نشاة ثانیہ کی تحریک !

اتوار 18 اکتوبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پندرھویں اور سولہویں صدی میں یورپ میں دو اہم تحریکوں نے جنم لیا ۔ renaissance(نشاةثانیہ)اور reformation (اصلاح مذہب)۔ پہلی تحریک نشاة ثانیہ کی تھی اور اس کا آغاز 1453میں ترکوں کے فتح قسطنطنیہ سے ہوتا ہے ۔ جب ترکوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تو یونانی عالم اپنے تمام قدیم مسودات کے ساتھ یورپ بھاگ گئے ،یہ مسودات قدیم یونانی اور رومی علوم پر مشتمل تھے ، ان عالموں نے یورپ جا کر وہ تمام علوم اہل یورپ کو پڑھائے اور اس طرح یورپی عوام کوقدیم یونانی اور رومی علوم کی ہوا لگی ۔

دوسری طرف صلیبی جنگوں کے نتیجے میں اہل یورپ کا مسلمانوں کے ساتھ میل جول بڑھا تو اس سے بھی انہیں علم کے ساتھ دلچسپی پیدا ہوئی۔ قدیم یونانی فکر میں انسان کو مرکزیت حاصل تھی اور ساری یونانی فکر انسان کی مرکزیت کے گرد گھومتی تھی ۔

(جاری ہے)

پانچویں سے پندرھویں صدی میں جب یونانی اور رومی علوم کو زوال ہوا تو انسان کی مرکزیت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ کلیسا اور چرچ کے مختلف عقائد نے لے لی جس میں انسان کو غلا م بنا کر رکھ دیا گیا ۔

لیکن اب پھر قدیم یونانی فکر دوبارہ جنم لے رہی تھی ۔ قرون وسطیٰ میں یورپ کا ذہن مر گیا تھا جو اب دوبارہ زندہ ہونے جا رہا تھا ۔ قرون وسطیٰ کا یورپی معاشری مکمل طور پرمذہبی ، سیاسی اور معاشی جبر میں جکڑا ہواتھا ۔ یہ وہ صورتحال تھی جس نے یورپی معاشرے میں نشاة ثانیہ کی راہ ہموار کی ۔ پندرھویں صدی کے اختتام پر جب یونانی فکر اور رومی علوم و فنون کی دولت اہل یورپ کے ہاتھ لگی تو ان کا ذہنی شعور پختہ ہونے لگا ۔

صلیبی جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے بھی اہل یورپ کو اپنی اہمیت اور اپنے حقوق کا احساس ہوا ، انہیں اسلامی علوم و فنون کی ہوا لگی ، بہت سارے اسلامی علوم یورپی زبانوں میں ترجمہ ہو کر پو رے یورپ میں پھیل گئے ۔ ابن رشد، بو علی سینا، رازی اور ابن الہیثم مغربی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بن گئے ۔ اسلام کے زرین اصولوں نے اہل یورپ کو بہت متائثر کیا ۔

قدیم یونانی علوم اور جدید اسلامی فکر نے یورپی معاشرے کو ایک نئی زندگی دی ، انہیں اپنی عزت نفس اور اپنے حقوق کا احساس ہوا ۔ انسانی عقل جب وحی کے علوم کے بغیر صرف اپنے ذاتی ادراک سے جب کسی راہ کا انتخاب کرتی ہے تو وہ یقینا دھوکا کھا جاتی ہے اور اہل یورپ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ قدیم یونانی علوم کی دریافت کے بعد یورپ ایک بار پھر انسانیت پرستی کی راہ پر چل نکلا ، انسانی خوہشات کی تکمیل اولین ہدف قرار پائی ، ساری کائنات کو انسان کے مطیع ہونے کی حیثیت سے دیکھا جانے لگااور انسانی خواہشات کی تکمیل میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ خواہ وہ مذہب تھی یا کوئی اور اسے یکسر نظر انداز کر دیا گا۔

اس انسانیت پرستی کے بطن سے ایک ذیلی تحریک نے جنم لیا جسے humanism(انسانیت پرستی ) کا نام دیا گیا ۔ نشاة ثانیہ کی تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے چرچ اور کلیسا کی مسخ اور تحریف شدہ تعلیمات پر عمل ہوتا تھا اب انسانی عقل کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی ۔ انسانیت پرستی شروع ہوئی تو جدیدیت نے بھی پر پرزے نکالے ، خدا کے بارے میں اگرکوئی عقیدہ تھا بھی تو وہ بھی محض رسمی رہ گیا ، آخرت کا انکا ر کیا گیا ۔

قرون وسطیٰ میں اگرچہ مذہب کے ماننے والے بہت کم تھے لیکن اب سرے سے ہی مذہب کا انکار کر دیا گیا ،خدا ، آخرت اور جنت و جہنم چونکہ نظر نہیں آتے تھے اس لیئے ان کا انکار آسان ٹھہرا۔ اس فکر کا آغاز سب سے پہلے انگریز مفکر اور فلسفی ”بیکن “ نے کیا ۔قرون وسطیٰ میں بائبل پر اگرچہ چرچ اور کلیسا کی اجارہ داری تھی لیکن عام شہری کے لیئے اس کا انکار مشکل تھا لیکن اب یہ فلسفہ گھڑ اگیا کہ آسمانی کتابیں ایک نہیں دو ہیں ، ایک بائبل اور دوسری فطرت لہذا فطرت کا مطالعہ بھی بہت ضرور ی ہے ۔

بلکہ اب تو یہ کہا جانے لگا کہ بائبل کا مطالعہ فطرت کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب مطالعہ فطرت کی طرف خاص طور پر توجہ دی گئی ، کائنات کے حسن اور رنگینیوں سے لطف اندوز ہو اجانے لگا ، نئے ادیب اور شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے فطرت کی رنگینیوں پر مبنی لٹریچر تخلیق کیا ، انسانیت پرستی کے ساتھ ساتھ اب فطرت پرستی کا بھی دور شروع ہو چکا تھا۔

بات تھوڑی آگے بڑھی تو فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں بلکہ تسخیر کائنات کے نقطہ نظر سے ہونے لگا۔ بیکن نے مطالعہ فطرت کے اصول وضع کیئے کہ اشیا ء کی حقیقت صرف مطالعے او ر مشاہدے سے ہی سمجھ میں آ سکتی ہے لہذا جو چیز مشاہدے اور حسی تجربے میں نہ آسکے اس کا وجود ناممکن ہے ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ خدا، مذہب، پیغمبر، معجزات، جنت و جہنم اور آخرت کا انکار کر دیا گیا ۔

مطالعے کا یہ طریقہ سائنسی طریقہ کار کہلا یا ۔ مطالعہ برائے تسخیر فطرت کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ تسخیر فطرت سے مراد طاقت کا حصول لیا جانے لگا، طاقت کا حصول اس دور کا سب سے بڑا اور اہم اصول قرار پایا ۔ ہر انسان کے لیئے لازم تھا کہ وہ اپنی امکانی حد تک طاقت حاصل کرے خواہ وہ کسی بھی شعبے اور کسی بھی طریقے سے ہو ۔ طاقت کے حصول کی دوڑ میں اخلاقیات کا انکار شروع ہوا ، اخلاقیات طاقت کو اپنی حد تک رہنے کا درس دیتی ہیں لیکن جب طاقت لامحدود اور آزادہوئی تو اخلاقیات نے دم توڑ دیا ۔

اب طاقت ہی نئی اخلاقیات کا منبع قرار پائی اور ایسی ہی طاقت کو اٹلی کے مفکر میکاولی نے پروان چڑھایا ۔ اب ایک نیا فکری رجحان پروان چڑھا ، قرون وسطیٰ میں خدا کے وجود کا اقرار موجود تھا لیکن اس کی تلاش اور اسے پانے کے طریقے مختلف تھے ، حق کی تلاش اور جستجو جاری تھی لیکن اب حق کے وجود سے ہی انکا رکر دیا گیا ۔ اس فکر کی ترجمانی فرانس کے مفکر مونٹسکو نے کی ، اس نے کہا انسانی ذہن کا کمال یہ نہیں کہ وہ حق اور سچ کو پالے بلکہ انسانی ذہن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھے ، ا ب یہ شک کا فلسفہ مغربی فکر کا لازمی حصہ بن گیا ۔


نشاة ثانیہ یا انسانیت پرستی کی تحریک نے فر د کو چرچ ، بادشاہ اور جاگیر دار کے چنگل سے نکال کر آذاد چھوڑ دیا ۔ اب ایک نئے انسان کی دریافت ہوئی جو مذہبی عقائد، روایات ، سیاسی جبر اور جاگیر دار کے معاشی تسلط سے آذاد تھا ۔ اہل علم یورپ کی نشاة ثانیہ کی اس تحریک کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں ، ایک گرو ہ کا کہنا ہے کہ یہ تحریک واقعی احیا کی تحریک تھی اور اس نے مغرب کو دوبارہ سے زندہ کر دیا تھا ۔

اسلامی اور یونانی علوم کے احیا ء سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا ۔ علوم و فنون کی ایک نئی لہر اٹھی جس نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک یہ تحریک مذہب سے دوری کا پیش خیمہ ثابت ہوئی،کیونکہ قرون وسطیٰ میں تحریف شدہ ہی سہی لیکن عیسائی تعلیما ت پر عمل کیا جاتا تھا اور عیسائیت کو معاشرے میں تقدس حاصل تھا لیکن نشاة ثانیہ کی تحریک نے آکر ان مذہی علوم و روایات کوپس پشت ڈال کر قدیم یونانی فکر اور انسانیت پرستی کا آغا زکیا ۔

خدا، مذہب اور تمام غیر حسی موجودات کا انکار کر دیا گیا ۔ تسخیر فطرت کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا اور شک کے فلسفے کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہی وہ فکری بنیاد تھی جس پر آگے چل کر لبرلزم اور سیکولرزم کی عمارت کھڑی کی گئی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :