میاں صاحب یہ سبق بھول جائیں !

منگل 17 نومبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

قوم کو مبارک ہو وزیر اعظم صاحب پچھلے ماہ امریکہ گئے تھے او ر ہمارے لیئے ایک نیا سبق لے کر آئے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا وزیر اعظم نے پچھلے ماہ امریکہ کا دورہ کیا ہے اورحکومتی ارکان اس دورے کو کامیاب قرار دے رہے ہیں ۔ قومی خزانے کوکروڑوں روپے کا چونا لگا کر ہم نے اس دورے سے کیا حاصل کیا ، یہ الگ سوال ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے وزیر اعظم صاحب ہمارے لیئے ایک نیا سبق لے کر آئیں ہیں ،اور اب ہمارے دانشور اور ہمارا میڈیا سب مل کر ہمیں یہ سبق پڑھائیں گے ، بڑے بڑے جغادریوں اور دانشوروں نے اپنی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں ۔

وزیر اعظم صاحب ”تابع فرمان“ شاگرد ہیں اس لیئے واپس آتے ہی بلاتاخیر اعلان کر دیا کہ پاکستان ایک لبرل ملک ہے ۔اب وزیر اعظم صاحب کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ ان کی اس تابع فرمانی کو تلمیح کا درجہ دے دیا جائے اور آئندہ آنے والے زمانوں میں جب ”لائق اسٹوڈنٹ“کی تلمیح استعمال کی جائے تولوگ فورا سمجھ جایا کریں کہ اس تلمیح سے کس بات کی طرف اشارہ ہے ۔

(جاری ہے)


سیکولرزم اور لبرلزم ہے کیا پہلے آپ یہ جان لیں دوسری بات بعد میں کریں گے۔قرون وسطیٰ میں پایا جانے والا سیاسی، معاشی اور مذہبی جبر وہ بنیادی فیکٹر تھا جس نے یورپ میں سیکولرزم اور لبرلزم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ معاشرے کا چرچ اور بادشاہ کے ہاتھوں استحصال ہوا تو اس کا رد عمل یقینی تھا ،پندرھویں اور سولہویں صدی میں پیدا ہونے والے مغربی مفکرین اور فلسفیوں نے عوام کو چرچ اور بادشاہ کے خلاف اکسادیا تھا ۔

ایک طرف چرچ کی اجارہ داریاں تھیں اوردوسری طرف رہی سہی کسر بادشاہ نے پوری کر دی تھی ۔ پندرھویں اور سولہویں صدی کی دو اہم تحریکوں نشاة ثانیہ اور اصلاح مذہب کی تحریک نے بھی یورپی معاشرے کی تبدیلی میں اہم کر دار ادا کیا ۔ نشاة ثانیہ کی تحریک کے نتیجے میں یورپی عوام کو نئے علوم کی ہوا لگی ، مسلمانوں کے علوم یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ ہوئے تو اہل یورپ کو احساس ہوا کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے تب انہیں حصول علم کا شوق ہوا اور یورپی معاشرے میں تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم ہونے لگیں ، اس طرح کی یونیورسٹیاں سب سے پہلے روم میں قائم ہوئیں ۔

تعلیم آئی تو دانشور طبقے نے جنم لیا ، نئے تخلیق کا ر ابھر کر سامنے آئے اور نئی ٹیکنالوجی وجود میں آنے لگی، نئی نئی ایجادات وجود میں آئیں ، عوام میں سہولت پسندی آ گئی ، انسانی نفس کی تسکین سب سے بڑا مذہب قرار پایا ۔ سب سے پہلے علم کے میدان میں بغاوت ہوئی ، علم آیا تو اخلاقیات اور آزادی بھی ساتھ آ گئی ، اب دوسرا قدم چرچ سے آزادی تھا ، عوام نے چرچ کے خلاف بھی بغاوت کر دی اور آخر میں بادشاہ کے خلاف اکٹھے ہو کر سیاسی آزادی کا بھی نعرہ لگا دیا ۔

اب یورپی معاشرہ مکمل طور پر آزاد تھا ، مذہب ، سیاست اور معیشت سے آزاد ۔ ایک ایسا آزاد معاشرہ جس نے چرچ کا انکا رکر کے مذہب کو دیس نکالا دیا تھا ، بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی تھی اور جاگیر کی جگہ تاجرطبقہ آ گیا تھا۔ اب یورپی معاشرہ مکمل طور پر آذاد تھا اور اسی آزادی کی بنیاد پر آگے چل کر سیکولرزم اور لبرلزم کی عمارت کھڑی کی گئی ۔


لبرلزم قدیم لاطینی زبان liberسے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ”آذادی “ ۔ ابتدا میں اس سے وہ آذادی مراد لی جاتی تھی جو غلامی کے مترادف ہے لیکن بعد میں اس سے مراد وہ شخص لیا جانے لگا جو فکری طور پر آذاد ہو ، مذہب اورعقائد ونظریا ت سے آذاد ، جو کسی مافوق الفطرت ہستی اور مابعد الطبعیات پر یقین نہ رکھتا ہو اور اگر ذرا کھلے لفظوں میں کہا جائے تو وہ شخص جو مذہب سے انکا ری ہو ا، جو مذہب کو ریا ستی اور نجی دونوں سطح پر قبول کرنے کے لیئے تیار نہ ہو ۔

سیکولرزم میں اتنی گنجائش موجود تھی کہ اس نے سرے سے مذہب کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اسے فرد کا نجی معاملہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو باقی رکھا تھا لیکن لبرلزم نے سرے سے ہی مذہب کا انکار کر دیا ۔ ایک ایسی آذادی جس میں خدا ، پیغمبروں ، قیا مت اور جنت وجہنم کا انکار شامل تھا ۔ ایک ایسا نظام زندگی جس کی بنیاد وحی کی بجائے انسانی عقل پر تھی ۔

ایسا فلسفہ اور نظام اخلاق و سیاست جس میں انسانی عقل کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی تھی اور ایسا نظام فکر جس میں مذہب کی قطعا کو ئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ سترھویں صدی سے پہلے تک لبرلزم کا کوئی واضح فلسفہ موجود نہیں تھا ۔ برطانوی فلسفی جان لاک نے سترھویں صدی میں پہلی بار اسے باقاعدہ ایک فلسفے کی شکل دی اور اس فکر کو منظم طور پر متعارف کروایا۔

یہ شخص عیسائیت کے سخت خلاف تھا ، قرون وسطیٰ میں عیسائی تعلیمات کے مسخ ہونے اوراس کے چرچ اور کلیسا کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا لازمی نتیجہ تھا کہ عوام اور دانشور ایسے مذہب سے اظہار بیزار ی کریں ۔ جب مغفرت نامے لکھوائے گئے اور پادریوں نے جائیدادیں بنانی شروع کیں تو ایک عقلمند آدمی کا مذہب سے متنفر ہو جانا قرین قیاس تھا۔ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت آدم نے جنت میں جو گناہ کیا تھا اس کا کفارہ حضرت مسیح اور تمام عیسائیوں نے مل کر کیا تھا ۔

لیکن جان لاک کہتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک منصف خدا باوا آدم کی سزا عام انسانوں کو دے ۔عیسائیت کے یہ اور اس جیسے دیگر من گھڑت عقائد عوام پر تھوپنے اور ان پر مسلط کرنے کا لازمی نتیجہ یہی برآمد ہونا تھا کہ لوگ مذہب سے ہی اظہار بیزاری کریں ۔ یہ وہ حالات تھے جن میں جان لاک نے مذہب سے آذادی کا فلسفہ پیش کیا اور یورپی عوام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔

جا ن لاک اور اس کے فلسفے کا اثر بعد کے فلسفیوں اور دانشوروں پر بھی ہوا ، انقلاب فرانس کے فکری راہنما والٹیئر اور روسو اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھی لیکن فکری طور پر وہ جان لاک سے متاثر اور اس کے جانشین تھے ۔ انہی راہنماوٴں کے افکار کی روشنی میں انقلاب فرانس کی راہ ہموار ہوئی ۔ انقلاب کے بعد جب فرانس میں قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو انہی افکار کی وجہ سے مذہب کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ، مذہبی اقدار سے آذادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔


لبرلزم اور سیکولرزم میں فرق یہ ہے کہ لبرلزم کے فلسفے میں ذیادہ شدت پائی جاتی ہے ، اس طور پر کہ لبرلزم مذہب کو کسی صورت بھی قبول کرنے کا روادار نہیں ۔ لبرلزم کے فلسفے کے مطابق انسان کو مذہب کی قطعا کو ئی ضرورت نہیں بلکہ فطری قوانین ہی انسان کا اصل مذہب ہیں ۔ انسان پیدائشی طور پر آذاد ہے لہذا اس کی آذادی کے راستے میں مذہب کی دیواریں نہیں کھڑی کی جا سکتیں ۔

مذہب نام کی کسی شے کا انسانی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہو نا چاہیئے ۔ جبکہ سیکولرزم میں اس کی نسبت ذرا کم شدت پائی جاتی ہے کہ سیکولرزم سرے سے مذہب کا انکار نہیں کرتا بلکہ مذہب کو ایک تاریخی سچائی کے طور پر قبول کرنے کے ساتھ اسے فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو برقرار رکھتا ہے ۔ اگرچہ ریاستی سطح پر مذہب کی عمل داری اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کے حق میں یہ بھی نہیں
اس لیئے وزیر اعظم صاحب آپ یہ جو سبق پڑھ کر آئیں ہیں اسے بھول جائیں ،یہ قوم یہ سبق پڑھنے کے لیئے تیار نہیں ۔اور اگر آپ بضد ہیں تو آپ ہی طرح کا ایک ”لائق اسٹوڈنٹ “آج کل کراچی میں مقیم ہے اس سے مشورہ ضرور کر لیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :