وہ پھول جومرجھاگیا

جمعہ 27 نومبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں پھر ظالم حکمرانوں کو غریبوں کے بچے بچے کیوں نظر نہیں آتے۔۔۔۔؟ کیا حکمرانوں کے اپنے بچے نہیں ہوتے۔۔۔۔؟ یا حکمرانوں کے سینے میں کوئی دل نہیں ہوتا۔۔۔۔؟ نتھیا گلی میں خونخوار شیر کے پنجوں میں زندگی کی آخری سانسیں لینے والے دس سالہ اظہر کی دردناک موت نے تو انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن انصاف کے دعویدار اور ظالم حکمران ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

کیا غریبوں کے دکھ درد سے نا آشناء حکمرانوں کے ہاں ایک بچے کی دردناک موت کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔۔۔۔؟ قیام پاکستان کے بعد سے تو اب تک اس بدقسمت ملک میں غریب عوام ظالم حکمرانوں کا چارہ بنتے رہے ہیں لیکن اب کیا غریبوں کے معصوم اور پھول جیسے بچے بھی ریچھ، شیر سمیت دیگر جنگلی جانوروں کا چارہ بنیں گے۔

(جاری ہے)

۔۔۔؟ کیا اب غریبوں کا خون حکمران چوستے رہیں گے اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے نازک جسم ریچھ اورشیر نوچ کر کھائیں گے۔

۔۔۔؟ دس سالہ اظہر کو جب ظالم شیر نے اپنے پنجوں میں جھکڑ کر نوچا ہوگا اس وقت اظہر کے بدقسمت ماں اور باپ پرکیاگزری ہوگی۔۔۔۔؟شیرکے پنجوں سے زخمی زخمی معصوم اظہرکے پیارے چہرے اورخون میں لت پت جسم پرجب بدقسمت والدین کی پہلی نظرپڑی ہوگی اس وقت توان پرایک قیامت برپاہوئی ہوگی۔۔اس وقت ان دونوں نے اپنے پھول جیسے بچے کوسینے سے لگاکربہت چیخا۔

۔چلایااوررویاہوگا۔بچے ہی توانسان کی کل کائنات ہوتے ہیں۔ایک ماں اورباپ اپنے بچے کا ہلکا سا درد بھی برداشت نہیں کر سکتے۔کانٹا بچے کو چبھتا ہے تو درد اور آہ ماں باپ کے دل سے نکلتی ہے۔ پھر ایک کانٹا نہیں اظہر کے جسم پر شیر کے لگنے والے درجنوں پنجے ان کے ماں اور باپ کے دلوں میں کس طرح تیروں کی طرح پیوست ہوئے ہوں گے۔۔۔۔؟ ان کے دلوں کی دھڑکنیں کس قدر تیز اور جسم کس طرح مفلوج ہوا ہوگا ۔

۔۔۔؟ اپنے ہی خون میں رنگین ہونے والے اظہرکے ماں اورباپ کی آنکھوں سے خون کے آنسو تو آج اور برسوں بعد بھی بارش کی طرح برسیں گے۔ وہ دونوں اپنے معصوم اور پھول جیسے بچے کا پیارا چہرہ کیسے بھلا پائیں گے۔ ۔؟اظہر کا زخمی چہرہ اور خون سے رنگین جسم اب ان دونوں کو کبھی جینے نہیں دے گا ۔ اظہر کے بدقسمت والدین اظہر کا سکول بیگ۔۔کپڑے۔۔ جوتے دیکھ اور ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا یاد کرکے اب روز مریں گے اور روز جےئیں گے۔

صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی ماں اظہر کو ادھر ادھر تلاش کرے گی کہ اس کو تیار کرکے سکول بھیجوں اور سکول سے چھٹی کے وقت ماں دروازے پر کھڑی ہوکر راہیں دیکھیں گی کہ ابھی اظہرگھر آئے گا۔۔ ابھی آئے گا۔ لیکن صبح سویرے جب گھر کا کونا کونا اور چپہ چپہ تلاش اور مارے مارے پھرنے کے بعد بھی مما کو اظہر نہیں ملے گا تو اس وقت مما پر کیا گزرے گی۔۔۔۔؟ اسی طرح جب سکول چھٹی کے وقت دروازے پر کھڑے کھڑے اور انتظار میں آنکھیں سرخ کرنے کے بعد بھی جب کہیں سے اظہر واپس نہیں آئے گا تو اس وقت مما کی کیا حالت ہوگی۔

۔۔۔؟ یہ سوچتے ہوئے بھی رونگھٹے کھڑے اورجسم پرکپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔ شیر نے ایک اظہر کو نہیں مارا بلکہ اس نے ان کے ماں اور باپ دونوں کے دل چیر ڈالے ہیں۔ اظہر کے بدقسمت والدین اپنے پیارے اظہر کو اب کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ اظہر نے توویسے بھی ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہی تھا لیکن شیر کے پنجوں میں ان کی اچانک موت نے حکمرانوں کی بے حسی اور لاپرواہی کو اشکارہ کرکے دن اور رات عوام عوام کے راگ الاپنے والوں کی اصلیت ظاہر کر دی ہے۔

جو لوگ رعایا کا تحفظ نہ کر سکیں انہیں حکمرانی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جنگلی جانوروں اور درندوں نے اگر اسی طرح سرعام معصوم اور غریب لوگوں کو نوچنا اور دبوچنا ہے تو پھر میاں نواز شریف اور پرویز خٹک جیسوں کی حکمرانی کا کیا فائدہ۔۔۔۔؟خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق نے تو فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کی پوچھ بھی حضرت عمر فاروق سے ہوگی۔

کیا دس سالہ اظہر کی اس طرح اندوہناک اور غمناک موت کی پوچھ کسی سے نہیں ہوگی۔۔؟ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معصوم اظہر حکمرانوں کی غفلت و لاپرواہی کے باعث موت کی بھینٹ چڑھا ہے۔ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا احساس ہوتا تو جانوروں اور درندوں کو اس طرح آبادیوں میں گھس کر انسانوں کا خون چوسنے اور ماردھاڑ کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوتی مگر جس ملک کے حکمران ہی انسانوں کا خون چوسنے کو اپنی عادت بنا لیں وہاں کے جانور اور درندے پھر کیسے انسانوں کا گوشت نوچنے اور کھانے سے گریز کر سکتے ہیں۔

کام اور نوٹ چور حکمرانوں کے دیس میں ہر شخص نے کام چوری کو معمول بنا لیا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے ذمہ داران، افسران اور اہلکار ہی اگر اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرتے تو ہمیں کبھی بھی اظہر کی خون میں لت پت نعش دیکھنی نہ پڑتی۔ محکمہ وائلڈ لائف کے ذمہ داران کی اسی غفلت کے باعث اس ملک میں نہ جانے اب تک کتنے اظہر خونخوار چیتوں، ریچھوں اور شیروں کا نوالہ بن چکے ہیں۔

اس طرح کے ہر واقعہ کے بعدا فسوس اور مذمت کرکے ہم اگلے واقعے تک خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ اب کی بار بھی محکمہ وائلڈ لائف کے افسران اور حکام نے اس غمناک واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روایتی طور پر وعدے اور وعیدیں کر دی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاواقعی محکمہ وائلڈ لائف حکام کی غفلت کا یہ آخری واقعہ ہوگا۔۔؟ کیا اس کے بعد ایک اور اظہر کسی خونخوار جانور کا نوالہ نہیں بنے گا۔

۔؟ کیا آئندہ کوئی شیر، چیتا اور ریچھ کسی اور کا ہنستا بستا گھر نہیں اجاڑے گا۔۔؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کے محکمہ وائلڈ لائف کے افسران اور وقت کے حکمران بھی ہاں میں جواب نہیں دے سکتے کیونکہ بزرگ کہتے ہیں کہ انسان گاؤں سے چلا جاتا ہے عادت سے نہیں۔ ہمیں کام چوری اور فرائض میں غفلت برتنے کی عادت ہو گئی ہے ۔اب ہم یہ عادت کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔؟ جب تک کسی ایک کام چور کو الٹا لٹکایا نہیں جاتا اس وقت تک کام چوری کی یہ بیماری ختم نہیں ہوگی اور جب تک کام چوری کی بیماری ختم نہیں ہوتی اس وقت تک ننھے منے اظہر اسی طرح موت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :