تبدیلی اورہم بہت دوردور

ہفتہ 7 نومبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اپنے اوربیگانے مجھ سے یہ گلہ کرتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف بہت لکھتاہوں مگر کیاکروں۔۔۔۔؟میں اپنی عادت سے مجبور ہوں کیونکہ ظلم وستم اوربے انصافیوں پرخاموشی کی چادراوڑھ لینا یاکسی مصلحت پسندی کے تحت اپنے لبوں کوتالے لگانا میں نے کسی سے سیکھا نہیں۔ میں اس عظیم ماں کا بیٹا ہوں جس نے بچپن ہی میں جب مجھے دائیں اور بائیں ہاتھ کی بھی تمیز نہیں تھی ۔

دنیا کے ہر ظلم اور ظالم کے خلاف ڈٹنے ۔۔کٹنے اور مرنے کا سبق سکھایا۔ میں جس صوبے میں رہتا ہوں یہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اب تک جو اچھے کام کئے ۔میں نے انہیں کبھی کسی کالے کپڑے میں لپیٹ کر نظر انداز نہیں ہونے دیا نہ ہی ان کارناموں کوپی ٹی آئی مخالف لفظوں اور جملوں تلے دبایا۔ میں نے ہر اچھے کام پر صوبائی حکومت کو داد اور عمران خان کو اپنے کالم کے ذریعے مبارکباد دی ۔

(جاری ہے)

ایسے میں پھر صوبائی حکومت کی نااہلی، غفلت اور لاپرواہی اور برے اقدامات اٹھانے پربرائیوں کوجنم دینے پر میں کیسے خاموش رہ سکتا ہوں۔۔؟ کسی کی بے جا تعریف میری عادت نہیں نہ ہی کسی بے گناہ پر لفظی تیر برسانا میرا شیوہ ہے۔ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کے پلڑے میں رکھنے کا میں عادی ہوں۔ خیبر پختونخوا میں جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی ۔

مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود ایم ایم اے حکومت کے خلاف ایک دو نہیں میں نے کئی کالم لکھے۔ غلط قدم کوئی اپنا اٹھائے یا بیگانہ ۔اس کی نشاندہی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ قلم کے رکھوالے ہی اگر عوامی مسائل، حکومتی نااہلی اور بے حسیوں سے صرف نظر کرکے ہر طرف واہ واہ کے پھول اگانے لگیں تو پھر یہ ملک جسے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے ۔

ترقی کیسے کرے گا۔۔؟ تم ایک شخص پر لاٹھیاں اور پتھر برساؤ اور پھر اس کو کہو کہ رونا بھی نہیں ۔ایک منٹ کیلئے خود سوچو کیا یہ انصاف ہوگا۔۔؟ نہیں ہر گز نہیں۔ سیاسی کارکنوں دوسروں پر سنگ باری کرنے سے پہلے ذرہ اپنے گریبان میں بھی تو جھانکو۔ اس ملک کے غریب عوام نے سیاسی جماعتوں اورسیاستدانوں کے لئے کیا کچھ نہیں کیا اور تم اور تمہارے سیاسی دادے و بابے ان کیلئے اب کیا کررہے ہو۔

۔؟سوچوتوسہی ۔ایم این اے اور ایم پی اے تو ویسے نہیں بنتے۔۔؟ نہ ہی کوئی پیسوں کے بل بوتے پر اسمبلی پہنچتا ہے ۔۔؟ ہر سیاستدان کی کامیابی کے پیچھے ایک نہیں ہزاروں غریبوں کا خون۔۔ محنت۔۔ دعائیں اور سرتوڑ کوششوں کی طاقت کار فرما ہوتی ہے۔ محض دولت کے ذریعے اگر ایم این اے اور ایم پی اے بننا آسان ہوتا تو لوگ دنوں کا چین و سکون غارت اور رات کی نیندیں اپنے اوپر حرام نہ کرتے۔

عوام کو چھوڑیں سیاسی کارکن ہی بتائیں کہ ہمارے منتخب ممبران اسمبلی چاہے ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ، تحریک انصاف، ق لیگ یا پھر پیپلز پارٹی سے ۔وہ الیکشن جیتنے کے بعد اب عوام کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں کیا وہ عوام کے کسی منتخب نمائندے کے شایان شان ہے ۔۔؟ غریب لوگ الیکشن کے دوران ان سیاستدانوں کی کامیابی کیلئے صرف اس لئے قربانیاں دیتے ہیں کہ یہ اقتدار میں پہنچ کر ان کے مسائل حل کریں گے۔

لیکن افسوس کہ کامیابی کے بعد ان منتخب نمائندوں کے پاس انہی غریب عوام جن کے کندھوں پر سوار ہوکر یہ اقتدار تک پہنچے ہوتے ہیں کیلئے پھرایک منٹ کاٹائم بھی نہیں ہوتا۔ میں نے اس بدقسمت ملک میں ایسے ایک نہیں درجنوں ایم این اے و ایم پی اے کو دیکھا جو اپنے ووٹروں کو بھی نہیں جانتے ۔اب خود اندازہ لگائیں جو شخص اقتدار کے نشے میں اس قدر مست ہوکہ وہ اپنے ووٹرز کو بھی نہ پہچان سکیں تو ایسے میں وہ پھر ان ووٹرز کے مسائل کیسے حل کریں گے ۔

۔؟ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں قربانیاں غریب دیتے ہیں مگرمراعات و فوائد امیر اور سرمایہ دار ڈکارتے ہیں۔ ۔قتل مظلوم ہوتا ہے ، قصاص ظالم لیتا ہے۔۔ ووٹ غریب دیتے ہیں ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز خان ۔۔نواب۔۔وڈیرے۔۔ رےئس اور چوہدری بنتے ہیں ۔ 14 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد آج تک ہم غلامی کی زنجیروں میں اسی طرح جھکڑے ہوئے ہیں۔

جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے سے ہٹ کر اس ملک میں آج ہر شخص کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی کا غلام ہے۔ دوغلی سیاست اور منافق سیاستدانوں نے ہم سے ہماری آزادی چھین لی ہے۔ مہنگائی، غربت و بیروزگاری کے باعث آج ہم سر اٹھانے کے بھی قابل نہیں رہے ۔جو لوگ گھر کا نظام چلانے اور پیٹ کاجہنم بھرنے کیلئے دوسروں کوطرف امید بھری نگاہوں سے ہی دیکھتے رہے وہ غلام نہیں تو اور کیا ہوتے ہیں ۔

۔؟نہ صرف حکمران اور منتخب ممبران بلکہ اس ملک کا ہر شخص اپنے لئے ہی سوچتا ہے ۔ذاتی مفادات کی سیاست اور امیر بننے کے کھیل نے اس ملک و قوم کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ تبدیلی کے دعوے اور وعدے تو زور و شور سے کئے جارہے ہیں مگرنظام کو سیدھا کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ جب تک ملک سے نفسا نفسی کے فرسودہ نظام کو اکھاڑ کر باہر پھینکا نہیں جاتا تب تک عمران خان ہی نہیں نواز شریف۔

۔ آصف زرداری۔۔ مولانا فضل الرحمن۔۔ سراج الحق۔۔ اسفندیار ولی اور آفتاب شیرپاؤ سمیت تمام سیاستدان اور لیڈران تبدیلی تبدیلی کے نعرے لگاتے رہیں۔ اس ملک میں کچھ نہیں ہوگا ۔ حقیقی تبدیلی لانے کیلئے سب سے پہلے اس نظام کا بوریا بستر گول کرنا ہوگا جس نے آج ہمیں غلامی کی کانٹے دار زنجیروں میں جکڑ کر ترقی سے دوربہت دور کر دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :