مشکل فیصلے

پیر 7 دسمبر 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

2013کے عام انتخابات کے نتیجے میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کی بننے لگی ،اس وقت ن لیگ کے رہ نماؤں کی زباں سے ایک جملہ بہت سنا گیا، جملہ یہ تھا:”ملکی ترقی کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔“اور پھر حکومت کے قیام سے اب تک حکومت وہ مشکل فیصلے بڑی آسانی سے کر رہی ہے اور عوام بڑی مشکل سے ان فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہیں ، کیوں کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ، اگر چہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت جلسے جلوس اور دھرنوں سے شور و غوغا بر پا کیے ہوئے ہے ، لیکن اس کی ساری تحریک کا مقصد یہ ہے کہ 2013میں دھاندلی ہوئی ، ورنہ ہمیں حکومت ملتی ۔

کبھی کبھار شاید ریکارڈ کی درستی یا منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا ذکر بھی آجاتا ہے ، لیکن بہ حیثیت مجموعی ایک ہی رونا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے ،ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

ہم مظلوم ہیں ، مہیں حکومت نہیں ملی۔
آج بات ان مشکل فیصلوں کی کرنی ہے جن کی نوید یا خبر حکم ران جماعت نے اپنی آمد سے پہلے سنائی تھی اور آنے کے بعد سے اب تک ان مشکل فیصلوں کی قسطیں موصول ہو رہی ہیں۔

پہلے پہل تو عوام کو ان مشکل فیصلوں کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہوں گے ،کیسے ہوں گے؟ شاید اس سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ حکم ران بغیر تنخواہ کام کریں گے ،یا بس اتنی ہی تنخواہ لیں گے جس سے دال روٹی چل سکے ، اضافی فنڈاور مختلف قسم کے بونس نہیں لیں گے ۔یا شاید یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قومی دولت لوٹنے والوں سے لوٹ مار کا حساب لیا جائے گا، جو دولت لوٹ کر بیرون ممالک کے بنک بھرے گئے ہیں ،وہ واپس لائی جائے گی ، یا یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیے جائیں گے ، حکم ران اور عوام مل کر روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کریں گے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔

شاید یہ بھی سمجھا گیا ہوکہ تمام سیاسی رہ نماؤں کے لیے لازم قرار دیا جائے گاکہ اپنے اثاثے پاکستان منتقل کریں ،تا کہ ان کی دیکھا دیکھی بڑے بڑے سرمایہ دار بھی سرمایا پاکستان لائیں ،اور قومی خزانے کو کسی کا مرہون ِمنت نہ ہونا پڑے ۔
افسوس ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، کابینہ کا حجم قدرے چھوٹا رکھا گیا ، یہ ایک اچھا فیصلہ سمجھا اور اسے سراہا گیا،لیکن اس چھوٹی کابینہ نے بڑی کابینہ سے بڑھ کر تکلف بر طرف اور ہاتھ ہر طرف کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، کابینہ کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم نے جو ریکارڈ دورے کیے ہیں ، ان دوروں پر قومی خزانے سے جو خرچ ہو رہا ہے ،اس کی رپورٹیں آئے روز شائع اور نشر ہوتی ہیں، شاید اسی کو مشکل فیصلے سے تعبیر کیا گیا ہو ، کہ قومی خزانے میں کچھ نہیں ہو گا، ہم قرض لے کرملک چلائیں گے اور اسی قرض سے داد عیش دیں گے ۔

غیر ملکی دورے یقینا اس منصب کا تقاضا ہیں، دنیا کے سارے حکم ران دورے کرتے ہیں،ہمیں بھی کرنا چاہییں ،لیکن یہ دورے فائدہ اتنا نہیں پہنچاتے، جتنا نقصان پہنچاتے ہیں۔
ان مشکل فیصلوں کی ایک جھلک چند دن پہلے دیکھنے میں آئی، جب وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے کسی راڈار کی طرح ایک ایک چیز نوٹ کی اور ان پر ٹیکس لگا دیا ، ٹیکس کی رقم کوئی چھوٹی موٹی نہیں، چالیس ارب روپے ہے ، یہ ٹیکس درآمدی اشیاء پر لگانے کا دعوی کیا گیا ،دلیل یہ دی گئی کہ جو بیرون دنیا سے آنے والی چیز کھا اور استعمال کرسکتا ہے وہ ٹیکس بھی دے سکتا ہے ، پہلے تو یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ٹیکس صرف در آمدی اشیاء پر ہے کیوں کہ جو نظام اور طریق کار ہمارے ہاں رائج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی شکل والا نظام ہے، قیمتیں بڑھانے والے ملکی اور غیر ملکی کے چکر میں نہیں پڑتے،پھر یہ کیا انصاف ہے ہم اول خود تو بہتر اشیاء بنائیں نہ اور بنائیں بھی تو انہیں باہر بھیج دیں ، زر مبادلہ کو شیر مادر اور باپ کی میراث سمجھ کر استعمال کریں ، اور اگر کسی کے پاس چار پیسے کی گنجائش ہے اور وہ اچھی اور بہتر چیز استعمال کرتا ہے تو اسے دونوں ہاتھ سے لوٹنا قومی فرض سمجھتے ،، اس کو مشکل فیصلے کہتے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔


حزب اختلاف کی جماعتیں ان مشکل فیصلوں کے خلاف اکٹھا ہونے کا اعلان کر رہی ہیں ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان تلوں میں تیل ہی نہیں ، نہ ان کی یہ نیت ہے ،نہ ہی کرسکتے ہیں یہ سب زبانی جمع خرچ ہے جو قوم کی ہم دردی سمیٹنے کے لیے ہے ، سیاسی یتیم عوام کی حمایت سے جس طرح محروم ہوئے ، اس کی واپسی کے لیے ایسی فن کاریاں اور اداکاریاں ضروری ہیں ورنہ یہ سب ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں،ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، یہ سب خانہ پُری کے لیے اپنی سیاسی دکان چمکا رہے ہیں ، ان میں کچھ تو وہ ہیں جن کے کرتوت ہی ملکی خزانے کو خالی کرنے کے رہے اور کچھ وہ ہیں جن کا جی للچا رہا ہے کہ سب کھا چکے ہم رہ گئے ۔

کاش حکومت وہ مشکل فیصلے کرتی جن کی قوم کو توقع تھی۔قوم یقینا ان فیصلوں میں اس کا ساتھ دیتی اور نتیجہ ڈھائی سال میں وہ نکلتا کہ قوم شیر و شکر ہوتی ، آپا دھاپی کا شکار نہ ہوتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :