کون سی پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس؟

جمعرات 3 دسمبر 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول زرداری بھٹو نے پھر ایک دفعہ جذباتی خطاب سے خود کو گرمانے کی کوشش کی ہے۔یہ خطاب ضلع ملیر کراچی میں پارٹی کے 49ویں یوم تاسیس پر کیا گیا۔ماضی کے ”گرما گرم“،جذباتی اور لفظوں کی نسبت ”باڈی لینگویج“ والے خطابات میں سے یہ تقریر ‘کچھ مختلف مواد کے تحت کی گئی ہے۔ پارٹی کے یوم تاسیس پر کی گئی اس تقریر میں جہاں لفظوں کا کھیل کھیلتے ہوئے چند نان ایشوز کے ساتھ سنجیدہ ایشوز کو بھی ”لفاظی“ کی حاشیہ آرائی سے آراستہ کرکے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،اس سے ایک ”احساس گناہ “کی جھلک نظر آتی ہے۔

چئیرمین بلاول زرداری بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج پراپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ”پارٹی اپنے نظریات سے ہٹ گئی ہے،سیاسی یتیموں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے نظریات سے کوئی ہٹاسکا نہ کوئی ہٹا سکے گا“۔

(جاری ہے)

اب یہ تو پتا نہیں کہ ”رومن انگش “ میں یاد کرائی گئی اردو تقریر کے مواد کو بولنے والے بلاول کو‘ ان لفظوں کا بھی فہم ہے کہ نہیں جو انہوں نے تقریر میں ادا کئے ہیں‘مگر تقریر رٹوانے والے کو باخوبی علم تھا کہ ”پارٹی نظریات سے ہٹ گئی ہے “۔

بلاول نے اپنی تقریر میں واپڈا کی کمپنیوں اور 68دیگر محکموں کی نج کاری پر چپ سادھ لی اور پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ائیر لائینز کی نج کاری کی مخالفت کرتے ہوئے مذاحمت کا اعلان کیا ہے مگر یہ واضع نہیں کیا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی جو نج کاری کررہی ہے وہ کس طرح جائیز اور مزدوردوست ہے؟۔اسی طرح انہوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ جو نج کاری کی راہ ہموار کرنے والا فارمولہ ہے جس کو پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے متعارف کرایا تھا ،اسکے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ اسی طرح اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹوکے دور کی پیپلز پارٹی میں ”نیشنلائیزیشن“ کی پالیسی کے خلاف ”نج کاری“ پروگرام جو انکی مرحومہ والدہ بے نظیر بھٹو نے متعارف کرایا تھا ،کے بارے میں انکی کیا پوزیشن ہے؟ ایک طرف وہ بھٹو کے نظریات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف بھٹو کے نظریات اور پالیسیوں کو رد کرنے والی پالیسیوں کو پارٹی پروگرام میں کلیدی پالیسی کے طور پر اختیار کئے ہوئے ہیں۔

نعروں اور تقریروں (خاص طور پر اپوزیشن دور میں)کے برعکس پارٹی کا موجودہ پروگرام تو شروع سے آخر تک پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات کے بالکل برعکس اور الٹ ہیں ۔ جب بلاول زرداری ”دھشت گردی کا جو یار ہے ،غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگوارہے تھے تو دراصل پارٹی قیادت کی امریکی سامراج کی گماشتگی کے خلاف لگنے والے نعرے”امریکہ کا جو یا ر ہے ، غدار ہے غدار ہے“کو مسخ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

اس سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بلاول بھٹو اور ان کو تقریر رٹوانے والے پارٹی کی اصلاح کرنے کی بجائے اپنی پرانی روش پر چل کر پارٹی کو مکمل طور پر تباہ کرنےسے باز نہیں آئیں گے۔بلاول نے جن قربانیوں کی بات کی ہے ،ان قربانیوں کا 99فی صد بلاول کے دائیں بائیں کھڑے اور پارٹی کے اقتدار کو انجوائے کرنے والے رجعتی اور دائیں بازو کے راہنماؤں کی بجائے پارٹی کے بائیں بازو کے کارکنوں نے دی تھیں۔

بلاول بھٹو نے پارٹی کے خلاف سازشوں کا بھی ذکر کیا ہے ،مگر سوال یہ ہے کہ انکے والد اور انکی اپنی نظریاتی پوزیشن کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف سب سے بڑی سازش نہیں ہے ؟جن مارشلاؤں کا بلاول بھٹو نے ذکر کیا ہے ان مارشلاؤں اور آمروں کے ظلم وستم اور وحشیانہ حربوں نے تو پارٹی کو کمزور کرنے یا شکستہ حال کرنے کی بجائے مضبوط کیا تھا مگر جو اقتدار ” مفاہمت کی پالیسی“ اور پارٹی کے تاسیسی پروگرام سے غداری کرکے حاصل کئے گئے ،انہوں نے پارٹی کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ انکے والد اورپاکستان پیپلز پارٹی کے خود ساختہ جلاوطن رہنما آصف علی زرداری کی صدارت میں دبئی میں بلائے جانے والے اجلاس میں موجودہ بلدیاتی الیکشن میں پارٹی کی شکست پر سخت پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے؟ کیا یہ شکست جس نے پورے پنجاب میں پارٹی کا صفایا کردیا ہے کسی قسم کی سازش کا نتیجہ ہے ؟ یا زرداری اور انکے حلیفوں کی نظریاتی غداریوں کا ردعمل ؟۔

اس اجلاس میں دوچار محکموں کے چارج ادل بدل کئے گئے اور سندھ حکومت میں مشیر کے طور پر مولا بخش چانڈیہ کا تقرر کیا گیا۔ زبانی جمع خرچ کے لئے بدین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف پارٹی سے منحرف اور زرداری ٹولے کے مخالف ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کی کامیابی پر غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس سے قبل لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 سے پارٹی امیدوار کی ضمانت ضبط ہونے اور ایک ہزار سے بھی کم ووٹ لینے پر اسی قسم کی ”تشویش“ کا اظہار پارٹی چیئرپرسن بلاول بھٹو نے بھی کیا تھا مگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سیاسی وجود کے معدوم ہوتے جانے کی ذمہ داری پنجاب کے پارٹی صدر (اورپارٹی کے دشمن اور سازشیں کرنے والے ضیاء الحق کے ساتھی )منظور وٹو پر عائد کئے جانے پر خاصے سیخ پا ہوگئے اور انکی برطرفی کے مطالبے کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں پختون خواہ اور بلوچستان کی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا، اب 5 دسمبر کو ہونے والے آخری مرحلے میں شاید ضلع رحیم یارخاں کے علاوہ ہر جگہ نتائج پہلے جیسے ہی آئیں گے۔ ضلع رحیم یارخاں میں بھی وہی ہوگاجو سندھ اور پنجاب میں ہوا ہے، یعنی پارٹیوں کی بجائے ”سیاسی وارلارڈز“جیتیں گے، یہاں پر سیاسی وار لارڈ مخدوم احمد محمود ہیں، جن کا اپنا گروپ ہے جو پیپلز پارٹی میں بھی ”فنگشنل لیگ“ کی طرح ہی پارٹی کے کلیدی عہدوں پر مسلط کردیا گیا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو بالعموم شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اقتداری پارٹیوں کے سا دھ ساتھ مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ”الیکٹ ایبل“ سیاسی وار لارڈز بڑی تعداد میں ”نظریہ ضرورت“ کے تحت اپنی مخالف پارٹیوں کے نشانات کے ساتھ الیکشن لڑتے دیکھے جارہے ہیں۔ سیاست کی اس زوال پذیری کی بہت سی وجوہات ہیں مگر پاکستان میں اس زوال کے آغاز کی ذمہ داروہی پاکستان پیپلز پارٹی ہے‘ جس نے 48 سال پہلے پاکستان میں عوامی سطح پر نظریاتی سیاست کا آغاز کیا تھا۔

سوشلزم کے نظریات کے تحت نومولود پیپلز پارٹی اپنے وقت کی بڑی اور طاقت ور پارٹیوں کو پچھاڑتے ہوئے (مغربی پاکستان میں) سب سے بڑی سیاسی قوت بن گئی تھی۔ پھر محترمہ نے نظریات کو پچھلی نشستوں پر پھینکنے کا جو عمل شروع کیا اس کی انتہا آج یہ ہے پارٹی قیادت سیاسی گاڑی کو دھکا لگالگا کر ہانپ رہی ہے مگر گاڑی چلنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسے میں زرداری ٹولے نے اس گاڑی کے ٹائر اتار کراسکو صوبہ سندھ کی اینٹوں پر کھڑا کردیا ہے اور اس کے بچے کھچے پرزے اتار لے جانے والوں کی بھی کمی نہیں۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی بدین شہر سے جیت اسکی مقبولیت کی بجائے زرداری قیادت کے خلاف غصے کا اظہار ہے۔ تاہم اندرون سندھ میں ایک وڈیرے کی غلامی سے نکل کر دوسرے وڈیرے کے ہاتھوں یرغمال بننے کے عمل کو کسی قسم کی ”تبدیلی“ قرار دینا درست نہیں ہے۔ ناہید خان اورمرزا ٹائپ مخالفین کا پارٹی قیادت سے اختلاف حصہ داری کے عدم توازن پرہے جبکہ لوٹ مار اور ہمہ قسم کی بدعنوانیوں میں عشروں تک یہی لوگ ملوث چلے آئے ہیں۔

ان کا کوئی نظریاتی اختلاف تب ہوتا اگر ان کا کوئی نظریہ ہوتا۔ جب تک شریک اقتدار رہے، کوئی نظریاتی اختلاف تو کیا کسی پالیسی پر مختلف ردعمل تک نہ دینے والوں کے تمام اختلافات‘ موقع پرستی اور ذاتی مفادات تک ہی محدود ہیں۔ اس قسم کی بغاوتوں کا راستہ بھی خود پارٹی قیادت نے نظریات سے انحراف کرکے ہموار کیا ہے۔ ایک بات طے ہوچکی ہے کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کو روایتی نعرہ بازی، خاندانی وراثت، بھٹو خاندان یا قیادت کی کرشمہ سازی جیسے حربوں سے چلانا ممکن نہیں رہا۔

بعض اوقات عشروں بلکہ صدیوں کی ریت روایات، وقت اورحالات کے جبرسے اپنا اثر کھوبیٹھتی ہیں۔ 2008ء کے بعد سے پیپلز پارٹی کی اینٹوں کو شخصیت پرستی کے سیمنٹ سے جوڑکررکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔ 48 سال پہلے، جب پاکستان کو بنے بیس سال گزرچکے تھے، پاکستان کا محنت کش طبقہ پہلی بار انقلابی تحریک برپا کرنے کو تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب میں حکمران طبقے کی رعونت اور اسکے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو مزدوروں، کسانوں اور طلبہ نے روند ڈالا۔

سوشلسٹ نعروں اور مطالبات کی گونج، محنت کش طبقے کی حکمران طبقے پر سبقت اور بالادستی کے اس ماحول میں معروض انقلاب کو منطقی منزل پر پہنچانے کی صلاحیت رکھتا تھا، یہاں پر صرف درست انقلابی تناظر سے لیس قیادت اور پارٹی کی ضرورت تھی جو اس انقلابی سرکشی کو منزل مقصود سے ہمکنا رکرسکے۔ کسی انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی میں اس سرگرمی کا نتیجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جنم کی صورت میں نکلا۔

انقلابی معروض کے پس منظر، سرمایہ دارانہ نظام کی فرسودگی، سامراج کی ڈاکہ زنی اور سوشلزم کی ناگزیریت کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام میں انقلابی لہجہ اور سائنسی دلائل ملتے ہیں۔ وسائل کی برابراور منصفانہ تقسیم اور ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کے لئے سوشلزم کوناگزیر قراردیا گیا ہے۔ اسی طرح تمام صنعتوں کو نیشنلائز کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جانا، جاگیروں کو ختم کرکے کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کے تحت کاشتکاری، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کو نجی ملکیت سے نکال کر قومی تحویل میں لینا، ملک کے دفاع کے لئے عوامی ملیشیا کی تشکیل، سامراجی کیمپ سے علیحدگی اور روایتی فوج کا خاتمہ اس منشور کے کلیدی نکات ہیں۔

یہی لوگوں کی مانگ تھی اور اسی وجہ سے ایک مختصر عرصہ میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ آج کی پیپلز پارٹی 30 نومبر اور یکم دسمبر1967ء کو بننے والی پارٹی کی عین ضد قراردی جاسکتی ہے۔ سب کچھ الٹ ہے۔ سامراج کی گماشتگی کو بنیادی ضرورت بنا کر اوراسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقسم کے عوام دشمن اقدامات کو پارٹی قیادت نے لازم قرار دے دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے منشور کے برعکس نج کاری کا سرمایہ دارانہ اور مزدوردشمن پروگرام اختیارکیا گیا۔ جاگیر وں کی تقسیم یہ پارٹی قیادت کیا کرتی، الٹا میٹر ریڈر رہنے والے پارٹی رہنماہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک ہو گئے۔ سوشلزم کے نام پر تو 1980ء کی دہائی میں ہی قیادت نے پابندی عائد کر دی تھی۔ نصرت بھٹو کے بعد کی قیادتوں نے پروگرام سے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کو نکال دیا، نیشنلائزیشن کی جگہ پرائیویٹائزیشن کو لاگو کیا گیا، سامراج دشمنی کی جگہ سامراجیت کی اطاعت کو اپنا ایمان بنا لیا، طاقت کا سرچشمہ بھی عوام کی جگہ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ لیا گیا،دراصل پارٹی کے خلاف یہی سب سے بڑی سازشیں تھیں جو پارٹی سے باہر فوجی آمریتوں ،مخالفوں ،سیاسی یتیموں نے نہیں بلکہ خود بلاول کی والدہ بے نظیر بھٹو اور والد آصف علی زرداری نے کی ہیں۔

ایسے میں پارٹی کی سیاسی تنزلی ناگزیر تھی لیکن آج پارٹی کی مرتی ہوئی ساکھ کو رٹائی گئی بھونڈی تقاریراور سیاق وسباق سے لاکھوں کلو میٹر دور جذباتی اور طوفانی بیان بازی سے بحال نہیں کیا جاسکتا۔ بیماری کے اسباب کا درست تعین کئے بغیر علاج ممکن ہی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی آج بنیادی نظریات اور تاسیسی پروگرام سے انحراف کی وجہ سے مفلوج ہے، لیکن اس کا علاج موجودہ قیادت کے تحت نا ممکن ہے۔

اس قیادت کے تحت پارٹی کے ”سکڑاوٴ“ کا مرض بڑھتا جائے گا اور بدعنوانی کا کینسر لاعلاج ہوکر پارٹی کے خاتمے کو یقینی بنا دے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 30 نومبر کو یوم تاسیس آخر کس پارٹی اور پروگرام کا منایا جاتا ہے؟ 30 نومبر والی پارٹی اور پروگرام موجودہ انحراف اور غداری سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتے۔ غداری، سرمایہ داری کی اطاعت اور موقع پرستانہ مفاہمت کی پالیسی سے پارٹی کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔

پارٹی 80 فی صد کے قریب ختم کی جاچکی ہے اور باقی 20 فی صد پر”تقریری تماشے“ کئے جارہے ہیں۔ موجودہ قیادت سے یہ توقع رکھنا ہی جرم کے زمرے میں آتا ہے کہ اسکی موجودگی میں حقیقی اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ موجودہ قیادت کی رگوں میں نظریات کی بجائے بدعنوانی، موقع پرستی اور غداری کا لہو بہہ رہا ہے۔ مگر یہ المیہ اپنی جگہ پر پوری سچائی سے موجود ہے کہ پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور اور نظریے میں نجات تلاش کرنے والے کروڑوں لوگ کہاں جائیں گے؟ پارٹی میں موجود مڈل کلاس اور ثانوی درجے کی قیادت سے کچھ لوگ دوسری پارٹیوں میں گئے اور مستقبل میں بھی جاسکتے ہیں مگر کروڑوں محنت کشوں کی ہراول صفوں کو یا تو پارٹی کے اندرنظریات کی بنیاد پر موجودہ قیادت کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنا ہوگی، لیکن سردست اس قسم کی صف بندی کسی ابتدائی شکل میں بھی موجود نہیں ہے۔

محنت کش طبقے کے پاس ایک اور آپشن بھی موجود ہے کہ وہ پارٹی قیادت اور انکے عوام دشمن نظریات کو روندتے ہوئے یونان اور سپین کی طرح نئے تجربات کی طرف آگے بڑھیں۔ سیاست پر حاوی تمام پارٹیوں کے نام مختلف ہیں مگر نظریات اور پروگرام یکساں اوراقلیتی حکمران طبقے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ ضرورت اس وقت محنت کش طبقے کے مفادات کو آگے بڑھانے والی پارٹی کی ہے۔

اس وقت سیاسی افق کے بائیں طرف جتنا خلا ہے پاکستان کی تاریخ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اسکی مثال موجود نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کی کسی تحریک کی عدم موجودگی میں سیاسی اور سماجی گھٹن بڑھتی ہی جارہی ہے، اسکا فائدہ عوام دشمن قوتیں اٹھارہی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس قسم کی پارٹی کی ضرورت پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں کوہے، اس کا جنم اور پروان چڑھنے کا عمل پریس کانفرنس کے ذریعے بننے والی پارٹیوں سے یکسر مختلف ہو گا۔ یہاں بسنے والے بیس کروڑ لوگوں کو ایک تحریک کی ضرورت ہے جو اس نظام اور اسکو قائم رکھنے والوں کا دھڑن تختہ کرکے، استحصال اور طبقات سے پاک سماج قائم کرے، جو نئی نسلوں کو ایک تابناک مستقبل سے ہمکنار کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :