30 جون 2016 تک…!!!

ہفتہ 5 دسمبر 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

یہ صرف ”ایف بی آر“ کا ہی کمال ہو سکتا ہے کہ اور یہ اسی ”ذہین ٹیم“ جیسے بیورو کریسی بھی کہتے ہیں کی ہی ذہنی کاوش ہو سکتی ہے کہ بجٹ کے صرف سو دن بعد ہی سیاسی حکومت کو اس راستے پر ڈال دیا ہے جس پر اسے پارلیمنٹ میں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوام میں بھی حکمران جماعت کی مقبولیت کو شدید زک پہنچے گا۔ 40 ارب کے نئے ٹیکسوں سے ”ہر کوئی“ متاثر ہو گا” ’لگڑری“ کے نام پر اسی طرح ریگولیٹری ڈیوٹیز لگائی گئیں مگر گزشتہ حکومت کے دور میں ایف بی آر ہدف کا شارٹ فال جاری رہا تھا۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کے مطابق حکومت نے اخراجات پر قابو پایا ہے۔ 17 ارب روپے اخراجات میں بچت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی تھی نئے ریونیو اقدامات کرتے ہوئے عوام کے استعمال ہونے والی چیزوں کو ٹیکس بڑھانے رکھا جائے۔

(جاری ہے)

استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی کوبڑھایا گیا ہے۔ مالی سال کے تین ماہ کے نتائج کے مطابق 40 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا ہے اس کے باوجود یہ کہ ہر طرح کے اقدامات بجٹ 2015-16 میں اٹھائے گئے۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان گزشتہ کیلنڈر سال سے جاری تھا۔ چاول گندم کی قیمتیں بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں گزشتہ سال سے گر رہی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ حکومت نے بجٹ کی تیاری کے وقت تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر ریونیو اقدامات کئے تھے اس کے باوجود شارٹ فال ہو گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے مسئلہ کہیں اور ہے اور وہ ایف بی آر کو موٴثر ادارہ بنانا ہے۔

ایف بی آر ٹیکس کی شرحیں بڑھا کر ریونیو حاصل کرنے کا آسان راستہ اختیار کرنے میں عافیت سمجھتا ہے جبکہ قوانین پر موٴثر عملدرآمد‘ ٹیکس چوری کی روک تھام‘ کرپشن کے خاتمہ کے دشوار مراحل کو بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا۔ نئے ٹیکس اقدامات یکم دسمبر سے موٴثر ہو گئے ہیں۔ مرغی کی صنعت جو پہلے ہی کسٹمز ڈیوٹی کی زیادتی پر سراپا احتجاج تھی مزید بوجھ تلے آ گئی ہے۔

حکومت کے نئے اقدامات کے نتیجے میں ٹیکسوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کا حجم بڑھ جائے گا۔ 61 آئیٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگنے سے ساڑھے چار ارب روپے‘ 289 آئیٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ سے ساڑھے 4 ارب روپے‘ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ سے 6.5 ارب روپے اور تمام درآمدات پر ایک فیصد زائد ڈیوٹی لگنے سے 21 ارب روپے کا ریونیو جمع ہو گا۔

استعمال شدہ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے سے 2.5 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔ ان اقدامات کے باوجود خدشہ یہی ہے کہ 30 جون 2016 تک 3103 بلین روپے کا ریونیو ہدف حاصل مشکل ہی رہے گا۔کچھ چیزیں آپ سے تفصلاََ شیئر کرنا چاہتا ہوں،وفاقی حکومت نے مالی سال 2015-2016 منی بجٹ لاتے ہوئے 40 ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات نافذ کئے ہیں۔ ان کے تحت 61 آئٹمز پر جن پر پہلے مختلف شرحوں سے کسٹمز ڈیوٹی نافذ تھی، پر مزید 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کر دی گئی ہے۔

289 آئیٹمز جن پر اس وقت ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ تھی،پر ایکسائز ڈیوٹی (آر ڈی) کی شرح میں مزید 5 فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ 9 مختلف سیکٹرز کے خام مال اور مشینری، آلات کو چھوڑ کر باقی تمام درآمدات جن میں ہزاروں آئٹمز شامل ہیں ،پہلے سے موجود کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا ہے،9 مختلف سیکٹرز کے خام مال اور مشنری آلات کو چھوڑ کر باقی تمام درآمدات جن میں ہزاروں آئیٹمز شامل ہیں،پہلے سے موجود کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا ہے۔

استعمال شدہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر بھی ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سگریٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے ایف بی آر کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 40 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری قرضہ پروگرام کی ایک شرط جس میں ریونیو ہدف کو حاصل کرنا شامل ہے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو منی بجٹ لانا پڑا ہے۔

رواں ماہ کے وسط میں آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہو گا جس میں پاکستان کے لئے500 ملین ڈالر کی قسط کے اجرا کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ مزید براں وفاقی حکومت نے یکم دسمبر سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت کو نومبر کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ مٹی کے تیل‘ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں کمی اور ہائی اوکٹین کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

مٹی کے تیل کی یکم دسمبر سے قیمت 56 روپے 32 پیسے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 53 روپے 23 پیسے فی لیٹر ہو گی۔ اوگرا نے مٹی کے تیل کی قیمت میں 79 پیسے جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 36 پیسے کمی کی تجویز دی تھی۔ حکومت نے ہائی اوکٹین کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی قیمت 79 روپے 79 پیسے کی بجائے 80 روپے 86 پیسے فی لٹر ہو گی۔حکومت نے جن 61 آئٹمز پر کسٹمز ڈیوٹی کے علاوہ مزید 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی ہے ان میں زندہ مرغی‘ مچھلی‘ فروزن مچھلی پر 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی تھی‘ ان پر مزید 10 ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے،کوکا بڑ کوکا پاوٴڈر پر 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی ہے ان پر مزید 10 فیصد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔

گرانڈنٹ پر 15 فیصد کسٹمز ڈیوٹی ہے ان پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ پائن ایپل ترشاوہ پھلوں، چیریز،اسٹرابری،پام ہرٹ پر 15 فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد ہے ان مد کی درآمد پر مزید 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ کافی،چائے کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد کسٹمزڈیوٹی ہے ان پر مزید 10 فیصد ریگولیٹری وصول کی جائے گی۔ٹرنک،سوٹ کیس،وینٹی کیس،بریف کیس،لیدر امپیریل‘ اوورکوٹ پر 20 فیصد کسٹمز ڈیوٹی موجود ہے۔

ان پر مزید 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کر دی گئی ہے۔ مردوں،عورتوں کے اوورکوٹ،جیکٹ، قمیض،بے بی گارمنٹس، ٹریک سوٹ،سویم سوٹ،امسال ، ٹائی بیڈ لینن،پردے،جراب،فٹ ویئر پر اس وقت کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد ہے۔ ان آئٹمز پر مزید 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی۔ ڈائپر‘ سینٹری ٹاول پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔ ایف بی آر 289 آئیٹمز پر پہلے ہی 10 فیصد کے حساب سے ریگولیٹری ڈیوٹی حاصل کر رہا ہے۔

ان تمام آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں مزید 5 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے، حکومتی اقدامات کے تحت 9 سیکٹرز کو چھوڑ کر باقی تمام درآمد پر پہلے سے موجود کسٹمزڈیوٹی کی شرحوں میں ایک فیصد اضافہ کیا ہے۔ڈیوٹی کا نفاذ ان ممالک سے آنے والی درآمدات پر بھی ہو گا جن کے ساتھ پاکستان کے آزادانہ تجارت یاترجیحی تجارت کے سمجھوتے ہیں تاہم کسٹمز شیڈول کے تیسرے شیڈول میں شامل اشیاء،زرعی مشینری، ضروری خام مال، فارماسوئیکل ،سبزیوں، قابل تجدید توانائی، سبزیوں، قابل تجدید توانائی،کول مائنگ،مقامی صنعت کے 25 سیکٹرز کے خام مال، مصنوعی لیدر،الیکٹرک موٹرز،کھاد کی درآمد،بیج اور بیجائی کی مشین، ٹیلی کام سیکٹر پر ایک فیصد کی اضافی کسٹمز کا نفاذ نہیں ہو گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں بتایا ”غیرضروری سامان آسائش“ پر یہ اضافی ڈیوٹی اس لئے عائد کی گئی ہے کہ حکومت اپنی آمدن کے اہداف حاصل نہیں کر سکی۔ ،آمدن کی جو ہدف ہم نے جون سے نومبر تک کے لئے مقرر کیا تھا اس میں چالیس ارب کے خسارے کا سامنا ہے۔ قارئین محترم آپ تیار ہو جائیں اگر تین ماہ کے اہداف پر یہ ٹیکسز لگے ہیں تو باقی 9آپ کے ساتھ کیا سلوک ہو گا آمدن کے ا ہداف کیسے کیسے پورے ہونگے 30جون2016تک” لگ پتہ“ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :