تھپڑ اور تھپیڑے

بدھ 28 اکتوبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

قدرت کی طرف سے ایک اور تنبیہ ،آٹھ اعشاریہ ایک کی شدت سے ،مسلسل ساٹھ سیکنڈتک آنے والا زلزلہ ،ماہرین کی رائے کے مطابق اگر اس کی زیر زمین گہرائی 193کلو میٹر نہ ہوتی تو پتا نہیں کیا قیامت ڈھاتی،اکتوبر 2005میں اس سے کم شدت اور کم دورانیے والا زلزلہ پون لاکھ لوگوں کو لے کر چلتا بنا تھا،تب زیر زمین گہرائی 26کلو میٹر بتائی گئی تھی۔تجزیہ کار ، تبصرہ نگار ،قلم کاراس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ حکومت نے دس سالوں میں کیا سیکھا، عوام نے کیا سیکھا، عمارتیں کتنی مضبوط بنائی جا رہی ہیں ، زلزلے کے نقصان سے بچاؤ کی کیا تدابیر اختیار کی گئیں، حکومت کتنی متحرک ہے ، عوام کتنے تعلیم یافتہ ہوئے ، دوسرے ممالک میں آنے والے اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں میں اس سے کم نقصان کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جا رہا ہے ، کہ وہاں کم نقصان کیوں ہوئے ، یہ زیادہ کیوں ہیں۔

(جاری ہے)


اچھی بات ہے، یہ سب بھی ضروری ہے ، اگر گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لیے مضبوط مکانات بنائے جاتے ہیں، دوسرے حادثات سے بچاؤ اور نقصان سے حفاظت کی تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں تو زلزلے میں نقصان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں کیا ہرج ، ضرور کرنی چاہییں، اس کا جائزہ بھی لینا چاہیے اس بابت لوگوں کو بتانا بھی چاہیے لیکن کسی ایک تجزیہ کار اور تبصرہ نگار نے اس طرف بھی توجہ دی ، کہ عوام اور رہ نماؤں نیپچھلے زلزلے سے کیا سیکھا ، توبہ و استغفار ، اعمال کی درستی کتنی کی ، خدا ترسی اور خدا خوفی ،کتنی آئی ، یہ خیال کس کس کو اور کتنا رہا کہ اگر موت آئے تو اچھی حالت میں آئے۔

کسی نے یہ بھی غور کیا کہ عین زلزلے کی تباہ کاریوں کی خبریں سنانے اور مناظر دکھاتے وقت کسی ٹی وی چینل نے ایسا کوئی اشتہار نہیں روکا جو مصنوعات کی تشہیر سے زیادہ بے حیائی کی اشاعت کے اشتہار لگتے ہیں۔
####
ہمیں فخر ہے ، ہم بہادر قوم ہیں،سیلاب ،طوفان، زلزلے ، بم دھماکے ، خوف ناک حادثے ،ڈینگی اور گردن توڑ جیسے بخار،کئی دیگر جان لیوا بیماریاں ۔

سیلاب کے تھپیڑے ہوں یا زلزلے کے تھپڑ،اس قوم کے رہ نماؤں کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ، ہم مقابلہ کریں گے ۔ہم بہادروں کو کبھی یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ یہ تھپڑ اور تھپیڑے قدرت کی طرف سے عذاب اور تنبیہ ہوا کرتے ہیں ، اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت کہ زلزلے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں یا زمین کے اندر جمع ہونے والے بخارات جب حد سے بڑھتے ہیں تو زلزلہ آجاتا ہے ، اس پر کیوں توجہ نہیں کرتے کہ جب زلزلہ آتا ہے تو ہر زبان پر اللہ کا نام ، کلمہ اور اللہ اکبر کیوں جاری ہو جاتا ہے ، بہادر قوم کو یہ سوچنے اور سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ موت کی تیاری بھی کرنی چاہیے اور یہ خیال بھی کہ موت سے پہلے بیماری اور توبہ کے مواقع ملنا ضروری نہیں، ہر زلزلے اور حادثے میں ہونے والی اموات بڑی محبت سے ایک پیغام دیتی ہیں۔


چوکھٹے قبر کے خالی ہیں،انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
####
اس کا احتساب ضروری ہے کہ سیلاب اور زلزلے کے وقت متاثرین کا اصلی خدمت گار کون کون ہے اور فصلی مجنوں کون کون سے ہیں ،جن کا جنوں اپنی ذات سے لے کر اپنی جناب پر ختم ہو جاتا ہے۔ حکومت کہاں کہاں سے کتنا کماتی اور کتنا لگاتی ہے، اس کے کل پرزے جیبیں کتنی بھرتے اور عوام کو کتنا دیتے ہیں، ہرزلزلے اور سیلاب کے بعد دکانیں سج جاتی ہیں،پیار کے نام پر پیار سے پیاروں کو لوٹا جاتا ہے، پیارے خوشی خوشی لٹتے ہیں ، لٹنے سے پہلے لوٹنے والے کی شکل اس کا ماضی اوراس کا کردار ضرور دیکھنا چاہیے، صرف اس سے محبت کافی نہیں۔


####
سب بن سکیں تو سبحان اللہ !کیا کہنے ،لیکن کچھ اللہ والے ایسے ضرور ہونے چاہییں جن پر بس یہی دھن سوار ہو کہ شرم و حیا کا اتناپرچار کیا جائے کہ بے حیاؤں کی دال نہ گلنے دی جائے ، حکومت بھی ان اداروں پر کڑی نظر رکھنے کی پابند ہے جو ایسے حادثات کے بعد قوم کی حیا اور غیرت کا سودا بھی کرتے ہیں، عزت و وقار کا بھی ،خود داری و وفاداری کا بھی اور خود مختاری و رواداری کا بھی۔


####
ذرا ایک نظر ادھر بھی کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف سرکاری اور عوامی وسائل آپس کی رسّا کشی ، ایک دوسرے کی گردنیں ناپنے ، ٹانگیں کھینچنے اور اپنی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے ملک و قوم کی ترقی اور مضبوطی پر لگائیں تو ایسے حادثات روکے تو نہیں جا سکتے لیکن نقصانات کی شدت میں بھی کمی ہو سکتی ہے اور وقت پڑنے پر غیروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :