دہشت گردی‘بنیاد اور وجوہات ۔آخری قسط

جمعرات 19 نومبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

لفظ دہشت گردی ایک متنازعہ لفظ ہے جیسے باغی یا بغاوت آج کے دہشت گرد اور باغی ہوسکتا ہے مگر ہوسکتا ہے یہی لوگ مستقبل میں کسی قوم کے ہیرؤ ہوں کہ ماضی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے آئی آراے(آئرش ری پبلیکن آرمی)برطانیہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب رہی آئی آراے کے جنگجوؤں نے برطانوی سامراج کے آئرلینڈپر قبضے اور اسے دوحصوں میں تقسیم کرنے کے خلاف طویل گوریلا جنگ جس میں آئرش خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا آئی آراے کو دہشت گردتنظیم قراردیا گیا اس کے راہنماؤں کو دہشت گرد‘باغی جیسے القابات سے نوازاگیا مگر آج وہی ”دہشت گرد“اور ”باغی“آئرش عوام کے ہیرؤز ہیں ‘لیبیاپر اٹلی نے غاصبانہ قبضہ کیا تو ایک صحرا کا ایک شیراٹھا عمرمختیار آج عرب دنیا کا ہیرؤ ہے مگر اٹلی کے سامراج نے اسے دہشت گرد ڈکلیئرکررکھا تھا صحرا کا یہ شیر اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑتا رہا بیس سال کی عمر میں جدوجہدشروع کرنے والے عمرمختارنے زندگی کے پچاس سال گھوڑے کی پیٹھ پر گزاردیئے11ستمبر1931کو اس مردمجاہدکو دھوکے سے گرفتار کیا گیا اسے پیسے ‘جاگیردینے کا لالچ دیا گیا مگر اس کا ایک ہی مطالبہ رہا کہ وہ اپنے ملک کی آزادی سے کم کسی بات پر سمجھوتہ نہیں کرئے گا بالاآخرغاصب اٹالین کورٹ کے حکم پر 70برس کے اس مردمجاہد کو ان کے ساتھوں سمیت دار پر چڑھادیا گیااسے جان بخشی کے لیے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا تو اس کا جواب تھا”ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘ہم جیتیں گے یا موت قبول کریں گے تم مجھے مار سکتے ہومگر ہماری آئندہ نسل اور اس کے بعد آنے والی نسلیں لڑتی رہیں گی یہاں تک کہ ہم آزادی حاصل نہ کرلیں“ اٹالین سامراج کا یہ باغی یہ ”دہشت گرد“لیبیاکے عوام میں آج بھی عزت اور توقیررکھتا ہے کہ لیبیا کی حکومت نے اس کی تصویراپنے کرنسی نوٹ پر چھاپی‘یہ وجوہات ہیں نفرت اور تہذیبوں کے درمیان آج پائے جانے والے تضادات کی ‘آج کا مسلمان نوجوان جب تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو ان کا خون کھولتا ہے کیا آج تک برطانیہ‘اٹلی‘فرانس وغیرہ نے کالونین ازم میں ڈھائے جانے والے مظالم پر معافی مانگی؟ان عالمی سامراجی طاقتوں نے تو اپنی سابقہ کالونیوں میں اچھے تعلیمی ادارے قائم نہیں ہونے دیئے‘پاکستان کی حکومت کو ہی لے لیں برطانوی سامراج کے وظیفہ خوراور ان کی اولادیں جو آج تک ہم پر مسلط ہیں انہوں نے کھیل تماشوں پر تو اربوں ‘کھربوں اجاڑدیئے مگر تعلیمی ادارے قائم نہیں ہونے دیئے کیونکہ ان کے آقاؤں کو خدشہ تھا کہ یہ پھر سے سمرقند‘بخارا‘سپین اور بغدادجیسی شہرہ آفاق درس گاہیں قائم نہ کرلیں‘اسلامی دنیا پھرسے الحوازمی‘ابن اسحاق‘ابن سینا‘ابن نفیس‘ابوالقاسم‘ابوالرحمان الصوفی‘ابن خلدون‘ابن رشد‘جابربن حیان‘رازی‘فرابی نہ پیدا کرسکے کتنے نام گنواؤں کہ محض ناموں کومرتب کرنے کے لیے کئی دیوان درکار ہیں“ہمیں مغربی یونیورسٹیوں کا محتاج رکھا گیا‘آج ہم سکولوں کی سطح تک نصاب مرتب کرنے میں مغرب کے محتاج ہیں ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسے تہذیبوں کی جنگ نہ سمجھا جائے مگر درحقیقت یہ تہذیبوں کے درمیان ہی جنگ ہے کیونکہ اسلام ہی واحد دین ہے جو صرف مذہب نہیں بلکہ ایک پورا ضابط حیات ہے ایک مکمل آئیڈلوجی ہے ‘ایک ایسا نظام حیات کو کسی بھی وقت بدبودارانسانیت کش سرمایہ درانہ نظام اور کی محافظ جمہوریت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے مغرب اپنے تمام تروسائل اور توانائیاں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کررکھا ہے ‘کیا اہل مغرب واقعی ہی دنیا میں امن وآتشی کے خواہاں ہیں؟اگر وہ حقیقت میں امن چاہتے ہیں تو انہیں ان وجوہات کو ختم کرنا ہوگا جو نفرت پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں ‘آپ کا ایک ”پراڈکٹ“القاعدہ آؤٹ ڈیٹیڈہوا تو آپ نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ”داعش“نامی ایک نیا ”پراڈکٹ“لانچ کردیا یہ سب کیا ہے ‘کیا ایسی سازشوں اور گری ہوئی حرکتوں سے آپ دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں ‘آج کا تعلیم یافتہ نوجوان جو آپ کے ملکوں میں ہی پیدا ہوتا ہے اسی ماحول میں پرورش پاتا ہے اور اسی نظام میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو پھر کیوں وہ شدت پسند بن جاتا ہے؟آپ کی تعلیم اور آپ کی تہذیب اسے روکنے میں ناکام کیوں ہے؟حتی کہ ایک غیرمسلم جو اسلام قبول کرتا ہے وہ اس راستے کو کیوں اختیار کرتا ہے ؟کیونکہ جب یہ نوجوان آزاد ذرائع سے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں ان وحشیانہ مظالم کا پتہ چلتا ہے جو آپ نے دوسروں کے ملکوں پر قبضے کرکے روا رکھے‘اسے ہرجگہ اس کے رنگ‘نسل‘قومیت اور مذہب کی بنیاد پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘اسامہ بن لادن کون تھا؟کہاں سے آیا؟کس نے اسے جہادی دنیا سے متعارف کروایا؟ایسے کتنے ہی بن لادن ہیں جنہیں آپ نے افغان جہاد کے لیے اکسایا‘آپ ہالی وڈسے تیار کروائی گئی فلم ریمبو تھری کو تو نہیں بھولے ہونگے اور جس نے نہیں دیکھی وہ اسے ضرور دیکھے کہ اس وقت افغان مجاہدین آپ ہیرو تھے کیونکہ شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ آپ کے مفادات کے جنگ لڑ رہے تھے‘روس کے ساتھ آپ کی پراکسی وار کی قیمت ہم آج تک اداکررہے ہیں ‘ہمارے لاکھوں شہری جانیں گنواچکے ہیں‘کھربوں ڈالرکا معاشی نقصان‘دہشت اور دہشت گردی کیا ہوتی ہے ہمیں یہ بتانے کی کوشش نہ کریں ‘لاہور میں ایف آئی اے بلڈنگ دھماکے کے دوران موت کو چھوکرگزرتے محسوس کیا ہے میں نے‘پراکسی وار آپ دو بڑوں کی تھی کچلے گئے ہم‘ہماری عبادت گاہیں محفوظ رہیں نہ درس گاہیں‘اتنی قربانیاں دینے کے باوجود ہمیں مشکوک سمجھا جاتا ہے‘امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘اے اہلیان امریکہ سنو آج تم دنیا کی واحد سپرپاور نہ ہوتے اگر پاکستان تمہارے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر نہ لگا دیتا ‘تمہیں تو احسان مند ہونا چاہیے تھا مگر تم احسان فراموش نکلے ‘آپ نے دھونس ‘غنڈہ گردی اور مال وزر کے لالچ سے ہماری حکومتوں کو جنگوں میں دھکیلا‘وہ تو پہلے ہی آپ کے نمک خوار تھے‘قیمت اداکی عام شہری نے کہ آج اس کی زندگی جہنم سے بدترہے‘کیا یہ سچ نہیں کہ آپ کا عمل دخل اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ وسابق حکمران پارٹیوں کو آپ کے ”این او سی“کے بعد اقتدارمنتقل کیا گیا اور انہوں نے وفاداری کے عہد کی تجدید کی تو جمہوریت کی بدترین تذلیل کرتے ہوئے ایک ہاری ہوئی جماعت کو جتوا کرہم پر مسلط کردیا گیا ‘آئی آراے کا سروے کس کی فرمائش پر جاری ہوا‘اس کے لیے کتنی بڑی رقم اداکی گئی اس کی تفصیلات کچھ سامنے آچکیں باقی جلدآجائیں گی‘یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری اسلامی دنیا میں آپ اسی طرح مداخلت کررہے ہیں اور پھر معصومیت سے پوچھتے ہیں اسلامی دنیا میں آپ کے خلاف نفرت کیوں پائی جاتی ہے‘ایک طرف آپ جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور دوسری جانب اسی جمہوری نظام کے ذریعے منتخب ہوکر آنے والے ڈاکٹرمرسی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرواتے ہیں‘کیونکہ آپ کی جمہوریت کا”برانڈ“الگ ہے لہذا جو بھی آپ کے ”برانڈ“کی جمہوریت پر پورا نہیں اترتا اسے آپ اٹھا باہر پھینکتے ہیں‘آزادی اور جمہوریت کے نام پر آپ عراق‘لیبیا‘افغانستان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیتے ہیں ‘کیا یہ وہی اسد نہیں جو آپ کا چہیتا ہوا کرتا تھا‘صدام حسین اور قذافی کی طرح آج آپ نے پورے شام کو صرف اس لیے ادھیڑکررکھ دیا کہ آپ کو اسد کی شکل اب پسند نہیں رہی‘کئی ملین شامی جن کے گھر تباہ ہوچکے جن کے ملک کو آپ نے بدترین خانہ جنگی میں دھکیل دیا آج پناہ کی تلاش میں دربدرٹھوکریں کھارہے ہیں اور جب ذمہ داریاں اٹھانے کی باری آئی تو آپ نے انہیں دہشت گرد قراردیکر ان کے لیے دروازے بند کرنا شروع کردیئے‘کیا یہ سچ نہیں کہ آپ کے ایئرپورٹس پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے‘آپ کی مہذب دنیا میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو جلایا جاتا ہے‘ان پر حملے کیئے جاتے ہیں‘عورتوں کی تحضیک کی جاتی ہے‘جرمنی میں بھری عدالت میں چاقو کے وار کرکے بے گناہ مسلمان خاتون کو قتل کردیا جاتا ہے مگر عالمی ضمیرسویا رہتا ہے‘آپ اپنے معاشروں میں پائی جانی والی انتہاپسندی کو روکنے کی بجائے ہوا دیتے ہیں آپ کا نام نہاد میڈیا کئی سالوں سے یکطرفہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم جاری رکھے ہے مگر آپ نے ہونٹ سی رکھے ہیں ‘آپ کی پارلیمان کے اراکین فلورپر کھڑے ہوکرمسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرتے ہیں مگر آپ ان کے خلاف نفرت ‘پھیلانے یا تعصب برتنے کے الزام میں کوئی مقدمہ قائم نہیں کرتے‘انتہا پسند سفیدفام جو کہ White supremacists Groups گروپ کہلاتے ہیں ان کے خلاف آج تک آپ کے قوانین کتنی مرتبہ حرکت میں آئے ؟کتنے مقدمات ان کے خلاف قائم ہوئے؟امریکہ‘کنیڈا‘آسٹریلیا اور پورے یورپ میں پھیلے یہ سفیدفام غنڈے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں ان کی عبادت گاہوں کو جلاتے ہیں ‘اشتعال انگیزی کے لیے قرآن کی بخرمتی کرتے ہیں مگر آج تک کسی کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور نہ ہی کسی کو سزادی گئی‘ آپ کی تقریبا ہر فلم میں ولن آخرمسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟یہاں تک بچوں کی ویڈیوگیمزمیں آپ نفرت کا درس دینا نہیں بھولتے‘ آپ نے نہ صرف مسلمان ممالک پر ایک غیراعلانیہ جنگ مسلط کررکھی ہے بلکہ اربوں ‘کھربوں ڈالرسالانہ میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے کھولے گئے محاذ پر خرچ کیئے جاتے ہے‘ہمیں افسوس ہے ‘ہمیں دکھ قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر ‘مگر ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین‘عراق‘شام‘یمن‘کشمیر‘افغانستان‘پاکستان‘مالی ‘سوڈان وغیرہ میں مسلمان کے قتل عام پر کوئی ریلی مغرب میں نہیں نکالی جاتی ‘کوئی کانفرنس بلائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی آوازاس ظلم عظیم پر نہیں اٹھتی اور اگر کوئی اس ظلم اور ناانصافی پر زبان کھولے تو اسے دہشت گرد یا دہشت گروں کا ساتھی قراردیکراس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے ‘ایسا کیوں ہے؟کیونکہ آپ نے دوہرے معیار مقررکررکھے ہیں آپ کے یہی دوہرے معیارات نفرت کا بڑاسبب ہیں‘آئیے مل کر کام کرتے ہیں اس نفرت کو ختم کریں ‘ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھیں جو نفرتوں سے پاک ہو ‘جس میں انصاف کے لیے معیار رنگ‘نسل‘مذہب اور زبان نہ ہو‘ماضی کی زخموں پر نمک پاشی کی بجائے ان پر پھاہا رکھا جائے پھر ہی یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ کیئے گئے تو یہ ”کولڈ تھرڈورلڈ وار“جلدحقیقی تیسری عالمی جنگ کا رخ اختیار کرلے گی جس کی تمام ترذمہ داری اہلیان مغرب پر عائد ہوگی ‘یادرکھیے اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں رہا ہمیں جو فیصلہ بھی کرنا ہے جلد کرنا ہوگا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :