ملک میں ن لیگ کے علاوہ بھی مخلوق بستی ہے

بدھ 11 نومبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ضلع بھکر کے عوام کو سرتا پا جکڑے ہوئے وڈیروں کو نجانے کیوں زعم ہے کہ وہ دن کو رات کہیں گے تو ان کی مان لی جائے گی اور رات کو دن کہیں تو کوئی چوں چراں نہیں کریگا حالانکہ وڈیروں کو بخوبی علم ہے کہ یہاں بھی لاکھوں زندہ سلامت ،سانس لیتے انسان موجود ہیں جن کا اپناوجود ہے، جو اپنی روزی روٹی کے خود ذمہ دار ہیں، جن کی صبحیں مرضی سے طلوع ہوتی ہیں اورشام کو تھکے ہارے جب چارپائی پرلیٹتے ہیں ان کے کاندھوں پر کسی چاپلوس وڈیرے جاگیردار کاسہ لیس کا بوجھ تک نہیں ہوتا پھر بھی ان وڈیروں کو زعم ہے کہ وہ عوام کے روزی رساں ہیں۔

ایک پاؤں اٹھاکر دوسرے کی توفیق نہ رکھنے والے سیاسی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے ان غلام گردشوں کے ماروں کو نجانے کس پاگل نے کہہ دیا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ کہیں گے تو بھی ان مان لی جائے گی ۔

(جاری ہے)

خیر یہ بھی ہرکسی کوبخوبی علم ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے مگریہ وڈیرے پاؤں کے بنا ہی جھوٹ کے گھوڑے یوں دوڑائے چلے جارہے ہیں کہ عوام حیرت زدہ ہیں کہ الہی کبھی جھوٹ کے پہاڑ بھی یوں تعمیرکئے جاسکتے تھے؟؟
کہانی بہت طویل ہے اورٹائم بھی بہت زیادہ چاہئے جھوٹوں کی کہانی لکھنے کیلئے ،مگر کالم میں اتنی وسعت نہیں کہ جھوٹوں کے پاؤں اکھاڑے جائیں ۔

خیر اتنا عرض کرنامقصود ہے کہ ان دنوں بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کے مردہ شیر کوزندہ کرنے کی پوری سعی کی جارہی ہے، ن لیگ کا شیر بہت کوشش کے باوجود بائیس سے پچیس سیٹوں سے آگے نہ بڑھ سکا، میونسپل کمیٹیوں میں بھی یہی حالت نظرآتی ہے مگر وڈیرے ہیں کہ ٹٹ پونچیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ن لیگ ہی ضلعی چیئرمین کافیصلہ کریگی؟ خدا کاخوف کرو، اگر فیصلہ ن ،ل، ق ، ا،ب قسم کی لیگوں نے ہی کرناہے تو پھر ووٹنگ کافائدہ ؟؟؟ تاریخ کے اوراق پر واضح لکھانظرآتا ہے کہ بھکر کے عوام نے ن لیگ کو ایکبارپھر تاریخی طمانچہ رسید کرتے ہوئے محض پچیس سیٹوں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے اور یہ تاریخی نفرت یوں بھی ہے کہ 1999 کے بعد بھکر شہر اورتین تحصیلوں میں جس کسی نے بھی شیر کانشان ماتھے پر سجایا،ذلت اسی کا ہی مقدر بنی۔

یہ ن لیگ سے ہی نفرت کی علامت نہیں بلکہ واضح اشارہ ہے کہ عوام سیاسی شیروں سے نہیں حقیقی شیروں سے محبت کرتے ہیں۔
2002کے انتخابات میں ڈھانڈلہ گروپ بری طرح رسوا ہوا کہ شیر کا نشان ماتھے پر ٹنگا ہوا تھا، 2008 میں یہی حشر ہوا کہ شیر ان کے گلے کاپھندہ بن گیا، 2013کے عام انتخابات میں شیر کا’گلانواں“ نوانی گروپ نے گلے میں ڈالا اورانجام․․․․․․․․․نوانی برادران انتخابات سے آؤٹ ، اورپھر کوئی سیٹ ان کا مقدر نہ بن سکی۔

یہ کس بات کی علامت ہے ؟؟ یہ واضح اشارہ ہے کہ عوام ن لیگ سے مسلسل نفرت انگیز رویہ اختیارکرتے جارہے ہیں ،چلو مان لیا کہ 2013کے انتخابات میں ن لیگ واضح برتری حاصل کرکے اقتدار میں آگئی مگر ان اڑھائی سالوں میں ضلع بھکر کو کیا ملا؟باتوں کے بڑے بڑے پہاڑ، جن کا نہ تو عملی وجود ہے اورنہ ہی دیکھنے میں کچھ نظرآتا ہے البتہ اخباری کاغذوں پر ان دعوؤں کواکٹھاکیاجائے توکوئی پاگل ہی یقین کرپائیگا کہ بھکر پیر س بن گیا،
چلو اڑھائی سال بیت گئے شاید لوگوں کی نفرت ن لیگ سے کم ہوگئی ہوتی؟؟ نہیں ایسا نہیں ہوا ن لیگ ن لیگ کی گردانیں الاپتے دن کو کسی اور جماعت اوررات کو دوسری جماعت کے تلوے چاٹنے والوں کو علم ہوناچاہئے کہ اس ضلع میں ن لیگ کے علاوہ بھی لوگ بستے ہیں اوریہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ن لیگ کو ایک عشرہ سے مسترد کرنے کاسلسلہ جاری رکھا ہوا ہے
اب اگر ن لیگ کی تسبیح پڑھنے والوں کاماضی دیکھ لیں کسی نے اگر تاریخ دہرانی ہو تو تحریک نجات کے دوران کے حالات دیکھ لے ، آج کے ن لیگ کے سرخیل دھوتیاں بچاتے نظرآئے، پھر پرویز مشرف کاڈنڈا کھڑکا تو کئی لوگوں نے خود کو دل کامریض کہہ کر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، حتیٰ کہ ایمرجنسی کے وقت فورا ہی اخبارات کے دفاتر اور نیو ز ایجنسیوں پرفون کرکے اخبارات بند کرادئیے گئے کہ ہم دل کے مریض ہیں ہمیں سیاست سے کیا لینا دینا، ہرحویلی میں سناٹاتھا، ن لیگ کادعویدار کوئی نہ تھا؟؟؟ لے دے ایک ہی بورڈ جناح گیٹ کے قریب ایک دفتری (دفتر کی چھوٹی سی شکل) پر نصب تھا جسے بہانے سے اتار کر نوازشریف کا نام تک ختم کردیاگیا، یہ ہے نو ن لیگ کے محبان کا حال، جونہی نوازشریف وطن واپس آئے مگرمحض چند گھنٹوں بعد ہی انہی جدہ واپس بھجوادیاگیا ، ایک سیاسی رہنما سے پوچھا آپ استقبال کو نہیں گئے ؟ جواب ملا ” ہمار اوہ ہے جو پاکستان میں موجود ہے“ ،رات گئی بات گئی کے مصداق جونہی وقت نے پلٹا کھایا ، شریفوں کی جوڑی کووطن پدھارنے کی اجازت مل گئی تو دھوتیاں جوڑتے کئی لوگ آن موجود ہوئے کہ ہم سے زیادہ کون ن لیگ کا وفادار ہوسکتاہے، اور تو اور ن لیگ سے تعلق پر قوم سے معافی مانگنے والے بھی نماں دکھتے ہیں
ایسے لوگ جنہیں زعم ہے کہ تاریخی شکست کے باوجود ن لیگ ہی ضلع بھکر میں چیئرمینی کا فیصلہ کریگی ،ہمارا ان لوگوں سے ایک ہی سوال ہے کہ اگر کوئی آپ کے جائز حق کو چھیننے کی کوشش کرے تو آپ کیاکریں گے؟؟کوئی چوں چراں نہیں صرف جواب چاہئے؟؟ ایسے لوگ جنہیں لگتا ہے کہ شریفان ن لیگ ہی اس دھرتی کے خدا ہیں اور ان کے بنا کوئی سانس تک نہیں لے سکتا تو پھر یہ بھی پوچھا جاسکتاہے کہ خدا کے بندو ،لاکھوں لوگوں نے تو ان سے جان چڑھانے کاواضح اشارہ دے دیا ہے مگر آپ کیوں بضد ہیں کہ مستر د کردہ لوگوں کی منشا کے مطابق ہی فیصلہ کیاجائے؟ مانا کہ قوم کی غلطیوں کے باعث شریفان کی جوڑی قوم پر مسلط ہے مگر کیا یہ اتنا بڑا جرم بن گیا کہ ہرکام ہی انہیں کی مرضی سے کیاجائے؟ کیا ضلع بھکر کے عوام شریفوں کے ہاتھوں پابند سلاسل ہیں، واضح نفرت کے باوجود بھی انہی لوگوں کو پھر ن لیگ کی جیل میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، خدا کانام مانو؟؟ ذہن سے خناس نکال دو کہ یہ ضلع ن لیگ کا ہے یا ان کامائی باپ کوئی ن لیگ والا ہے؟؟ عوام کی واضح نفرت کے باوجودبھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تواسے پاگل کے سوا کچھ نہیں کہاجاسکتا، لیکن کوئی خود کو عقل کل سمجھتاہے تو اسے یہ بھی جان لیناچاہئے کہ یہ حکمرانی سدا نہیں رہتی لیکن لوگوں کے روئیے ،ٹٹ پونجیوں کی چاپلوسی ضرور تاریخ میں ”میر جعفر“ میرصادق کے نام سے لکھی جاتی ہے اورتاریخ کا تھپڑا یسا زور دار ہوتاہے کہ اس کے بعد بھی کوئی فرعون دکھائی تک نہیں دیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :