کارکنوں کو نظرانداز کرنے کی روایت

جمعہ 16 اکتوبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

2013 ء کے عام انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو سرگودھاڈویژن میں(موجودہ برسراقتدار) مسلم لیگ کو دو تین نشستوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا مگر پھر صورتحال تبدیل ہوتی چلی گئی آزاد حیثیت سے منتخب ہونیوالوں نے دھڑادھڑن لیگ کا رخ کرناشروع کردیا ۔ (تقریباً یہی صورتحال جنوبی پنجاب کی رہی )جن علاقوں مسلم لیگی امیدواروں کو شکست اورآزاد کو کامیابی ملی وہاں کے منتخب اراکین اسمبلی کی ن لیگ میں شمولیت کے بعد کارکنوں کی طرف سے شکایات بھی سامنے آتی رہیں مگر اقتدار کی گھمن گھیریوں میں گھری ن لیگی قیادت کوہوش تک نہ آیا۔

نہ صرف بلکہ معروف قانون دان رفیق احمدخان نیازی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے روبرو رٹ دائر کی کہ عوام نے جن علاقوں میں ن لیگی امیدواروں کو مستردکردیا ہے وہاں آزاد حیثیت سے منتخب ہونیوالوں نے ن لیگ کا رخ کرکے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔

(جاری ہے)

مگر سنتا کون ؟؟آج اڑھائی سال مکمل ہونے کے باوجود ان کی شنوائی نہ ہوسکی البتہ کارکنوں کی شکایات کاازالہ نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب خاص طورپر جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ کو بلدیاتی انتخابات میں عجیب صورتحال کا سامنا ہے۔

آزاد حیثیت سے منتخب ہوکر ن لیگ کا رخ کرنیوالے وڈیروں‘ سرداروں کے چیلے چہیتوں کو تون لیگ کے ٹکٹ مل گئے مگرکارکنان کو یاتوآزاد حیثیت سے یا پھر کسی دوسری جماعت کی چھتری تلے الیکشن لڑناپڑرہاہے۔ بلکہ بعض مقامات پر ن لیگ کے عہدیداران(تاحال) تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں ۔اس امر سے دوباتیں واضح ہوگئیں کہ سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں کو اہمیت تک نہیں دی جاتیں دوسری بات کہ جماعتی اورپارلیمانی سیاست الگ الگ نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے محض اسی لئے ہی جماعتوں کارخ کیاہوا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیاجائے یعنی اس کے علاوہ جماعت سے انکاکوئی تعلق بھی نہیں
یہ پاکستانی سیاست کا وہ رخ ہے جس پرسیاستدان خود بھی شرمسار نظرآتے ہیں لیکن ظاہراً اظہار نہیں کیاجاتا سیاست اورشرم کو الگ الگ معنوں میں لیاجاتا ہے۔

بلکہ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ سیاستدان اورشرم دو الگ الگ چیزیں ہیں جنہیں یکجاکرکے دن کورات اوررات کو دن میں مدغم کرنے والی بات ہوجائیگی۔ سیاستدانوں اورسیاست کی جب کبھی بھی بات کی جائے تو کرپشن کاذکر آتاہے اورپھر اس شعبہ سے منسلک لوگوں کو شکوہ رہتاہے کہ کرپشن تو دیگر انتظامی شعبوں میں بھی پائی جاتی ہے‘ سرکاری افسران وغیرہ وغیرہ (اس وغیرہ وغیرہ میں ایسے ادارے بھی شامل ہیں جن کا سرعام نا م لینا توہین کے زمرے میں آتا ہے ) کی کرپشن کی بات نہیں کی جاتی ۔

مانا کہ کرپشن ہرشعبہ اور ہرادارہ کی رگوں میں سرایت کرچکی ہے بلکہ من الحیث القوم ہمار ا شمار کرپشن کے حوالے سے اولین نمبروں پرہوتاہے۔ خیر کرپشن کاذکر چھوڑکر جب سیاسی ”ٹامک ٹوئیوں “ کاذکر کیاجائے تو اس شعبہ کوکئی مقامات پر انفرادیت حاصل ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اوپری سطور میں ذکر کرچکے ہیں کہ یہاں نظریات کی موت اور مفادات کو زندگی ملتی ہے اور پھر خلوص ‘محبت کے سامنے طاقت اورپیسہ کی ہی جیت ہوتی ہے۔

اگر یہ صورتحال نہ ہوتی تو ماضی کی حکمران جماعتوں کو اپنے کارکن ڈھونڈنے کیلئے دوربینوں کااستعمال نہ کرناپڑتا
صاحبو! اس وقت ملک بھر میں دو ہی جماعتوں کاطوطی بول رہاہے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ‘ دونوں نظریات اورمفادات کے حوالے سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ گو کہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کی طرح بھرپور اقتدار نہیں ملا مگر ایک صوبے کی حاکمیت ضرور ہاتھ آئی ہے جہاں کے کارکنوں کوشکوہ ضرور ہے ۔

تاہم اگر مسلم لیگ کی بات کی جائے تو اس وقت ملک بھر میں یہ جماعت آزاد فضاؤں میں دندناتی پھرتی نظرآتی ہے ہرسولوگوں کوجمگھٹا بھی نظرآتا ہے یوں لگتاہے کہ ہرسو شیر ہی شیر کی حکومت ہومگر جب 1999کے آخری ایام کو ذہن میں لایاجائے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جبکہ ایک منتخب وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا (کون حق پر تھا اورکون غلط یہ کہانی پھر سہی)تو پھر محترمہ کلثوم نواز‘ راجہ ظفرالحق‘ جاوید ہاشمی سمیت چند ایک لوگوں کے سوا کوئی منظر عام پر دکھائی نہیں دیتا۔

جب وقت کا وزیراعظم سعودی عرب روانہ کیاجارہا تھا توکوئی صدائے احتجاج سنائی نہیں دی ۔(یعنی آج کے بزرجمہروں میں سے کوئی سامنے دکھائی نہیں دیا) البتہ مخلص کارکن اس وقت بھی جوتے کھاتے رہے اورآج بھی ان کے مقدر میں․․․․․․․․․
ذرا ماضی کو کھنگال کردیکھیں‘ ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی میں نئی جان پڑگئی نوجوان بینظیربھٹو نے جہاں پارٹی قیادت سنبھالی وہاں اپنے والد کی دی ہوئی جاگیریعنی مخلص کارکنوں کو اکٹھاکرنا شروع کردیا تاہم وہ اپنی سیاسی شادی کے بعد ڈپلومیسی کاشکارہوتی چلی گئیں اورآج جبکہ وہ دنیا میں نہیں ‘ان کافرزند پارٹی کا چیئرپرسن ‘ان کا شوہر سرپرست ہے مگر کارکن ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔

خاص طورپر پنجاب پر ماضی میں مسلسل فتوحات حاصل کرنیوالی اس جماعت کیلئے امیدوار ڈھونڈنا بھی محال دکھائی دیتاہے۔ خاص طورپر سابقہ پنج سالہ ناکام دور حکومت کے بعد کوئی بھی سیاستدان اپنے ماتھے پر سہ رنگے کاپرچم باندھ کر ”ناکامی “ کاداغ نہیں سجاناچاہتا۔آج یہ دن محض غیر مستقل پالیسیوں اور کارکنوں کو نظرانداز کئے جانے کے باعث دیکھناپڑرہے ہیں۔ یہ مسلم لیگ ‘ تحریک انصاف دونوں کیلئے ہی مقام عبرت ہے کہ اگر انہوں نے کارکنوں کو نظرانداز کرنے کی روایت برقرار رکھی تو آنیوالے دنوں میں کوئی بھی اپنے ماتھے پر ”بدنامی“ کاٹیکہ لگانا گوارہ تک نہیں کریگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :