بھڑچکانہ ضد

بدھ 9 دسمبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

راول پنڈی والے شیخ جی کا نام ”رشید “ ہے مگر وہ ”چلی “ بننے کے موڈ میں رہتے ہیں اور نت نئے خواب دیکھتے اور پھپھولے پھوڑتے ہیں، ان کے بہ قول عمران خان سے ان کی ناشتے کی شرط لگی ہے ، کہ2016کے مارچ اپریل میں ”دونوں شریف“ نہیں ہوں گے ، ایک رہے گا، ایک چلا جائے گا، بات تو واضح ہی ہے کہ ان کی ”بصیرت “ کس شریف کو نہیں دیکھ رہی ۔

شاید رتی بھر مروت نے انہیں نام نہیں لینے دیا ، یا شاید سسپنس پیدا کرنا شیخ جی کی ا دا ٹھہری ہے، یہ بھی ممکن ہے ”کم زور شریف“ سے شیخی میں کچھ کہلوانا مقصد ہو ، یا شاید ”طاقت ور شریف “کو غصہ دلانا چاہتے ہوں ، لیکن اس سیاسی ”بصیرت “ کے ساتھ شیخ جی کو اپنی ”بصارت“ پر بھی نظر رکھنی چاہیے ،کیوں کہ شیخ کی شیخیوں اور شوخیوں نے شیخ کو بلدیاتی انتخابات میں شکست سے دو چار کردیا۔

(جاری ہے)


####
کراچی میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ”بڑے“ اپنی اپنی جگہ ان اسباب پر غور کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کے اتحاد کو کامیابی کیوں نہیں ملی۔ آن دی ریکارڈ اسباب میں تو یہی ہیں :# متحدہ نے تیکنیکی اور سائنٹیفک طریقے سے دھاندلی کی ہے، جس کا توڑ تحریک انصاف کے پاس ہے نہ جماعت اسلامی کے پاس # رینجرز کو دھاندلی روکنے کا اختیار نہیں بلکہ قیام امن تک مینڈیٹ محدود تھا# انتخابی فہرستیں ایک بارپھر متحدہ کامیابی کی وجہ ٹھہری ہیں۔

لیکن یہ بات بھی تو آن دی ریکارڈ ہے کہ شہر کی سیاسی صورت حال سے واقف ہر شخص انہی نتائج کی توقع کر رہا تھا، بس متحدہ نے پچیس کے لگ بھگ زیادہ نشستیں جیت لی ہیں اور اتحاد نے خود اپنی توقع سے بھی اتنی ہی نشستیں کم جیتی ہیں، ن لیگ نے توقع سے نو سیٹیں کم لی ہیں،پی پی نے اپنے تصور سے بہت کم نتائج حاصل کیے۔میر تو ”اپنا “ ہی بننا تھا، یہی تو ”سپنا“ تھا، اس سپنے میں متحدہ کے ساتھ ساتھ جتنے رنگ جماعت اور پی ٹی آئی بھر سکتی تھیں ، انہوں نے بھرے۔

نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
####
کراچی آپریشن پورے سندھ میں پھیلاؤ مانگتا ہے ، لیکن ”کپتان“ اس کے لیے راضی نہیں ۔ نوے سالہ کپتان قائم علی شاہ مسلسل اس فکر میں ہیں :” کھاؤں کدھر کی چوٹ ، بچاؤں کدھر کی چوٹ؟“ان کے باس مسٹر زرداری ہیں ، ان کو ناراض کرتے ہیں تو بہت کچھ ڈوبنے کا خطرہ ہے ، اور اگر آپریشن کے اصل کپتان کو ناراض کریں تو بھی بہت کچھ جاتا ہے ۔

ویسے مسٹر زرداری کی جیت نوے سالہ کپتان کے رہنے میں ہے کیوں کہ عمر کے جس حصے میں یہ کپتان ہے اس حصے میں ان سے سخت اور ٹیڑھے لہجے میں بات کرنا کسی ”شریف آدمی “ کو پسند نہیں۔ اس عمر میں ” بڑے“ بھی ”بچکانہ“ ضد کرنے لگتے ہیں اور لوگ اس ” بھڑچکانہ“ضد کی رعایت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
####
اس میں شک نہیں کہ کراچی میں کم از کم 60فی صد ووٹ متحدہ کے خلاف ہے ، یہ چاہتا ہے متحدہ سیاست سے آّؤٹ ہوجائے ، لیکن یہ ووٹ خودسیاست میں کودنا نہیں چاہتا ، یہ ووٹ متبادل نہ ہونے کے ہاتھوں چپ ہے ،یہ ووٹ ”صوفیانہ“مزاج رکھتا ہے ، اس کو گھر کا اندرونی کمرہ بہت پسند ہے ،یہ ووٹ سارا کام دعاؤں سے چلانا چاہتا ہے، یہ ”ووٹ “ووٹ کی طاقت کو حقیقت تسلیم نہیں کرتا ہئے ، یہ ووٹ پہلے ہی شکست خوردہ ہے ، اس کے لبوں پر یہی ہوتا ہے : ”ہمارے ووٹ سے کیا ہو گا“۔

” جیتنا غلط لوگوں نے ہی ہے “ ۔”صحیح کون ہے؟ غلط کون؟ َ سب برابر ہیں، سب ایک ہی جیسے ہیں“۔
اس ساٹھ فی صد میں سے مشکل سے پندرہ فی صد ووٹ ڈلتا ہے وہ بھی تقسیم ہو جاتا ہے ،باقی پینتالیس ووٹ گھر میں آرام کرتا ہے اور اللہ اللہ کرتا ہے ۔ جب کہ متحدہ کا ووٹ چالیس فی صد ہے ،جس میں سے تقریبا تیس، بتیس فی صد ڈلتا ہے ، یہ تقسیم نہیں ہوتا ، ایک آواز پر ” حاضر جناب “ کہتا ہے ،لہذا یہی فیصلہ کن بن جاتا ہے ، حالاں کہ فیصلہ کن ووٹ ہے جو ڈلتا نہیں لیکن سوال تو یہ ہے اس ووٹ کو گھر سے نکالے کون ؟
####
تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اب اگلے انتخابات تک کراچی میںآ رام کریں گی ، مذہبی سیاست کی دعوے دار جماعتیں بھی اسی اصول پر کاربند رہتی ہیں، یہ اب غائب ہوں گی تو اگلے انتخابات میں ہی کہیں نظر آئیں گی ، جب کسی کو نظر ہی نہ آئیں تو انتخابات میں یہ کسی کو نظر آئیں یا نہ برابر ہے ۔

لوگ ان پر اسی لیے تو اعتماد نہیں کرتے کہ ہار کے بعد ان کو کم از کم ان کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے ساتھ دیا ،یہ ٹوٹے دل کے ساتھ غائب ہو جائیں گے تو کسی کو کیا پڑی ہے ان کا ساتھ دینے کی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :