتا میں کون ہوں کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں ،رکھتا بھی ہوں کے نہیں، ان تمام باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُس نے جواب دیا کہ ہاں ہم اس حکومت کی کارکردگی سے بہت خوش ہیں، میں نے کہا ہوسکتا ہے تم پی ٹی آئی کے کارکن ہو ، کوئی مثال دو تو مانوں۔

تو اُس نے بتایا کہ پہلے ٹیکسی کا لائسنس بنوانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے رشوت دینی پڑتی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کے اے این پی کی حکومت ٹیکسی پرمٹ کو بیچا کرتی تھی، جبکہ اب صرف 2500روپے بینک میں جمع کرواتے ہیں اور پرمٹ مل جاتا ہے۔ لہذا ہم خوش ہیں کہ حکومت عوام کے لیے کام کر رہی ہے۔ کیونکہ 4دن ہم نے پشاور میں رہنا تھا لہذا بار بار ٹیکسی کرکے ہوٹل سے کالج جانا پڑتا یہی سوال ہم ہر ٹیکسی درائیور سے کرتے۔

سب نے ایک ہی جواب دیا کہ حکومت عوام کے لیے کافی کچھ کر رہی ہے اور مزید کام کرئے گی۔ ایک درائیور کا کہنا تھا پہلے ہمیں ٹریفک پولیس بہت تنگ کرتی تھی۔ ہر چوک پر ہمیں روک لیا جاتا تھا ، رشوت لی جاتی تھی، بالاوجہ چالان کر دیا جاتا تھا۔ گاڑی کو تھانے بند کر دیا جاتا تھا۔ مگر جب سے نئی پولیس آئی ہے تب سے حالات بہت بہتر ہیں اب ہمیں پولیس والے تنگ نہیں کرتے۔

اب چالان صرف غلطی پر ہی ہوتا ہے۔ رشوت نہیں مانگی جاتی۔
اپنے کام کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں سے حکومت کے بارئے میں بھی پوچھتے جاتے تھے۔ اب آپ کو کے پی کے کی حکومت کے ایک نوجوان وزیر کی کہانی سناتا ہوں۔ 4تاریخ کو گولڈن جوبلی کا آغاز ہونا تھا۔ یہ پروگرام کیونکہ ایک دینٹل کالج میں منایا جا رہا تھا لہذا اسی مناسبت سے کالج انتظامیا ں نے وزیر صحت جناب شاراب خا ن کو چیف گیسٹ کے طور پر مدو کیا تھا۔

ہم لان کے پاس کھڑئے تھے کہ سکیورٹی گارڈز نے مین گیٹ کھولا اور دو گاڑیا ں اندر آگئیں ہم نے سوچا کوئی مہمان ہو گا۔ لیکن جب گاڑی کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو گاڑی کی طرف آتے دیکھا تو پتا چلا کہ موصوف وزیر صحت ہیں۔ دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ ایک ایسے صوبے کا وزیر جہاں دہشت گردوں کا راج رہا ہے۔ جہاں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے صوبے کا وزیر بغیر پروٹوکول کے پھر رہا ہے۔

جب کہ پنجاب میں ہم نے دیکھا ہے صوبائی وزیروں کا پروٹوکول بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے۔ عام سے کپڑوں میں مبلوس شاراب خان بہت پرکشش لگ رہے تھے۔
خیر قصہ مختصروزیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ، اگر آپ کے پاس عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی پروگرام ہے، وہ آپ ہمیں دیں ہم اُس کو پورا کریں گے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہم ہر اُس منصوبے کو عملی جامعہ پہنائیں گے جس میں عوامی فلاح ہوتی ہو۔

انہوں نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ہماری حکومت ، امن، تعلیم، صحت ،اور روزگار پر بہت زیادہ کام کر رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس صوبے کے لوگوں کے زیادہ سے زیادہ مسائل حل کیے جائیں۔ وزیر صاحب نے کھلے دل سے ایک ایسی بات کی جو ہمیں اب تک یاد ہے اُن کا کہنا تھا عوام کے پیسہ عوام پر ہی لگا رہے ہیں ،ہم نے کون سا اپنی جیب سے دینا ہے یا جیب میں بھرنا ہے۔

یہ تبدیلی کی حکومت ہے اور انشا ء اللہ ہر حال میں صوبے میں تبدیلی لے کر آئے گی۔ ہم نہ تو خود کرپشن کریں گے نا ہی کسی دوسرئے کو کرنے دیں گے۔
خیر بات ہو رہی تھی عام لوگوں کی کہ عا م اور غریب لوگ ہی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایک سکیورٹی گاڑد سے جب پوچھا کہ حکومت نے کوئی اچھا کام بھی کیا ہے تو اُس کے کہنا تھا کہ بالکل بہت اچھے کام کیے ہیں ، پہلے ڈاکٹر صاحب ہسپتالوں میں آتے نہیں تھے، کسی مریض کو ٹھیک سے چیک نہیں کرتے تھے جبکہ اب ہر وقت ہسپتال میں ڈاکٹر موجود رہتے ہیں لوگوں کو ٹھیک سے چیک کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوایاں مفت میں ملتی ہیں۔

اُس کا مزید کہنا تھا کہ پشاور میں نہ صرف پورئے صوبے سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں بلکہ افغانستان سے بھی لوگوں آتے ہیں۔ ابھی پشاور میں کینسر ہسپتال بھی بن رہا ہے۔ اس سے لوگوں کو مزید فائدہ ہوگا۔
ایک پروفیسر صاحب سے پوچھا الیکشن سے پہلے عمران خان صاحب تعلیم کے بارئے میں بہت بڑئے بڑئے دعوئے کرتے تھے آپ بتائیں کیا انہوں نے اپنے وعدوں کا پاس رکھا۔

پروفیسر صاحب کے کہنا تھا میں کسی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں اور نا ہی سیاسی آدمی ہوں۔ لیکن میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کے پی ٹی آئی کی حکومت تعلیم پر بہت پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ اُن کی کوشش ہے کہ صوبے میں تعلیم کو عام کیا جائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم جب کبھی کوئی ڈیمانڈ حکومت کے پاس لے کر جاتے ہیں تو وہ فورا منظور کر لی جاتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ جواب دیا جاتا آپ نیک نیتی سے کام کریں آپ کے تمام مسائل کو حل کیا جائے گا۔

آپ تعلیم میں لوگوں کی مدد کریں۔ دور دراز کے لوگو ں کے پاس جائیں تاکہ تعلیم کے زریعے تبدیلی لائی جاسکے۔
حکومت اُن ڈاکٹرز حضرات کو زیادہ مراعات دینے کا علان کر چکی ہیں جو دور دراز کے علاقوں میں جا کر لوگوں کی خدمت کریں گے۔ حکومت کی طرف سے یہی وعدہ کیا گیا ہے کہ اخراجات کے ساتھ ساتھ تحفظ اور دوسرئے تمام مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔


سی این جی پورئے صوبے کو وافر مقدار میں مل رہی ہے۔ آپ دو سو روپیہ دیں اور ٹیکسی میں بیٹھ کر شہر کے ایک کونے سے دوسرئے کونے میں چلے جائیں جبکہ ہمارے لاہور میں یہ حساب ہے کہ اگر آپ کو صرف 5کلومیٹر کا سفر کرنا ہے تو ٹیکسی ولا آپ سے 500 سے کم نہیں لے گا۔ اگر کے پی کے حکومت اسی طرح کام کرتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب نیا کے پی کے بنے گا اور پھر نئے پاکستان کی باری آئے گی۔ عمران خان کی حکومت پر تنقید کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ ایک د فعہ کے پی کے میں جا کر دیکھیں ضرور ۔ جو عمران خان کہتا تھا وہ کر کے بھی دیکھا رہاہے۔ اُس کی جینا مرنا پاکستان کے عوام کے لیے ہے۔ اُس کی کوشش ہے کو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے فہرست میں لا کھڑا کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :