مخبر صادق ﷺ نے تو کئی صدیوں پہلے بتا دیا تھا

ہفتہ 21 نومبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ویسے تو یہ سلسلہ کئی صدیوں سے جاری ہے لیکن پچھلی نصف صدی میں اس میں مزید شدت دیکھنے کو ملی ہے۔نائن الیون کے خود ساختہ واقعے کے بعد جس طرح مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ،انہیں دہشت گرد قرار دے کر بے دھڑک مسلمان ممالک پر شدید بمباری کر کے بزرگوں ، جوانوں، عورتوں اور پھولوں کی مانند معصوم بچوں کو جس طرح خون میں نہلا یا گیا اس کی مثال پہلے کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔

ایک خاص پلاننگ کے تحت مغربی دنیا کے شہریوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کا بیج بو یا گیا اور پھر جسے خود ہی شدت پسندانہ کاروائیوں کوعمل میں لا کر ،لوگوں کو مزید خوف میں مبتلا کر کے اس بیج کو تن آور درخت کی مانند بنا دیا ۔
حالیہ دنوں خو شبوؤں ، پھولوں اور روشنیوں کے شہر کودہشت گردوں نے جس طرح خون میں نہلا یا اور جس کے نتیجے میں 129افراد ہلاک اور 400کے قریب افراد زخمی ہو ئے ۔

(جاری ہے)

اب تک کی مصدقہ معلومات کے مطابق اس خونی کھیل کے پیچھے بیلجیم اور خود فرانس کے شہری شامل ہیں ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حقا ئق سے نظریں چراکر پیرس حملوں میں دو خواتین کو بچانے والے ایک مسلمان اور سٹیڈیم کو ایک بہت بڑے خو نی کھیل کا حصہ بنا نے کی کوشش ناکام بنا نے والے سیکورٹی گارڈ ،زوہیر کی تعریف کر نے کی بجائے فوری طور پر مسلمانوں کی کردار کشی ہو نا شروع ہو گئی ۔

نائن الیون حملوں کی طرح جب امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کر نے کا جواز تلاش کیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی کر کے زندہ شہروں کو کچھ ہی دنوں میں خاک کا ڈھیر بنا ڈالا با لکل اسی طرح فرانس حملے کے بعد شام پرفضائی حملے شروع کر دئیے گئے ہیں۔
قارئین !عالمی واقعات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس باربھی پیرس حملوں کا ملبہ مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسلمانوں پر ہی گرے گا جو یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہو نے کی وجہ سے پہلے ہی مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

جس کی تازہ مثال سوشل میڈیا پر شئیر ہو نے والی وہ تصویر ہے جس میں کینیڈا کے ایک سِکھ شہری کی تصویر کو ڈیجیٹل طریقے سے تبدیل کر کے ایک مسلمان خود کش بمبا ربنا کر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا ، تبدیل شدہ تصویر خود کش جیکٹ پہنے اور ہاتھ میں قرآن تھا مے ہوئے ہے۔ اس تصویر کو اسپین کے سب سے بڑے روزنامے اور اٹلی کے اخباروں نے صفحہ اول پر شائع کیا ،اٹلی کے ایک ٹی۔

وی نے اس تصویر کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جبکہ ٹو ئٹر پر 20لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اسے پوسٹ کیا۔بھلا ہواُس سِکھ وریند جبال کا کہ اس نے خود ہی سوشل میڈیا پر آکر اپنی تصویر کے ساتھ ہونے والی تبدیلی کا پول کھول دیا ۔ اس کے بقول یہ میری ایک پرانی تصویر ہے جب میں نے سر پر پگڑی اور ہاتھ میں آئی ۔پیڈ تھا ما ہو اہے ۔ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے قصبے بشب بر گز میں مسلم کمیونٹی سینٹر جو مسجد کے طور پر بھی استعمال ہو تا تھا کو آگ لگادی جبکہ پیرس حملوں کے بعد آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی مشتعل افراد نے ایک مسجد کو نذر آتش کیا اور فرانس میں شامی پناہ گزینوں کے کیمپ کو بھی آگ لگائی گئی ہے
قارئین !آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح ایک سکھ کی تصویرکو پیرس حملوں میں شامل ایک مسلمان خود کش بمبار بنا کر پوری دنیامیں پھیلا یا گیا ۔

جبکہ ہمارے ہاں کوئی بھی اس سنگین ہو تی صورتحال سے آشنا نظر نہیں آتا۔ اس موقع پر جہاں ضرورت تھی اپنے آپسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک ہونے کی ، اب بھی ہم ایک دوسرے پر الزامات کی بو چھاڑ کر نے سے باز نہیں آرہے۔ اپنے اپنے مفادات اور دنیا کی محبتوں کو دل میں رکھتے ہوئے کوئی سوشل میڈیا پر فرانس کے جھنڈے کی پروفائل پکچرلگاکر تو کوئی نفرتوں کی زبان بول کر آنے والے وقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرر ہا ہے ۔


رونما ہوتے واقعات اُن حالات کی خبر دے رہے ہیں جن کے بارے میں چودہ سو سال پہلے مخبر صادق ﷺ نے فر مادیا تھا:”قریب ہے وہ وقت جب کفر کی تمام قوتیں تمہارے خلاف جنگ کر نے کے لئے ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں کر بلائیں گی جس طرح کئی روز کے بھوکے ایک دوسرے کو دستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں“۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پو چھا: ”کیا اس وقت ایسا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہو گا؟“آپ ﷺ نے فر مایا:”نہیں ! بلکہ اُس وقت تم تعداد میں زیادہ ہو گے لیکن تم سیلابی پانی کے جھاگ کی مانند ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے ضرور تمہاری ہیبت ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دیں گے“۔

پوچھنے والے نے پھر پوچھا:”یا رسول اللہ ﷺ!یہ کمزوری کیا ہوگی؟“آپ ﷺ نے فر مایا:”دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :