الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

جمعہ 27 نومبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

برسوں پہلے جب پاکستان ریلوے پوری طرح آباد ،شاد تھا،مسافر گاڑیاں انسانوں، مال گاڑیاں سامان سے لدی نظرآتی تھیں، ریلوے سٹیشنوں پر بھی خوب رونق ہوا کرتی تھی، ہم نے خود دیکھا کہ بڑے بڑے جنگشن سٹیشنوں پر مرکزی دروازے کے پاس ہی لوہے کے مخصوص راڈوں سے بنائی ہوئی باڑ کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا ساغیرقانونی دروازہ بھی بنایاگیا تھا۔ بیحد تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہ غیرقانونی دروازہ دراصل ریلوے عملہ(ان میں ٹکٹ چیکر سے لیکر پولیس اہلکاران تک سبھی شامل ہواکرتے تھے)کی منشا کے مطابق بنایاگیا ہے جس کاواحد مقصد ہی یہی ہے کہ بلاٹکٹ سفر کرنے والوں کو مرکزی دروازے کی چیکنگ سے بچاکر اس چھوٹے سے گیٹ سے گزاردیاجائے۔

اب بلاٹکٹ مسافروں سے یاتو ٹکٹ چیکر ہی وصولی کرلیاکرتے تھے یا پھر پولیس اہلکاروں کیلئے مخصوص بوگی میں بیٹھنے والے اپنے حصہ کی رقم ان اہلکاروں کو دے کر مزے سے سفرکیاکرتے ۔

(جاری ہے)

اب کافی عرصہ سے ریل کے سفر کاموقع نہیں ملا لیکن ریلوے سٹیشنوں کاوہ غیرقانونی درواز ہ آج بھی ذہن میں موجو د ہے ۔ یقین کریں جب کبھی بھی اسے بھلانے کی کوشش کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایسے بے شمار دروازے دیکھ کر پھر سے ریلوے سٹیشن کے اس غیرقانونی دروازے کی یاد آجاتی ہے۔


تازہ ترین سانحہ بھی ملاحظہ ہو کہ پاکستان کے دو صوبوں میں بڑے ہی زور وشور سے انتخابات جاری ہیں اور کہنے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان ان انتخابات کی نگرانی کررہا ہے، ریٹرننگ آفیسر سے لیکر عام اہلکار تک سبھی اس سارے سیٹ اپ کے نگران اور ذمہ دار ہیں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق مرتب ہوچکے ہیں جن کے مطابق اس کے نکات کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزا دی جائے گی لیکن اب تک سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات سامنے آنے کے باوجود کسی امیدوار کو سزاہوتے نہیں دیکھی۔

یہ دراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منشا کے مطابق ہی بنائے ہوئے انہی غیر قانونی دروازوں کا ہی کمال ہے کہ اب تک سبھی سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں۔ سزا ہو بھی تو کیسے کہ الیکشن کمیشن کے کارپردان نے ایسے ہی بلاٹکٹ مسافروں کی سہولت کیلئے یہ دروازے بنارکھے ہیں۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ بلاٹکٹ سفر ہی وہی کرتا ہے جس کے ذہن میں غیرقانونی افعال پنپ رہے ہوں۔

کوئی شریف آدمی بلاٹکٹ سفرکرنے کا سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے اپنی عزت کی پرواہ زیادہ ہوتی ہے اوروہ محض چند روپوں کی خاطر رسوا ہونا پسند نہیں کرتا ۔ ظاہر ہے کہ جو بلاٹکٹ سفرکریگا وہ ٹکٹ چیکر کو دے دلاکر یا پھر پولیس اہلکاروں کی جیب گرم کرکے سفر مکمل کر ہی لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستانی تاریخ میں روزاول سے ہی ہورہاہے۔
بات ہورہی تھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ کی ، اس ضمن میں ایک سوال بہت عرصہ سے ذہن کو کھایاجارہاہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین (چاہے وہ ممبران اسمبلی ہوں یا بلدیاتی ممبران )مستوجب سزا قرار پائیں گے لیکن ہم نے خود ہی دیکھا کہ حکومتی چھتری تلے کھلے عام ممبران کی منڈی سجائی گئیں مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان خاموش رہا ،پارلیمنٹ میں ہی اراکین کی سودا بازی ہوتی رہی لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔

سوال محض اتنا ہے کہ کیا ضابطہ اخلاق محض الیکشن کرانے تک ہی محدود ہے یا پھر اس کے علاوہ بھی الیکشن کمیشن کے کرنے کے کچھ کام ہیں؟؟
عرصہ قبل ایک معروف قانون دان،عمران خان کے کزن رفیق خان نیازی نے مقامی سطح پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہوکرمسلم لیگ کا رخ کرنیوالے ممبران اسمبلی کیخلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیاتھا مگر انہیں واضح ہوچکا تھا کہ اس ادارہ سے انصا ف ملنا ممکن نہیں اس لئے وہ خاموشی سے گھر بیٹھ گئے۔

ان کا اعتراض بالکل سادہ تھا کہ ان کے حلقہ کے لوگوں نے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو بری طرح مسترد کرکے دراصل مسلم لیگ ن پر ہی عدم اعتماد کرکے آزاد حیثیت کے حامل امیدوار کو کامیاب کرایاہے ،اب وہی آزاد رکن اسمبلی مسلم لیگ ن کا رخ کررہے ہیں یعنی عوامی مینڈیٹ کی واضح توہین کی جارہی ہے۔ یاتو ان اراکین اسمبلی کو توہین مینڈیٹ سے روکاجائے یاپھر ان کی رکنیت معطل کی جائے مگر کسی نے نہ سنا اور نہ ہی توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی کیونکہ جہاں کھلے عام منڈیاں لگتی ہوں وہاں ایسے چھوٹے موٹے واقعات کو بھلا کون پوچھتا ہے۔


سابق ڈی آئی جی پنجاب اصغرخان نوانی عرف ہلاکو خان کے فرزند اصغر ،ڈاکٹرصغیر اصغرخان نوانی عرصہ سے احتجاج کررہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت قانون جرم ہے مگر حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کونسلر سطح کے امیدواروں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدے بلکہ عینی شاہدین کے مطابق ایک امیدوار نے صرف اپنے نہیں بلکہ اپنے ہی گروپ کے پانچ امیدواروں کے حلقہ میں کروڑوں روپے دیکر گویا لوگوں کو خریدلیا اور ایک رات قبل تک نظرآنیوالی واضح شکست انتخابات کے روز فتح میں بدل گئی۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ یہ سب کچھ پاکستان مسلم لیگ ن یااس کے حمایتی گروپوں ،دھڑوں کے امیدواروں کی طرف سے ہی سامنے آیا ہے۔ مگرآج تک نہ توکسی خفیہ ایجنسی کے اہلکار یا انتظامی افسران نے اس معاملہ کو رپورٹ کیا اور نہ ہی کسی نے توجہ دینا گوارہ کیا کیونکہ یہ اب معمولات زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ڈکیت ،چوروں ،جرائم پیشہ افراد کے انتخاب کاواویلا تاحال جاری ہے گو کہ دوسرے مرحلے کے ضمن میں کوئی انکشاف نہیں ہوا تاہم ان واقعات کے پیچھے کئی حقائق چھپے ہیں کہ انہیں ٹکٹ کن لوگوں کے اشارے پر ملا؟ظاہر ہے کہ یہ کام اراکین اسمبلی یا پھر مسلم لیگی عہدیداران کا ہی ہے، سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا ممبران اسمبلی اور مسلم لیگی عہدیداران ان کی اصلیت سے آگاہ نہ تھے؟ یقینا انہیں خبر تھی مگرخاموشی اس لئے روا رکھی گئی کیونکہ چورڈکیتوں کا روزگار نہ صرف اس سے وابسطہ تھا بلکہ ممبران اسمبلی ، عہدیداران ن لیگ کی روزی روٹی بھی ایسے ہی لوگوں کی بدولت چل رہی تھی۔

یہ دو تین واقعات تو اس لئے سامنے آگئے کہ یہ مجرمان گرفتارہوئے ورنہ اس وقت بھی پنجاب میں سینکڑوں ایسے بلدیاتی ممبران موجود ہیں جن کاکسی نہ کسی غیرقانونی دھندے سے تعلق ہے۔ صرف بلدیاتی ممبران ہی کیوں،کئی اراکین اسمبلی کے بھائی بھتیجے ،بھانجے ”رکن اسمبلی“ کی نمبرپلیٹ کے نیچے ایسے ایسے غلیظ دھندوں میں ملوث ہیں کہ جس کاتصور تک نہیں کیاجاتا ۔

بلکہ بعض اراکین اسمبلی کے سگے بھائی رسہ گیری، چوری چکاری، اغوا وغیرہ کے درجنوں مقدمات میں ملوث ہیں ،قانون بھی جانتا ہے اورقانون نافذ کرنیوالوں کوبھی خوب خبر ہے مگر آج تک نہ تو قانون جاگا اور نہ قانون نافذ کرنیوالوں کی آنکھ کھلی۔
یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اگر حقیقی جمہوری ملکوں میں رونماہوتا تو شاید اس پارٹی کا سربراہ ہی عہدے سے استعفیٰ دیدیتا مگر کیا کہئے کہ پاکستان دنیا کاانوکھا نرالہ جمہوری ملک ہے ” جہاں سب چلتاہے“ اسی لئے تو یہاں کچھ نہیں چلتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :