کتا نکالو

اتوار 18 اکتوبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

بگاڑ جب اپنی انتہاکو چھونے لگے تو قدرت معاملات کو سدھار کے راستے پرڈال ہی دیتی ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں رینجرز کے خلاف اشتہاری مہم چلانے سے متعلق جو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی اس نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں ۔ تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ رینجرز کے خلاف اشتہارات ایک سوچی سمجھی ساز ش تھی اور ڈی ایس پی فخر الاسلام اور ایس پی ویسٹ لطیف صدیقی براہ راست اس کے ذمہ دار ہیں ۔

میں مگر یہ بات ماننے کو تیارنہیں کہ ایک ڈی ایس پی یا ایس پی یا پولیس کے چند افسر مل کر بھی رینجرز کے خلاف ایسی بے باکی کا مظاہر ہ کرسکتے ہیں ۔ آج نہیں تو کل یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ اس ساز ش کے ماسٹرمائنڈ وہ عناصرہیں جن کو رینجرز کے آپریشن سے خوف لاحق ہے اور وہ اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزکی مداخلت کا رونا رو رہے ہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ان کے رونے سے یہ آپریشن رکنے والا نہیں
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کراچی آپریشن کو شروع ہوئے تیرہ ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران ذمہ دار ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اب تک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف صر ف کراچی میں جوآپریشنز کئے گئے ان میں رینجرز نے گیارہ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے تقریباََ چھ ہزار کو تحقیقات کے بعد بے گناہ ہونے یا معمولی الزامات کی بنا پر رہا کیاجا چکا ہیاور باقی پولیس کے حوالے کر دئے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

پولیس کی حراست میں موجودملزموں کے خلاف مقدمات بھی زیر سماعت ہیں ۔ آپریشن شروع کرتے وقت شائد اس کے منتظمین کو بھی معلوم نہیں تھا کہ بعد میں ان کی حالت ” تیرے دل میں تو بہت کام رفوکا نکلا “ جیسی ہوگی ۔ رینجرز کے ہاتھوں پکڑے جانے والے بہت سے افراد نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا آلہ کار ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے ۔ تاہم اپیکس کمیٹی اور رینجرز کی کاوشوں کے باوجود اب تک بہت کم مجرم ہیں جن کو عدالتوں سے سزا سنائی گئی ہے ۔

تاہم اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کے حالات جنوری دوہزار تیرہ کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں تو یہ عین انصاف ہوگا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کا سیاسی انتقام کا واویلا بھی دم توڑتا نظر آرہا ہے کیونکہ اس کو عوام اورمیڈیا میں پذیرائی نہیں مل سکی ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے تو آج تک یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ اس کاکوئی کارکن کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ الطاف حسین یہ بات برسرعام فرما چکے ہیں کہ ”اگر کسی نے کچھ کیاتھا تو ادھر ادھر ہوجاتا نائن زیرو آکر دوسروں کو مشکل میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی ۔

“ویسے بھی جو جماعت یہ نہ جانتی ہو کہ اس کے ”سیکٹر کمانڈر“ ( کمانڈر سیاسی جماعتوں میں نہیں مسلح تنظیموں میں ہوتے ہیں ) ان کو بتائے پوچھے بغیر ہی بھارت جار ہے ہیں وہ یہ بات کیسے تسلیم کر سکتی ہے کہ اس کے کارکن کسی قسم کی امن دشمن کارروائی میں ملوث ہیں۔پیپلزپارٹی کے دانشور رہنما اورچیئرمین سینیٹ بھی بھٹو کی نقل کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے نوجوانوں میں پیپلزپارٹی کے روح پھونکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ تسلیم کر بیٹھے کہ ان کی جماعت کے رہنما کرپشن میں ملوث ہیں ، یہ اعزاز بھی پیپلزپارٹی کو ہی حاصل ہے کہ اس کی ایک وزیر نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے کھلے عام یہ اعلان کیا تھا کہ انہیں بدعنوانی اور لوٹ مار کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔


رینجرز آپریشن کے بعد یہ تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ کراچی کے حالات میں بہتری نہیں آئی ۔گوشہر قائد کی رونقیں پوری طرح بحال نہیں ہوئیں لیکن کراچی کے باسی اب گھر سے نکلنے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ انہیں باہر جانا چاہیے یا نہیں ۔معاشی سرگرمیوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد کراچی کی سڑکوں پر نئی موٹر سائیکلیں بھی نظر آتی ہیں۔

خوف اب کراچی کے باسیوں کے ذہن سے چھٹ چکا ہے ۔
ایم کیو ایم کا واویلا کسی حد تک بجا بھی ہو سکتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن کا پس جانا کوئی عجیب بات نہیں اور کسی حد تک اس کا ذمہ دار ” نا بالغ میڈیا “ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص شک کی بنا پر گرفتار ہوتا ہے تو اس سے پہلے کہ اس پر کوئی الزام ثابت ہو ٹی وی سکرینوں پر چھائی لالی اسے عوام کے کچے ذہنوں میں خونخوارثابت کر چکی ہوتی ہے ۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ رینجرز غلط خطوط پر کام کررہی ہے کیونکہ بہتری کی گنجائش لیکن ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ کراچی میں رینجرز اور کتنا عرصہ رہے گی ؟بنیادی طور پر شہر یا صوبے میں قیام امن پولیس کا کام ہے نہ کہ رینجرز کا۔ آج یا سال دو سال بعد رینجرزکراچی آپریشن کے مقاصد پورے کر کے واپس چلی جاتی ہے تو اس امن کو برقرار کیسے رکھاجائے گا؟ جی نہیں پولیس اس قابل نہیں ہے ،ہوتی تو حالات اس نہج پر کیوں آتے ؟پولیس اس قابل ہو بھی نہیں سکتی کہ سیاسی مداخلت نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔

سب جانتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں وہ صرف اس لئے ناکام ہوئیں کہ پولیس کو قانون اور ضابطے کے مطابق کام کی آزادی نہیں دی گئی بلکہ قدم قدم پر انہیں لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جن کا کام اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری لانا تھا۔اب بھی صورتحال یہ ہے کہ دھڑا دھڑ آپریشن ہو رہے ہیں اور بندے پکڑے جارہے ہیں ،کچھ چھوڑے جا رہے ہیں اور بعض کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں ۔

لیکن پولیس کے کنویں سے سیاسی مداخلت کا کتا کوئی نہیں نکال رہا۔ اس لئے صاحبان
اختیار کو چاہیے کہ وہ کنویں سے پانی نکالنے کی بجائے پہلے کتا نکالیں۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ جب تک پولیس کو جدید خطوط پر تربیت دے کر قانون کے مطابق کام کرنے کی آزادی نہیں دی جائے گی کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا ممکن نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :