ہمیں ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت ہے

اتوار 18 اکتوبر 2015

Muddasir Latif Abbasi

مدثر لطیف عباسی

ہمارے ہاں ہزاروں نہیں لاکھوں جوان ایسے ہیں جو ملک کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے پر فخرمحسوس کرتے ہیں ۔وسائل کے اعتبار سے بھی یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک بہترین ایڈمنسٹیٹر کی ۔ دنیا کے چند بہترین ایڈمنسٹیٹرمیں سے ایک جناب عمر تھے۔ ۲۲ لاکھ مربع میل پر ۱۰ سال تک حکمرانی ،فوج کی تشکیل نو ،پولیس کے محکمے کا قیام ، انٹیلی جنس کے نظام کی تنظیم نو،بیت المقدس کی فتح ،عالمی طاقتوں کو زیر کرنا، ۲۲لاکھ مربع میل کے طول وعرض میں تعلیم کے فروغ کے لیے درسگاہوں کا قیام ،فوجی چھاونیوں کا قیام ، بچوں کی پیدائش پر وظائف کا اجراء ،اس سبھی کے پیچھے ایک بہترین دماغ تھا آج ہمیں بھی اسی طرح کے دماغ کی ضرورت ہے۔

جناب عمر کے اندر وہ تمام تر خصوصیات بدرجہ اولی پائی جاتی تھیں جو ایک ریاست کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہیں ۔

(جاری ہے)


اندرا گاندھی تو اپنی کابینہ کو جناب شیخین (سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر )کی تقلید کرنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جناب عمر کو آج کے تناظر میں دیکھنا ہوگا اگرکینیڈین ممالک Umer lawsکو اپنا سکتے ہیں تو ہمارے ہاں ایسی کون سی مجبوری ہے کہ ہم ان قوانین کو اپنانے سے قاصر ہیں ۔

مشہور یہودی مورخ نے ویسے ہی نہیں کہا تھا کہ اگر دنیا میں ایک اور عمر آجاتا تو روئے زمین کے اوپر سے یہودیت کا نام و نشان مٹ جاتا۔
آج مغرب نے اکثر قوانین کو سیدنا عمر سے لیا ہے۔ پر ایک مسلم ریاست میں سیدنا عمر کو بد قسمتی سے وہ حیثیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔آج ان کے ہاں سیدنا عمر کی اولیات اور ان کے عہد حکمرانی پر ریسرچ ہو رہی ہے۔

مختلف یونیورسٹیزمیں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ہمارے ہان شاید یہ معاذاللہ فضول موضوع سمجھے جاتے ہیں ۔اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم ترقی ،ترقی کے راستے سے کرنا نہیں چاہتے اور وہ ترقی کی راہ پہ گامزن ہیں ۔ وہ سنجیدہ اور ہم غیر سنجیدہ ہیں ۔
دوسرا آج ہمیں اپنی صفوں میں موجود آل فیروز کو پہچاننا ہوگا۔ سیدنا عمر پر ابو لولو فیروز مجوسی کا حملہ در حقیقت مدینہ منورہ کی ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ایک کوشش تھی ۔

جس کے پس پشت اس وقت کی عالمی طاقت ایران کی مہربانیاں کار فرما تھی ۔ آج بھی اگر غو ر وفکر کیا جائے تو یہ بات واضح ہورہی ہے کہ حکومتی سطح پر ہونے والے مزاکرات کی سب سے ذیادہ تکلیف آل فیروز کو ہے۔ مختلف پلیٹ فارم پر وہ مزاکرات مخالفت کا اظہار کر چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پاکستانی ریاست کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ؟؟؟
بات صاف سی ہے آج ہمیں جناب عمر کے اصول اپنانے پڑینگے ۔لعل و لیت سے کام آخر کب تک چلے گا ؟؟؟جناب عمر کی طرح سچی بات کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی لیکن سچی بات کرنے کے لیے ایمان کا ہونا شرط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :