تحریکِ انصاف کی سیاست

جمعرات 5 نومبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

مئی ۲۰۱۳ کے عام انتخابات کے بعد سے تحریکِ انصاف کی تنزلی کا سفر جاری ہے۔ ۱۹۹۷ میں تحریکِ انصاف نے پہلی بار انتخابات میں حِصہ لِیا اور کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ پارٹی کے بانی سربراہ عمران خان نے سات حلقوں سے انتخاب لڑا اور ہر حلقے سے ناکام رہے۔ ۲۰۰۲ میں تحریکِ انصاف دوبارہ انتخابی میدان میں کودی مگر اسکے حِصے میں صرف ایک ہی سیٹ آسکی اور پارٹی کے سربراہ پہلی بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔

تحریکِ انصاف نے ۲۰۰۸ کے انتخابات کا بائیکاٹ کِیا، ورنہ نتیجہ شاید ماضی جیسا ہی نکلتا۔ ۲۰۰۸ تک کے سفر میں تحریک انصاف قومی سیاسی افق پر ابھرنے میں ناکام رہی۔ ۲۰۰۸ میں مارشل لاء کی مکمل رخصتی کے بعد میڈیا کھل کھیلنے لگا تھا۔ پیپلز پارٹی کا طرزِ حکومت میڈیا کا ہدف تھا۔

(جاری ہے)

اِن حالات میں عمران خان کو میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی ۔ میڈیا نے عمران خان کی شکل میں ایک نئے دیوتا کی پرورش شروع کردی۔

اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں نے بھی عمران خان کے لئے راہ ہموار کرنا شروع کردی۔ اکتوبر ۲۰۱۱ کا لاہور جلسہ تحریک انصاف کا نیا جنم ثابت ہُوا اور پارٹی نے اچانک گمنامی سے نکل کر ایک اہم سیاسی فریق کی حیثیت حاصل کرلی۔ اگرچہ پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے چندوں کی صورت میں بڑے سرمایہ داروں سے وسیع سرمایہ حاصل ہو رہا تھا، تاہم مقبولیت کے اِس مقام تک پہنچنے تک عمران خان اور پارٹی کی دیرینہ لیڈر شپ ہی عوام کے سامنے تھی۔

عوام بالخصوص نوجوانوں کی تحریک انصاف کے لئے وسیع حمایت عمران خان کی ذات کی وجہ سے ہی تھی اور عمران خان کی زیرِ قیادت پارٹی کی دیرینہ لیڈرشپ بھی پارٹی کے حامیوں کے لئے قابلِ قبول تھی۔ مقبولیت کے اِس مقام تک پہنچنے کے بعد عمران خان صورتِ حال کو سمجھنے اور سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر مشکوک کردار کے حامل اسٹیٹس کو سیاستدانوں کے لئے پارٹی کے دروازے چوپٹ کھول دیئے گئے۔

دیگر پارٹیوں کے دھتکارے اور ہارے ہوئے سیاستدانوں کو تحریکِ انصاف کے ماتھے کا جھومر بنادیا گیا۔ اِس طرح صرف چند ماہ میں تحریکِ انصاف نے اپنی انفرادیت کھو دی اور یہ دیگر سیاسی جماعتوں کی صف میں کھڑی نظر آئی۔ عمران خان کے ”فین کلب“ کو تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے دائیں بائیں کون کھڑا ہے، لیکن عوام اور خاموش ووٹرز یقیناً یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ ماضی کے پٹے ہوئے مہروں نے اب کیا کمال دکھایا ہے کہ ان کو ووٹ دیا جائے۔

یقینی طور پر اب تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ عمران خان یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ان کی پارٹی کو ملنے والی نئی عوامی حمایت پٹے ہوئے مہروں کی وجہ سے نہیں تھی۔ قطع نظر دیگر تباہ کن پالیسیوں کے جن پر چل کر پارٹی اس حال کو پہنچی ایک اہم وجہ پارٹی میں صاف ستھرے کردار کے حامل سیاستدانوں کے بجائے بدعنوان او ر ا سٹیٹس کو کے حامی سیاستدانوں کو شامل کرنا اور مشکوک کرداروں سے روابط بڑھانا ، سب سے بڑی وجہ ہے۔


تحریکِ انصاف کی کمزوری ، پاکستان کے تمام جمہوریت پسندوں کے لئے باعث، افسوس ہے۔ اس سے قبل ایک اور نئی جماعت ،ایم کیو ایم ایک قومی جماعت بننے کے بجائے لسانیت اور دہشت گردی سے آلودہ ہو کر محدود ہوچکی ہے۔ آج عمران خان کے لئے بہترین وقت آچکا ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کو اُس کی اصل کی طرف لوٹا ئیں اور عوام اور نوجوانوں پر بھروسہ کریں۔

ان کو چاہئے کہ فوری طور پر پارٹی انتخابات کر وا کر تمام بدعنوان سیاستدانوں اور نام نہاد الیکٹیبلز کو پارٹی سے فارغ کردیں اور خود کو اور پارٹی کو تمام مشکوک کرداروں سے دور کر لیں۔ کرپٹ لوگوں کی پارٹی سے علیحدگی سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا، لیکن ان لوگوں کی موجودگی یقیناً تحریک انصاف کو آئندہ ہونے والے انتخابات میں کسی بھی با عزت پوزیشن سے دور کردے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :