نئے سیاسی نظام کی ضرورت کیوں ؟

جمعرات 19 نومبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

حکومت کی کار کردگی اگر اچھی نہ ہو عوام کے مسائل حل نہ ہو رہے ہوں قانون کی حکمرانی کا تصور دوور دور تک دکھائی نہ دے رہاہو تو ایسی حکومت کے بارے رائے عامہ منتشر ہی نہیں ہوتی بلکہ کسی نئے نظام کے بارے سوچنے لگتی ہے۔اچھی حکومت کے حوالے سے ارسطو نے اپنی تصنیف ”سیاسیات“ میں مثالی حکومت کے لیے چند اہم شرائط کا ذکر کیا تھا جو اعلیٰ طرزِ حکومت کے لیے لازمی ہیں۔

مثالی حکومت ہر اعتبار سے جامع، مکمل اور خود کفیل ہو۔ ارسطو کے مطابق آبادی صرف اتنی ہی ہو جو خود کفیل ہو۔ مثالی ریاست کے لیے مناسب آبادی ضروری ہے۔ زیادہ آبادی ارسطو کے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ گنجان آبادی کی صورت میں ریاست کا انتظام چلانا حکومت کے لئے دشوار ہو جاتا گا۔ شہر کے لوگوں کا صاحبِ استطاعت ہونا ارسطو ضروری خیال کرتا تھا نیز یہ کہ وہ شہریت کے حقوق صرف ان لوگوں کو دینے کا قائل تھا جو ریاست کے کاموں میں برابر کے شریک ہوں۔

(جاری ہے)

ریاست کے قیام کے لیے تیسری شرط سپاہیوں کی مناسب تعداد ہے تاکہ دشمن کے حملہ آور ہونے کی صورت میں شہر کا دفاع ہو سکے۔ اس کے ساتھ ارسطو کے خیال میں کاشتکاروں، دستکاروں، خوش حال لوگوں، منتظم اور مذہبی پیشواؤں کا ہونا بھی ریاست کے لیے بہت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ کاشتکاروں اور دستکاروں کا شمار وہ شہریوں میں نہیں کرتا تھا۔ ریاست کا علاقہ اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ لوگ اس میں پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔

اپنی ضروریات کی تمام اشیاء کو اس میں پیدا کر سکیں اور اسمبلی کے اجلاس میں تمام شہریوں کا اجتماع ممکن ہو سکے۔ شہر محل وقوع کے اعتبار سے محفوظ ہوتا کہ بیرونی حملے کے وقت دشمنوں کے حملے سے بچنے کے لیے مناسب دفاع کیا جا سکے۔ ارسطو مثالی ریاست کے قیام کے لیے تعلیم کا ہونا بھی ضروری خیال کرتا تھا۔ اس کے خیال میں تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کے کردار کی تعمیر ہوتی ہے اور ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں کی نشوونما ہوتی ہے۔

اس لیے تعلیم یافتہ لوگ ریاست کے لیے ضروری ہیں۔
وقت، حالات اور دنیا کے جدید رجحانات کو دیکھتے ہوئے تمام جمہوری ملکوں میں ارسطو کا کچھ نہ کچھ فلسفہ کارفرما ہے کیونکہ اسوقت جمہوری نظام حکومت ہی واحد کامیاب نظام حکومت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس میں جمہور ملکی انتظام و انصرام میں اپنے ووٹ کے زریعے شمولیت اختیار کرتے ہیں ۔لیکن یہ نظام ایسے ملکوں میں کامیاب ہے جہاں تعلیم اور شعور کی شرح بلند ہے جبکہ ہمارے جیسے ملکوں جہاں جمہور کی جمہوری عمل میں شرکت طوہاً کراہاً وڈیرے، جاگیر دار اور سرمایہ دارکی دھونس دھاندلی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور تمام ملکی سیا سی جماعتیں اپنی ساخت اور سوچ میں جمہوری سوچ اور اپروچ نہیں رکھتیں۔

مقامی حکومتوں کا نظام عوام کے قریب تر ہوتا ہے جس میں ان کیشمولیت لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں جو نظام متعارف ہے اس میں بھی اختیارات کی تقسیم ابھی تک متنازعہ ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کے ساتھ ایک ستم یہ ہوا کہ حکمرانوں نے جمہوریت کی جو برانڈ متعارف کروائی اس میں اختیارت کی واضع تقسیم نہیں کی گئی مثال کے طور پر انیس سو چھپن میں جب پہلا آئین تیار ہوا تو اس حوالے سے صدر ،وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیار کی کشمکش ہوتی رہی اور نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔

اس کے بعد ایوب خان اور بھٹو کے دور میںآ ئین بنے لیکن ہر آئین میں ترامیم کی بھر مار ہوتی رہی۔انیس سو تہتر کے آئین کو متفقئین قرار دیا گیا لیکن تاحال اس میں بھی ترامیم کا سلسہ جاری ہے ۔جو بھی حکمران آیا اس نے اپنے اقتدار کوطور دینے اور گرفت مظبوط رکھنے کے لئے آئین میں مانی مانی ترامیم کرائیں ضیا رجیم اس حوالے سے سر فہرست رہا ۔
جبکہ عوام بے چاری جمہوریت کے فیوض و برکات سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ اس کے حقوق بھی متاثر ہوئے ہیں اس وقت جو جمہوریت چل رہی ہے اس میں عام آدمی کی شمولیت بظاہراً نظر تو آتی ہے مگر وہ عملاً اس میں شامل نہیں ہے ۔

کوئی بھی قومی پالیسی عام آدمی کی ضرورتوں کے مد نظر رکھ کر نہیں بنائی جاتی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے جن کا تعلق عام آدمی سے ہے کو نظر انداز کر کے ایسے منصوبے شروع کئے گئے جن کی ضرورت سے انکار نہیں مگر ملکی صورت حال کے پیش نظر ابھی ان کی ضرورت نہیں تھی۔ پہلی ترجیح تعلیم اور صحت ہونی چاہے تھی جس سے عوام محروم چلے آرہے ہیں کوئی ہسپتال، ڈاکٹر کا کلینک ایسا نہیں جہاں مریضوں کا اژدہام نہ ہو لیکن انہیں صحت عامہ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔

کہیں دوائی نہیں تو کہیں مشین خراب اور اس پر مستزاد ڈاکٹرز اور عملے کاتوہین آمیز رویے کا شکار عام آدمی جس قدر مشکلات کا سامنا اس دور میں کر رہاہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح تعلیم کامعاملہ ہے حکومت ابھی تک سکولوں سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں نہیں لاسکی جبکہ پراویٹ سکولوں پر چڑھائی سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور نظام تعلیم کی سمت بھی ابھی تک واضع نہیں کی گئی موجودہ نظام تعلیم پاکستانی بچوں کو انسان بناے سے قاصر ہے تفریق تقیسم اور اذہان کو منتشر کرنے والے نظام تعلیم سے کس تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟۔

انہتا پسندی ،نفرت ،تعصب اور عدم روداری کو فروغ دیتا نصاب فوری تبدیلی کے تقاضے کررہا مگر ہماری توجہ اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔
امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر آج ہر ادارہ اور گھر پراویٹ سیکورٹی گارڈ کا مرہون منت ہو چکا ہے محلے آہنی جنگلوں کی حصار میں قید ہوچکے ہیں انسانی آزادی اور حقوق کا تصورآہستہ آہستہ مفقود ہوتا جارہا ہے ان حالات میں اگر کوئی دوسرا ریاستی ادارہ حکومت کو اپنی کار کردگی اچھی کرنے کا کہتا ہے تو تو حکومتی نابغے اسے حکومتی امور میں مداخلت قرار دے کر اس کے لتے لینے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ ملکی معاملات کودرست کرنا تمام ادارورں کا فرض اور زمہ داری ہے۔

عوامی مسائل سے حکومتی لاتعلقی نے ہی عوام کے ایک اغلب حصے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ موجودہ جمہوری سیاسی نظام میں ان کے مسائل کا حل نہیں اور وہ کوئی ایسا نیا نظام چاہتے ہیں جس میں پاکستان ایک فلاحی مملکت کے روپ میں ڈھل کر ہر شہری کو اس ضروریات اور حقوق اس کی گھر کی دہلیز پرمہیا کرنے کی صلاحیئت رکھنے کے ساتھ امن و امن کے قیام کا داعی ہوجو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان کہلا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :