جسٹس منصور ، ماڈل کو دوسرے اداروں میں بھی نافذ کیا جائے

پیر 9 نومبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ایک وقت تھا جب شہر لاہور علم وفن کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا۔ علم و فن کی تما م شاخوں کے طالبعلموں کو اپنے اپنے مطلب کے اساتذہ مل جاتے تھے جو اپنے طالبعلوں کی فکری تربیت کر نے کے ساتھ انہیں انسان بنا نے کی ذمہ داری بھی سرانجام دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دور میں نہ کوئی بریلوی تھا نہ کوئی دیو بندی اور نہ ہی اہلحدیث، یہاں بسے والے اپنے آپ کو صرف اور صرف انسان کہلوانے میں ہی فخر محسوس کرتے تھے۔


سیدنا علی بن عثمان  سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اشفاق احمد اورواصف علی واصفسے ہوتا ہو ابا لآخرمعطل ہو گیا جس کی وجہ سے” انسان“ پر فخر کر نے والے لوگ اپنی روحانی اور فکری تربیت نہ ہو نے کی وجہ سے مختلف قوموں ، نسلوں اور عقیدوں میں تقسیم ہو تے چلے گئے اور یوں ان کے اندر برداشت، رواداری، حسن سلوک کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر خشک ہونا شروع ہو گیا پھر جس نے ،اسے عدم برداشت، حسداور نفرت جیسے بد بودار جوہڑ میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔

(جاری ہے)


قارئین کرام !لاہور اور یہاں رہنے والے لوگوں کی انسان دوستی اور وسعت قلبی کے ایسے بے شمار واقعات دیکھنے اور سننے کے بعد جب آج کے لاہور کو دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ سوچ بھی ذہن کے ایک کونے میں پرورش پا نا شروع ہو جا تی ہے کہ جس معاشرے میں اہل علم و دانش قحط پذیر ہو نا شروع ہو جائیں تو پھر ایسے معاشروں کا حال یہی ہوا کر تا ہے۔


جلد ہی ذہن میں پرورش پانے والی سوچ قاسم علی شاہ نامی خوبصورت اور خوب سیرت ، شخص سے مل کر اپنی موت آپ مر گئی اور مجھے امید کی روشنیوں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ شاہ صاحب حضرت واصف اور اشفاق احمد کی طرح اپنے گھر کی بیٹھک میں ،ہر ہفتے ایک میلہ سجاتے ہیں جہاں لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کی کثیر تعداد دیکھ کر مجھے کئی سالوں پہلے کا لاہور یاد آگیا۔

دانش و روحانیت، تصوف، کامیابی، علم معاشیات و معاشرت، علم بشریات، نفسیات اور سائنس کے تما م علوم پر ملکہ رکھنے والا یہ شخص جب بات کرتا ہے تو وہ لوگوں کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑتے ہوئے انہیں عمل کے رستے کا مسافر بناتی ہے۔
شاہ صاحب پچھلے کئی سالوں سے اپنا تعلیمی ادارہ چلانے کے ساتھ لوگوں کی فکری و روحانی تربیت کر نے کے ”ولی“مشن پر گامزن ہیں اور جنہیں اس میدان میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔

کئی پرائیویٹ اداروں سمیت سر کاری اداروں بالخصوص MPDDاور DSDمیں بھی لیکچرز دے رہے ہیں ۔ مجھے یہ جان کر بھی از حیرت ہوئی کہ شاہ صاحب آجکل لاہور ہائیکورٹ کے ملازمین کو بنیادی اخلاقیا ت ،خود ضبطگی،کامیابی اور اپنے آپ کو کیسے آگے بڑھانا ہے جیسے موضوعات پر تربیت دے رہے ہیں اور ملازمین میں زیادہ تر تعداد درجہ چہارم اور اس سے نیچے والے ملازمین کی ہے اور جس کے نتائج 100فیصد ہیں۔


ہماری ہونے والی ملاقات میں سب سے زیادہ طویل گفتگو لاہور ہائیکورٹ کے ملازمین کا تربیتی کورس اور اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی تھی۔ بلا شبہ جس کا سہرا جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کو جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ میں کئی انقلا بی تبدیلیاں لائیں ہیں جس میں سے ایک یہ تربیتی کورس ہے جس میں صرف افسران کو ہی نہیں بلکہ درجہ اول کے ملازمین کو بھی شامل کیا ہے جنہیں دوسروں پر فوقیت بھی حاصل ہے۔


جسٹس منصورعلی شاہ ریفارم جج کی حیثیت سے پہچا نے والے جادوئی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ انہوں نے عدلیہ میں پہلی دفعہ انٹر نل آڈٹ ڈیپارٹمنٹ متعارف کرایا جبکہ بینکنگ اینڈ فنڈز مینجمنٹ شعبہ بھی قائم کیا۔ شعبہ بجٹ اینڈ فنا نس اور شعبہ بلڈنگ اینڈ مینٹی نینس کو نئے سرے سے بہتر بنا نے میں اہم کرادار ادا ء کیا ہے۔جنرل پروکیورمنٹ کی بہتری سمیت ہیومن ریسوس ہائیکورٹ اور ہیومن ریسورس ڈسٹرکٹ جوڈیشنری الگ الگ قائم کئے گئے ہیں۔


قارئین محترم !مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ کم از کم ہم اپنی خامیوں کو پہچا ننے اور ان کو دور کر تے ہوئے اپنے آپ کو بہتر سے بہتر کر نے ، برداشت، رواداری ،محبت اور حسن سلوک کی راہ کے مسافر بن رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ محکموں کے ذمہ داران تبدیلی کی اس رفتار کو مزید تیز کر تے ہوئے جسٹس منصور ،ماڈل کو اپنے دفتروں میں رائج کرتے ہوئے حقیقی اور انقلابی تبدیلی کو رونما ہو تے دیکھیں۔ قاسم علی شاہ کے بقول : بینچوں، کرسیوں اور کمروں وغیرہ کا نام ہا ئیکورٹ نہیں، بلکہ یہاں کے عملے کا نام ہائیکورٹ ہے اور جب تک ہم اس عملے کو تیار نہیں کریں گے ادارے تیار نہیں ہو نگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :