دامن کوذرادیکھ

جمعہ 16 اکتوبر 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

صحنِ چمن میں اپنی سرفروشی کے” قصہ خواں“ بہت اورلاف زنی میں یدِطولیٰ رکھنے والے بھی ڈھیروں ڈھیر مگرزیست کے بیابانوں میں بھٹکنے والوں کی دستگیری کرنے والے معدوم، مخدوم بہت خادم ایک بھی نہیں۔ لاہورمیں ضمنی الیکشن نہیں ،اقتدارکا معرکہ بپاہوا ،خواجہ سعدرفیق نے کہا ”قبضہ ہارگیا ،جذبہ جیت گیا لیکن ہم کہتے ہیں کہ ضابطہٴ اخلاق ہارگیا، الیکشن کمیشن ہارگیا اوربدزبانی ،بَدکلامی ،بدتمیزی ،بدتہذیبی ،بداخلاقی ،بددیانتی ،بدخواہی اوربدطینتی جیت گئی۔

یہ اقتدارکی جنگ تھی جس میں تحریکِ انصاف کی جانب سے غیرپارلیمانی زبان ، طعنوں اور گالیوں کا کھلم کھلااستعمال ہواجواباََ نوازلیگ نے بھی کوئی کسراٹھا نہیں رکھی البتہ میاں برادران نے احتیاط کادامن چھوڑانہ ایازصادق نے۔

(جاری ہے)

جیت جس کامقدر تھی وہ لے اُڑا اور نرگسیت کے گنبدمیں بندشخص کواُس کی” زبان کارَس“ مِل گیا ۔یہ ہارنے والے کی قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں مسلسل آٹھویں شکست تھی لیکن اُس کی لن ترانیاں اب بھی جاری اورمیں نہ مانوں کی رَٹ بھی برقرار۔

حقیقت یہی کہ جب حرص کی یورش ”سونامی“بن جائے توتہی دامانی مقدرٹھہرتی ہے اور چشمِ ناشناس رہینِ یاس۔ اپنے آپ کوعصرِ رواں کا کوہ کُن سمجھنے والادودھ کی نہریں بہانے نکلالیکن حریص کرگسوں کی بھیڑمیں ایساگُم ہواکہ اپنے وجودکی اچھائیوں کا ادراک بھی کھوبیٹھا ۔ اُس نے ”شوکت خانم“جیسا عظیم ہسپتال بنایااور نمل یونیورسٹی بھی لیکن تب اُس نے حرص کے زاغ کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیا، یہی سبب کہ پوراپاکستان اس کاگرویدہ اوراُس کی ایک آوازپہ ”لبیک“کہنے والا۔

تب آج کے رقیبوں (میاں برادران) نے ہی اسے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیرکے لیے زمین الاٹ کی اورڈھیروں ڈھیرامدادبھی ۔ لیکن جب ہوسِ اقتدارکا زہراُس کی نَس نَس میں سمایا تواُس نے وہ ”افتتاحی لوح“ بھی اکھاڑپھینکی جسے اُس نے کبھی بڑے شوق سے میاں نواز شریف کے ہاتھوں نصب کروایاتھا۔انانیت اورنرگسیت کے بتوں کی پوجاکرنے والامیدانِ سیاست میں اپنی مسلسل ناکامیوں سے یوں بوکھلایا کہ دشنام کوبھی گوہرفشانی سمجھنے لگا۔

ہم جیسے لوگ جوتمام تراختلافات کے باوجود برملاکہتے تھے ”کپتان جھوٹ نہیں بولتا“ یہ کہنے پرمجبور ہوئے کہ ”کپتان سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں بولتا“۔وہ ”نیاپاکستان“ بنانے کا دِل خوش کُن نعرہ لے کرنکلالیکن وہ دھن نہ جذبہ اورنہ ہی مقصدسے عشق، محض اقتدارکی ہوس۔ تحقیق کہ اعمال کادارومدار نیتوں پر ہوتاہے ،کپتان صاحب کی نیت میں جب تک اقتدارکا فتورشامل نہیں ہواوہ محیرالعقول کارنامے سرانجام دیتے رہے لیکن جونہی اقتدارکے ہماکی تلاش میں نکلے ،اُن کی شخصیت کاایک ایک پرت کھل کرسامنے آتاچلا گیا۔

سب نے جان لیا کہ فقط مسندِ اقتدارہی اُن کے دردکا درماں جو ہرگزرتے دن اُن سے دورہوتی جارہی ہے اوررخشِ عمرتیزی سے بڑھاپے کی طرف رواں دواں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگراب بھی وہ اناکے آہنی حصاروں کو توڑ اورحقیقتوں سے گریزکی عادتِ بد کوچھوڑکر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں توقومی سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اگراُنہوں نے ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگائے رکھی تو پھر وہ وقت دورنہیں جب عودکر آنے والی تنہائیاں اُنہیں بھی اصغرخاں بناکر تاریخ کے اوراق میں گُم کردیں گی ،اصغرخاں کی تحریکِ استقلال بچی نہ کپتان کی تحریکِ انصاف بچ پائے گی۔

پیپلزپارٹی کا حشر بھی اُن کے سامنے کہ کبھی وہ بھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہواکرتی تھی لیکن اب تنہائیوں کا شکارکہ اُس کے دامن میں سوائے کرپشن کے داغوں کے اورکچھ نہیں۔ سچ یہی کہ ایساشجر جوتمازتوں میں کمی نہ کرسکے بھلا اُس کی چھاوٴں میں کون بیٹھے گا۔ اگرکپتان صاحب اناکی بوسیدہ زندگی سے باہرجھانک کردیکھیں تواُنہیں دنیابہت خوبصورت نظرآئے گی ، اگروہ اِس طرف مائل نہ ہوئے تو پھروہ وقت دورنہیں جب اُن کے نہاں خانہٴ دِل سے یہ صدا اُبھرے گی کہ
رفتہ رفتہ زندگی کو ڈَس گئیں تنہائیاں
بڑھتے بڑھتے دِل کی ویرانی بیاباں بَن گئی
ہم اب بھی پُر یقین کہ پرویزرشید نے عالمِ غیض میں کپتان صاحب پرملک دشمنی کا غلط الزام دھردیا لیکن خاں صاحب کوبھی اتناتو ادراک ہوناچاہیے کہ ارضِ وطن کو قومی وملّی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔

ہمارے دیکھے ، اَن دیکھے دشمن قطاراندر قطاراور پوری قوم مصروفِ پیکار۔ نوشتہٴ دیواریہی
آبادیوں کی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ
ایسے میں قومی دھارے میں شامل ہونے کاوقت ہے نہ کہ احتجاجی سیاست کا۔ وہ احتجاج ضرورکریں کہ یہ اُن کاآئینی حق ہے لیکن پہلے دھرتی ماں پہ آیاہوا کڑاوقت توٹال لیں۔


ضمنی انتخابات نوازلیگ کے لیے بھی لمحہٴ فکریہ کہ لاہورمیں پنجاب اسمبلی کی نشست کھوبیٹھی اوراوکاڑہ میں اُس کی نگاہِ انتخاب جس شخص پرپڑی وہ چاروں شانے چِت۔ اُسے بھی ادراک کرلینا چاہیے کہ قوم اب شعورکی اُس منزل پرہے کہ اُس کی چشمِ بیدارمیں صرف وہی جچتاہے جس کادِل قومی دردسے لبریزہو ۔محسن لطیف نے اپنے حلقے میں اڑھائی سال تک جھانک کربھی نہ دیکھا،نتیجہ سب کے سامنے۔

سیاسی جماعتوں کوجان لیناچاہیے کہ لاہورنواز لیگ کاہے نہ تحریکِ انصاف کااور نہ ہی پیپلزپارٹی کا۔اب یہاں صرف وہی کامران ہوگا جس کے اندرکچھ نہ کچھ کرگزرنے کی امنگ جواں ہو گی ۔ یہ بجاکہ ایازصادق کی جیت نے دھاندلی کے تمام الزامات کومستردکرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ بالکل درست اورالیکشن ٹربیونل کے جج کافیصلہ بالکل غلط تھا، یہ بھی درست کہ NA-122 کے ضمنی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی شرح کم وبیش 2013ء کے عام انتخابات جتنی ہی تھی۔

2013ء میں نوازلیگ نے ڈالے گئے ووٹوں کا 51.6 فیصد حاصل کیااور 2015ء میں50.6 جبکہ تحریکِ انصاف نے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کا 46.8 اور ضمنی انتخاب میں48.7 فیصدحاصل کیاجس سے دھاندلی کے الزامات کی تویکسر نفی ہوگئی لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا کہ تمام تر ترقیاتی کاموں کے باوجودنوازلیگ اپنی مقبولیت آہستہ آہستہ کھوتی چلی جارہی ہے۔ یہ شایدتاجربرادری کاغصہ ہویا پھرعائشہ ممتازکے جاوبے جاچھاپوں کا اثر، بہرحال جوکچھ بھی ہے نوازلیگ کواپنی مقبولیت کولگے اِس گھُن کابَروقت علاج کرناہو گاکہ اسی میں اُس کی سیاسی بہتری مضمرہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :