دہشت گردی‘بنیاد اور وجوہات ۔ قسط نمبر1

منگل 17 نومبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پیرس میں انسانی جانوں کا نقصان قابل مذمت بلاشبہ یہ ان خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت صدمہ ہے جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہے‘جن کے پیارے ان حملوں میں نشانہ بنے ‘جن کے پیارے جان سے گئے‘مگر ان کا کیا جن کے پیارے ہرروزخاک میں اتارے جاتے ہیں ‘پاکستان ‘افغانستان‘یمن‘لیبیا‘سوڈان‘مصر‘شام‘عراق‘کشمیر‘فلسطین کس کس کا نوحہ لکھیں کہ ان کے لیے نوحہ گری بھی دہشت گردی میں شمار ہونے لگی‘میرے وطن کا سیکولرشدت پسند طبقہ تواپنے نظریات میں ان سے بھی زیادہ شدت پسند ذہنیت رکھتا ہے جنہیں وہ دہشت گرد قراردیتے ہیں ‘برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ میں امریکی آج بھی دہشت گرد ہیں جنہوں نے آزاد ملک کے لیے تاج برطانیہ سے بغاوت کی تھی‘جس بھگت سنگھ کی یاد میں یہ نام نہاد سیکولرطبقہ دن مناتا ہے وہ بھی تاج برطانیہ کے سرکاری ریکارڈمیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے‘بیماری کا جڑسے پکڑنا ہے تو ماضی کی راکھ کو کریدنا ہوگا ‘نفرت کی ان وجوہات کو ختم کرنا ہوگا ‘نفرت کے ان اندھے کنوؤں کو بندکرنا ہوگا جن سے”دہشت گرد“نکلتے ہیں اور خود کو بارودسے اڑکر اپنے ساتھ کئی انسانی جانوں کو موت کے منہ میں ڈال دیتے ہیں ‘کبھی لمحہ بھر کے لیے پوری ایمانداری کے ساتھ سوچیئے کہ کیا کیفیت ہوتی ہوگی اس انسان کی جس نے اپنے جسم کے ساتھ بارود باندھ رکھا ہے اور جو اپنی جان اپنے ہاتھوں لینے کے لیے نکل پڑتا ہے‘پاکستان کے قبائلی نوجوان کا سوال کہ کھیت میں کام کرتی اس کی ماں پر ڈرون حملہ کیوں کیا گیا؟اس باپ کا سوال کہ جس کی بیٹیوں اور بیوی کو ڈرون سے فائرکیئے گئے میزائل سے اڑا دیا گیا اپنے گھرکے ملبے اور اپنے بچوں کے جسم کے ٹکڑوں کے درمیان میں بیٹھا وہ باپ دنیا سے سوال کررہا تھا کہ اس کے خاندان کا آخرقصورکیا تھا؟وہ تمام ممالک جو عالمی طاقتوں کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوئے ان کا کیاکوئی ان کے لیے نوحہ گرہوا؟کسی نے ان کے لیے عالمی کانفرنس بلائی؟غزہ میں اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ گزین سینکڑوں معصوم عورتیں‘بچے‘بوڑھے لاچارایک ہی فضائی حملہ میں ماردیئے جاتے ہیں کہاں گئے آپ کے مرتب کردہ عالمی قوانین اس عمارت پر اقوام متحدہ کا جھنڈا تھا ‘وہ ڈکلیئرڈ مرکزتھااقوام متحدہ کا تو جناب آپ کے مرتب کردہ عالمی قوانین کے تناظرمیں تو وہ حملہ فلسطینیوں پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ پر تصورکیا جانا چاہیے تھا‘اقوام متحدہ مطلب تقریبا پوری دنیا تو وہ حملہ پوری دنیا پر تھا مگر آپ نے کیا کیا؟محض ایک قراردادتوپاس کیجئے ناں نائن الیون‘سیون الیون اور فرانس حملوں پر بھی محض ایک مذمتی قراردادمیں بند کریں اس نام نہاد جنگ کو جو ہردن سینکڑوں انسانوں کی جانیں لے رہی ہے‘اگر اسرائیل پوری دنیا پر حملہ کرتا ہے اور سینکڑوں جانوں کا مداوا آپ کے نزدیک ایک ہومیوپیتھک قسم کی قراردادہے تو اسی قراردادسے آپ کے دکھ کا مداواکیوں نہیں ہوتا؟غالبا دوہزارچارسے ایک سادہ سی بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو اس کی وجوہات کو جنم دینا بند کردیں یہی”مہذب“دنیا نہ صرف اس کی وجوہات کو شعوری طور پر پیدا کررہی ہے بلکہ اٹھتے ہوئے شعلوں پر تیل بھی باقاعدگی سے چھڑکا جاتا ہے ‘فرانس میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں اور ہردن ان کی تعداد میں تین سے چار افرادکا اضافہ ہورہا ہے کہ فرانس میں قبولیت اسلام کی شرح یورپ کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے توتکنیکی اعتبار سے پیرس میں اس طرح کی کاروائی نہ صرف فرانس کے مسلمانوں بلکہ مغرب میں مقیم کروڑوں مسلمانوں اور ان کے خاندانوں کے لیے نقصان کا باعث بنیں گے لہذا مسلمانوں کو ان حملوں سے نقصان ہے فائدہ کوئی نہیں دنیا بھر میں تفتیش کے رائج بنیادی اصولوں کے مطابق کسی بھی جرم کے واقع ہونے پر سب سے پہلے شک کے دائرے میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں اس سے کوئی فائدہ پہنچتا ہو‘اب امریکہ کوعراق ‘لیبیا‘افغانستان میں جنگ اپنے پیسوں سے لڑنا پڑرہی ہے اس کے نیٹو اتحادی اس طویل جنگ سے تنگ آکرایک ایک کرکے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے تھے خاص طور پر شام کے معاملے میں اتحادیوں میں پھوٹ پڑنا شروع ہوگئی تھی امریکہ ہر حالت میں مغرب سے فوجی اور مالی مددچاہتا ہے کیونکہ اس جنگ سے اس نے اپنے بہت سارے مفادات وابستہ کررکھے ہیں آگے آپ خود سمجھدار ہیں ‘ہمیں افسوس ہے ‘دکھ ہے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا اور ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں مگر ہم ان کی بھی مذمت کرتے ہیں جو داعش جیسے گروپ بناتے اور ان کی سرپرستی کرتے ہیں اپنے مقاصدکے لیے‘ایک صحافی کے حیثیت سے کئی سال تک ایسے گروپوں پر ریسرچ کرنے اور ان کے متعلق لکھتے گزارے ہیں ‘تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہے ان کے بارے میں ‘اگر آپ دنیا بھر کے ان جنگجوگروپوں پر تحقیق کریں بلاتفریق رنگ‘نسل‘مذہب اور خطے کے آپ حیران ہونگے کہ اسی فیصدسے زیادہ گروپ آخرکار اپنے آقاؤں کے خلاف ہی بغاوت پر اترآتے ہیں کیونکہ جب ان کے پاس پیسہ‘ہتھیار اور طاقت آجاتی ہے وہ تو خومختاری اختیار کرنا شروع کردیتے ہیں یہ وہ جن ہیں جنہیں بوتل سے نکالنا تو آسان ہے مگر واپس بند کرنا ناممکن ‘شام کو ہی لے لیں کیا گارنٹی ہے کہ نیٹو‘روس اور دیگر اتحادی ممالک کی بمباری سے صرف گنہگار ہی مرتے ہیں؟کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ افغانستان‘پاکستان کے قبائلی علاقہ جات‘لیبیا‘عراق‘یمن‘شام پر کی جانے والی بمباری سے بے گناہ نہیں مررہے ؟ان کے خاندانوں میں جو بچ جاتا ہے وہ آسان ترین شکار ہے داعش جیسے گروپوں کا‘انتقام کا جذبہ انسان کی فطرت میں ہے‘آپ ہی کہتے ہیں ناں کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے تو ایکشن آپ نے شروع کیا تھا جب چند عالمی غنڈوں نے مل کر پوری دنیا کو آپس میں بانٹ لیا ‘جی ہاں کالونین ازم جڑہے‘نفرتوں کے بیج آپ نے صدیوں پہلے بوئے تھے جس کی سزاآج پوری دنیا بھگت رہی ہے‘آپ نے چرکے لگائے اور نمک پاشی بھی کرتے رہے ‘شاید زخم بھرجاتے مگر آپ انہیں کریدتے رہے ‘پھر ماڈرن ورلڈکا آغازہوا ‘آپ خود کو” مہذب“ معاشرے قراردیا ‘بیوقوف لوگ سمجھتے رہے کہ انہوں نے آپ سے آزادی حاصل کرلی مگر ہرکالونی کو چھوڑنے سے پہلے آپ نے اختیار اور طاقت اپنے ”راتب خوروں“کے حوالے کرکے آج بھی بلاواسط آپ حاکم اور آقا ہیں نتیجہ نفرت کی خلیج بڑھتی گئی ‘آپ کو اپنے ملک چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت تھے سو آپ نے بڑے بڑے عالمی ادارے قائم کیئے اور ”لگان“ان کے ذریعے مہذب اندازمیں وصول کرنے لگے‘دنیا غربت اور افلاس میں جکڑتی چلی گئی مگر آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی آپ کی ہوس زردنیا کے امن‘سکون کو کھا گئی ‘جنگ عظیم اول سے آج تک آپ نے ”وارانڈسٹری“سے اتنا پیسہ کمایا کہ دنیا کی اسی فیصد سے زائد آبادی آج غربت کا شکار ہے‘کارپوریشنزاور سرمایہ درانہ نظام نے دنیا کو جہنم بناکررکھ دیا عام انسان کے لیے ‘کوئی جسم بیچنے پر مجبورہوا تو کوئی جان مگر آپ کی تجوریاں بھرتی رہیں ‘آج آپ کیوں چیخ رہے ہیں اس لیے کہ جو آگ آپ نے دوسروں کی جھونپڑیوں کو جلانے کے لیے لگائی تھی آج وہ آپ کے محلوں تک جاپہنچی ہے‘آج آپ تک اس کی حدت اور شدت پہنچی تو آپ چلا اٹھے‘طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کو بنانے والے کون ہیں؟ کیا یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی ہے؟ اسامہ بن لادن کے پس پشت کس کا ہاتھ تھا؟ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق شام میں اب تک ۲ لاکھ ۲۰ ہزار سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔

(جاری ہے)

8803 سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 800 سے زیادہ بچے قید خانوں میں ظلم و زیادتی کے شکار ہوئے۔ آکسفورڈ ریسرچ گروپ کے مطابق0 1200 بچے مارے گئے۔ یہ تعداد بڑھتی جار ہی ہے۔ کیا ہم نے افغانستان ،لیبیا اور عراق کا حشر نہیں دیکھا…؟ کچھ چھوٹے چھوٹے سوال ہیں جو مجھے پریشان کرتے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں کے خوفناک ارادے اپنی جگہ، میں 9/11 میں ہلاک ہونے والوں کو اْسی نظر سے دیکھتا ہوں، جس نظر سے شام، چیچنیا، فلسطین، عراق، افغانستان‘عراق‘لیبیا‘یمن اور برما کے روہنگیا کی تباہی دیکھتا ہوں۔

مشہور ناول نگار، ارنیسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ایک بھی انسان مرتا ہے تو انسانی برادری میں کمی آجاتی ہے۔ میں شرمندہ ہوتا ہوں، ایک بھی انسان کے مرنے پر۔ لیکن یہ بھی سوال ہے کہ یہ دہشت گرد کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور کس نے پیدا کیے ہیں؟ نفرت کا حل نفرت نہیں ہے۔ دہشت گرد بم برساتے ہیں تب بھی انسانی جانیں شکار ہوتی ہیں اور اس کے بعد انتقامی رویوں کے طور پر جب حکومتیں آگ اْگلنے، میزائل اور راکٹ پھینکنے کا کام کرتی ہیں تو اس رد عمل کو کیا نام دیا جائے؟ فرانس نے اب شام کے ان مقامات پر حملے تیز کر دیئے ہیں جہاں اندیشہ ہے کہ دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔

کیا ان حملوں میں صرف دہشت گردوں کی جان جائے گی؟ کیا معصوم عوام حملے کی دہشت سے بچ سکیں گے؟ یہ وقت بڑی مچھلیوں کے فیصلے کا ہے جو معاشی اور اقتصادی سطح پر مضبوطی کے لئے لیبیا سے عراق،افغانستان اور شام تک سیاست اور طاقت کے خوفناک جال بچھاتی ہیں۔ امن و سکون کے نام پر، انسانیت کے پیغام کے ساتھ کہیں کوئی قذافی مارا جاتا ہے کہیں کوئی صدام۔

اور کوئی ابامہ، کوئی پتین، کوئی بش، اساماؤں کو پیدا کرنے کے باوجود خاموش رہتا ہے۔ شام میں جو کچھ بھی ہوا کیا اْس کے لئے روس، امریکہ اور فرانس کی پالیسیاں قصوروار نہیں؟ یہ کیسی سیاست اور دبدبہ ہے ایک بعد ایک ملک پر نشانہ لگاتے ہوئے بڑی مچھلیاں اپنی طاقت اور انصاف کا ڈھنڈھورا پیٹتی ہیں؟ اور سربراہ کانفرنسوں میں دہشت گردوں کو اکھاڑ پھینکنے کی آواز تیز ہوتی ہے۔ کیا ان ممالک سے بڑا کوئی تاناشاہ ہے۔ موت کے کھیل میں ایک بازی دہشت گردوں کے ہاتھ ہوتی ہے اور دوسری بازی حکومتوں کے ہاتھ۔ دہشت گرد کے ہاتھ سمجھ میں آجاتے ہیں۔ حکومتوں کے ذریعہ کی گئی ہلاکت کو انسانیت بچانے کا نام دیا جاتا ہے۔ جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :