جدید مغربی فکر کے چند نظریات !

پیر 7 دسمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

انیسویں صدی کے اختتام پریورپ میں ایک نیا نظریہ جنم لے رہا تھا ۔یہ نظریہ comperative studies(تقابل ادیان) کا تھا ۔ ہمارے بعض ساد ہ لوح مصنفین اور اسکالر اس لفظ سے دھوکا کھا گئے ۔ وہ تقابل ادیان کا معنیٰ یہ سمجھ بیٹھے کہ ادیان کے باہمی تقابل کے بعد حق اور سچ واضح ہو جائے گا اور حقیقت تک رسائی ممکن ہو جائے گی حالانکہ اہل مغرب کے ہاں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا ۔

ان کے نزدیک تو اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ صرف یہ دیکھاجائے کہ مختلف مذاہب میں کون کون سی اقدار مشترک ہیں اور بس۔ حقیقت تک رسائی کا تو اس میں دور دور تک کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ اس نظریئے نے بھی مذہب سے دوری کی ایک راہ پیدا کی ۔ دوسرا نظریہ naturalism(فطرت پرستی)کا تھا ۔ فطرت پرستی یا نیچرل ازم مادیت پرستی کا دوسرا نام تھا ۔

(جاری ہے)

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بیکن ، ہیگل اور کومٹ نے مادیت پرستی کا جو نظریہ دیا نیچرل ازم نے اس کے بطن سے جنم لیا ۔

اٹھارویں صدی سے پہلے تک مذہبی نکتہ ء نظر سے فطرت کو ایک راز سمجھا جاتا تھا ، فطرت اور قوانین فطرت کے بارے میں چرچ اور کلیسا کا پورا تسلط قائم تھا ، فطرت کے کاموں میں کھوج لگانا خدا کے کاموں میں دخل سمجھا جاتا تھا ۔لیکن اٹھارویں اورانیسویں صدی میں جب کلیسا اور چرچ کا زور ٹوٹا اور مذہب کو یورپی معاشروں سے بے دخل کردیا گیا تو عقلیت پرستی کے ساتھ فطرت پرستی کا بھی رجحان پروان چڑھا ۔

اب فطرت کے ساتھ ساتھ خوبصورتی ، مجسمہ سازی ، فن تعمیر ، موسیقی ، غزل او ر مصوری بھی یورپی معاشرے کا لازمی حصہ بن گئی ۔ مغربی فکر میں فطرت کو ایک خاص زاویئے سے دیکھا جانے لگا ، فطرت سے مرادپہاڑ، دریا ، ندی نالے ، جنگلات ، خوبصور ت وادیاں ،صحرا ار خوبصور ت مناظر تھے ۔ انیسویں صدی کے لٹریچرمیں فطرت پرستی کا خوب پرچار ہوا ، اس دور کے شاعروں کی حس جمال فطرت پرستی کی خوگر ہو گئی ،ہزاروں نظمیں لکھی گئیں ۔

اب فطرت کے بارے میں یہ عقیدہ بنا کہ فطرت بذات خود جاندارہے اور اپنی توانائی سے زندہ ہے ۔ اس سے اگلا قدم یہ اٹھا کہ یہ نظریہ سامنے آیا کہ حقیقت بھی فطرت کی مختلف شکلوں میں حلول کر تی ہے اور اسی کے اندر کہیں رہتی ہے ۔ سر سید اور حالی نے جو نیچری تحریک شروع کی اور نیچرل شاعری کا نعرہ لگایا اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرماتھی ۔
تیسرانظریہ utilitarianism(افادیت پرستی)کا تھا ۔

یہ ایک انوکھا نظریہ تھا ۔ اس نظریئے کے مطابق کوئی بھی چیز بذات خود اچھی ہے نہ بری بلکہ اس کا فیصلہ اس کی افادیت سے ہو گا۔ دیکھا جائے گا کہ اس چیز سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ، جو چیز فائدہ مند ہو گی وہ اچھی بھی ہوگی او ر جو افادیت سے خالی ہے اس کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ۔ چوتھا نظریہliberal ethics(آزاد خیالی ) کا تھا ۔ اس نظریئے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ اخلاقیات کا انحصار مذہب کی بجائے انسانی فطرت پر ہونا چاہیئے،ان کا کہنا تھا کہ انسانی فطرت بذات خود پاکیزہ اور معصوم ہے اور و ہ خود بہترین اخلا قی اصول پیداکرتی ہے لہذا مذہب سے اخلاقیات کا درس لینے کی بجائے انسانی فطرت کو بنیاد بنانا چاہیئیے ۔

اس نظریئے کے بعد اخلاقیات کو مذہب سے الگ کر کے پیش کیا جانے لگا تھا۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مغربی معاشروں میں اخلاقیا ت کابڑا چرچا رہا ہے ۔ ان کے نزدیک مذہب صرف اخلاقیا ت پر مشتمل ایک نظام تھا اور اس سے بڑھ کر ان کے نزدیک مذہب کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ ان کے نزدیک عقائد و عبادات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔

اخلاقیات کا یہی رجحان ہمیں سر سید اور ان کے دیگر رفقاء کی تبلیغ و مساعی میں بھی نظر آتا ہے ۔سر سید نے تہذیب اخلا ق کا جو نعرہ بلند کیا اور ”تہذیب الاخلاق “ کے نام سے جو رسالہ جاری کیا اس کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما تھی ۔ اس لیئے جب ایسے لوگ مذہب اور اخلاقیات کی تعریف کریں تو اہل علم کو محطاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے پیچھے اخلاقیات کے ضمن میں مذہب کی اصل روح یعنی عقائد و عبادات کا انکار چھپا ہوتا ہے ۔


پانچواں نظریہ free thoughts (آذاد خیالی ) تھا جس کا دوسرا نام ڈارون کا ”نظریہ ارتقاء “تھا ۔ ڈارون کے اس نظریئے کی کوئی ٹھوس بنیاد تھی اور نہ ہی وہ اپنے اس نظریئے پر کوئی ٹھوس دلائل پیش کر سکا ۔ کیونکہ یہ نظریہ بنیادی انسانی فطرت کے خلا ف تھا اور محض ظن و تخمین کی بنیاد پر قائم تھا ۔اس نظریئے کے پس منظر میں فلسفہ یہ ہے کہ یہ کائنات ایک دم سے وجو د میں آئی ہے اور نہ ہی انسان ایک دم وجود میں آیا بلکہ یہ کائنات اور اس کے تما م عناصر و اجزا ء ہزاروں لاکھوں سالوں کے ارتقائی سفر کے بعد اپنی موجودہ شکل تک پہنچے ہیں اور مستقبل میں بھی ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گیں اور ارتقاء کا یہ سفر ہمیشہ کے لیئے جاری رہے گا۔

ڈارون کا کہنا تھا کہ مسلسل تبدیلی اور ارتقاء کا یہ عمل فطرت کے بنیادی عوامل میں سے ہے ۔ اس سے پہلے یورپی معاشرے میں کائنات کے بارے میں عیسائی تصور یہ تھا کہ یہ کائنات اللہ کے حکم لفظ ”کن “ سے وجود میں آئی ہے اور آج تک اسی کے حکم کے مطابق چل رہی ہے لیکن ڈارون کے اس نظریئے نے عیسائی عقیدے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو ترقی اس وقت ملی جب یورپ میں صنعتی انقلا ب آیا ۔

انقلاب کے نتیجے میں یورپ امیر ہونا شروع ہوا ، انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ صنعتی اور سائنسی میدان میں ترقی کر رہا تھا ، لوگ نہ صرف خوش تھے بلکہ اپنی اس ترقی پر فخر بھی کیا کرتے تھے ، کائنات کو ترقی کے نکتہ ء نظر سے دیکھا جانے لگا تھا ، ارتقاء بھی ترقی کے معنٰی کو متضن تھا ، ارتقاء کا معنٰی یا تاثر یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے بہتر حالت میں ہو جانا ، یورپی ذہن پہلے ہی کائنات کو ترقی کے نکتہ ء نظر سے دیکھتا تھا لہذا انہوں نے ڈارون کے اس نظریئے کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔

چھٹا نظریہ خلوص پرستی یا جعلی مذہبیت کا تھا ۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انیسویں صدی آتے آتے یورپی معاشرے میں مذہب متنازعہ حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ قرون وسطیٰ میں چرچ اور کلیسا نے جو مذہبی جبر روا رکھا تھا اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ مذہب سے بغاوت کی جائے ۔ سولہویں صدی سے شروع ہونے والی یہ بغاوت انیسویں صدی تک ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی تھی ،لوگ مذہب سے بیزار ہوچکے تھے اور مذ ہب کی جگہ آذاد خیالی ، عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی نے لے لی تھی ، اب انیسویں صدی میں دو قسم کے گروہ پیدا ہو چکے تھے تھے ، ایک وہ جو مذ ہب کو بالکل رد کر دیتے تھے ، دوسرے وہ جنہوں نے مذہب کو ایک اخلاقی اور معاشرتی نظام کے طور پر قبول کر رکھا تھا ۔

جنہوں نے مذہب کو قبول کر رکھا تھا وہ بھی کہتے تھے کہ مذہبی عقائد ہیں تو غیر فطری لیکن انسانیت کی تسکین مذہب سے ہی وابستہ ہے لہذا مذہب کی کوئی نہ کوئی حیثیت برقرار رہنی چاہیئے ۔ گویا مذہب کو ماننے اور نہ ماننے والے مذہبی عقائدا ور عبادات کے دونوں خلاف تھے ۔ اس نظریئے کے پیچھے جو فلسفہ تھا اس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی کے لیئے عقائد و عبادات کی مخصوص رسموں کی ضرورت نہیں محض ”خلوص “ کافی ہے اور یہی خلوص ان کے نزدیک اصل مذہب تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :