سونامیوں کے نام

منگل 3 نومبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اخلاقی فتح یا تاریخی شکست کے عنوان سے کچھ دن پہلے قومی اخبارات میں چھپنے والا میرا کالم کیا واقعی تعصب پر مبنی تھا۔۔؟ کیا وہ کالم پی ٹی آئی مخالف لابی کی فرمائش پر لکھا گیا۔۔؟ کیا اس کالم لکھنے کی واقعی میں نے کوئی قیمت وصول کی۔۔؟ یا اس کالم کے ذریعے میں نے کوئی اور مفادات حاصل کئے۔۔؟ میرے کالم پر سیخ پا اور غصے سے لال پیلے تحریک انصاف کے چند سونامیوں کے ان بے ہودہ اور بے سروپا الزامات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

مدہوشی کے عالم میں پی ٹی آئی ورکروں کے منہ سے نکلنے والے ناپاک الفاظ پر میں نے اپنے ضمیر کو سر سے پاؤں تک ٹٹولا۔ دن اور رات۔۔ روشنی اور تاریکی۔۔ محفل اور یکسوئی میں میں نے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں ملے۔

(جاری ہے)

جس شخص نے حق و سچ کیلئے اپنی جان ہمیشہ ہتھیلی پر رکھی ہو ۔جس شخص نے صحافت کے میدان میں پرخاروادیوں کے سوا آج تک کچھ دیکھاہی نہ ہو۔

پندرہ سال سے لکھتے لکھتے جو شخص آج بھی دوسروں کا مقروض اور بنک بیلنس اس کا زیرو ہو۔ پھر پندرہ سالہ ریاضت۔۔ خدمت اور عبادت کو وہ بھلا کیسے چندٹکوں پر نیلام کر سکتا ہے۔ نیلام کرنا تو دور ایسا سوچنا بھی میں کفر سمجھتا ہوں۔ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری اوقات اور میری قیمت کیا ہے۔۔؟ بارہ سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت روزنامہ جناح میں کالم لکھتا تھا۔

ایک صاحب نے فون کیا اور فرمائش کی کہ میں 10 ہزار روپے میں اس کیلئے کوئی کالم لکھوں۔ اس وقت 10 ہزار روپے کی بڑی اہمیت اور قدر تھی لیکن خالی پاکٹ اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود میں نے اس کو صرف ایک جملہ کہا وہ جملہ کیاتھاآپ بھی پڑھیں۔یہ کہ میں نے فی الحال مداریوں والا کام شروع نہیں کیا ہے جب شروع کیا تو پھر میری قیمت لگا دینا۔

پی ٹی آئی کے کارکن یہ بھول رہے ہیں کہ وہ آج جس کی قیمت لگانے کے بارے میں رائے زنی کر رہے ہیں وہ بے قیمت ہے۔ انسان اور ضمیر کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اگر کوئی قیمت لگے تو یہ پھر انسان اور ضمیر نہیں لنڈے کا مال بن کر رہ جاتے ہیں۔ میں نے اپنے ضمیر کو ابھی تک لنڈے کا مال نہیں بنانے دیا۔ میں چاہتا تو پندرہ سال پہلے اپنے ضمیر کی قیمت لگا کر خود کو لنڈے بازار میں چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، چوہدریوں، خانوں،نوابوں اور رئیسوں کیلئے وقف کر دیتا۔

اس طرح میں ان پندرہ سالوں میں لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کما کر ضمیر فروشوں کی طرح آج قیمتی بنگلوں اور گاڑیوں کا مالک ہوتا لیکن میں نے اپنی ماں کے حکم پر بھوک اور پیاس کو تو گلے لگایا مگر اپنے ضمیر کو کبھی نیلام نہیں ہونے دیا۔ اس لئے میں نے جو کالم لکھا وہ صرف اورصرف میرے ضمیر کی آواز تھی کیونکہ میں صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہوں۔

میرے ہاں کسی کی بے ہودہ فرمائش کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ حقیقت کے عین مطابق اور تعصب سے مکمل پاک تھا۔ تعصب پر میں پہلے بھی لعنت بھیجتا تھا اور آج بھی تعصب پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں۔ حق و سچ کی لڑی میں پروئے ہوئے الفاظ کو مخالف لابی کی کارستانی یا تعصب قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ تحریک انصاف سمیت کسی سیاسی پارٹی کا میں مخالف نہیں نہ ہی مسلم لیگ ن سمیت کسی پارٹی کا حمایتی ہوں۔

کیونکہ قلم کار کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی۔ عوام اور قارئین ہی کسی قلم کار اور کالم نگار کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر اگر حق و سچ کو تولنے کی کوشش کی جائے تو پھر قلم کا حق ادا نہیں ہوتا۔ قلم سے رشتہ جوڑنے سے پہلے میں خود پی ٹی آئی کا ورکر رہا ہوں، میں آج بھی عمران خان کا بہت بڑا شیدائی ہوں لیکن حق و سچ اور عوام کی آواز کو میں نے کبھی اپنی خواہشات کے سائے تلے دبنے نہیں دیا۔

میرا دل چاہے جس خواہش کا بھی اظہار کرے پر میرا ضمیر ہمیشہ عوام کی آواز پر لبیک کہتا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میں شروع سے لے کر آخر تک عمران خان اور تحریک انصاف کی ثناخوانی بیان کروں مگر میرا ضمیر اور عوام اس کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ عمران خان نے بلندو بانگ دعوے کرنے اور نعرے لگانے کے سواکونساتیرماراہے۔۔؟ غریبوں کی امیدوں اور امنگوں پر پانی پھیرنا تبدیلی اور انصاف نہیں۔

عمران خان تو اپنے ورکروں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکے وہ عوام کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔۔؟ سونامیو تم اپنے کپتان سے بٹگرام کے براہ خان کے بارے میں پوچھو، عمران خان آج بھی براہ خان کو اچھی طرح جانتے ہونگے۔ بٹگرام کا وہ براہ خان جو اقتدار میں آنے سے پہلے ہر جلسے اور جلوس میں عمران خان کے ساتھ ہوتے تھے ۔۔وہ براہ خان جس نے پی ٹی آئی کے آج کیلئے اپنا کل قربان کیا۔

آج وہ براہ خان عمران خان کی بے انصافی کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کیلئے عبرت کانشان بنا ہوا ہے۔ سونامیو۔ بٹگرام میں موجود وہ براہ خان جو آج اپنی ذات تک محدود ہو گیا ہے یہ وہ براہ خان ہے جو عمران خان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر عوام کی تقدیر بدلنے کی بات کرتے تھے مگر افسوس کہ پی ٹی آئی کے بے مثال انصاف کی وجہ سے وہ اپنی تقدیر بھی نہ بدل سکیں۔

تحریک انصاف کیلئے قربانیاں تو براہ خان جیسے نظریاتی کارکنوں نے دیں لیکن جب عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آگیا تو پھر براہ خان جیسے کارکنوں کو پیچھے دھکیل کر نوابوں اور شہزادوں کو ٹکٹ دے دئیے گئے۔ جس کی وجہ سے پھر براہ خان جیسے کارکن جیتے جی مرنے پر مجبور ہوئے۔ سونامیو قیمتیں تم لگاتے بھی ہو اور لیتے بھی ہو۔ یہ کام تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ معلوم نہیں تمہاری ان قیمتیں لگانے کی وجہ سے اس بدقسمت ملک میں کتنے براہ خان روزجیتے اورروزمرتے ہونگے۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :