ایک اور دورے کی تیاری

منگل 13 اکتوبر 2015

Sajid Khan

ساجد خان

اب یہاں درختوں نے رنگ بدلنا شروع کردیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ خزاں شروع ہے پھر سردیاں اور برف کاراج ہوگا۔وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف واپس پاکستان روانہ ہوچکے ہیں۔ان کوایک دفعہ پھر اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں امریکہ یاتسرا پر دوبارہ آناہے۔یہ وزیراعظم پاکستان کاسرکاری دورہ ہوگا۔جس میں صدر امریکہ سے ملاقات ہوگی امریکہ میں نئے صدر کے لئے انتخابی دہنگل شروع ہوچکا ہے۔

اس وقت صدر امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں اپنے حرف پورے کرسکے۔اسے میں امریکہ اور بھارت نئے معاہدے کرتے جارہے ہیں۔جب بھارت کے وزیراعظم امریکہ آئے تو انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں پر زیادہ توجہ نہ دی۔بلکہ اپنے دور میں امریکہ کے طول وعرض میں اہم لوگوں سے ملنے ملانے میں گزارا۔

(جاری ہے)

ایسے گھلنے ملنے میں نمایاں رہے۔ان کے دفعہ کی کوشش رہی کہ کسی طریقہ سے سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرسکیں اور اس سلسلہ میں کام بھی ہورہا ہے صرف چینی دوستوں کی وجہ سے پاکستان کی بھی بات سنی جارہی ہے۔


دوسری طرف ہمارے وزیراعظم نے زیادہ وقت کو اپنے ہوٹل میں گزارا۔ یاپھرا ن کا پرورگرام صرف خاص اپنے لوگوں سے ملنے تک محدود رہا۔انہوں نے اپنے مہربانوں اور دوستوں کی پاکستانی کھانوں سے تواضع بھی کافی کی۔ اس کے لئے خاص باورچی حضرات پاکستان سے گئے تھے اور متحرمہ ملیحہ لودھی کی رہائش گاہ پر کھاناتیار کیا جاتا ہے اور اس کو وزیراعظم کے ہوٹل لایا جاتا۔

ایک تصویر جو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔اس میں متحرمہ ملیحہ لودھی اور جناب نوازشریف کھانے کی میز پر براجحان ہیں اور ایک اہم سرکاری ملازم میاں صاحب کی بات بہت غور سے سننے کی کوشش کررہا ہے۔میاں صاحب پوچھ رہے ہیں ”لسی میز پر نظر نہیں آرہی۔ اس پر تبصرہ لکھا ہے دیکھو میاں نوازشریف غیر ملکی مشروب پسند نہیں کرتے۔وہ امریکہ میں بھی لسی کلچر کا فروغ چاہتے ہیں۔

اگرچہ اس دور میں بڑا مقصد پاکستان بونڈ کی فروخت تھی۔جس کے لئے جناب اتفاق ڈار بطور خاص تشریف لائے تھے۔ اس دور میں جناب نوازشریف کی بیگم اور بیٹی خاص معروف رہیں جس سے اندازہ ہوا کہ ان کے دوستوں کو بھی میاں صاحب کی خدمت کاموقعہ ملا۔
اب چند دن کے بعد امریکی دوست سرکاری طور پر جناب نوازشریف کا استقبال کریں گے اس کے لئے دونوں فریق کافی کام کرچکے ہیں۔

اس دورہ کے اہم مقاصد میں پاک امریکہ تعلقات میں مزید توجہ اور باہمی مفادات پر تبادلہ خیال ہوگا۔امریکہ میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے عسکری حلقے چلارہے ہیں اور اس ہی وجہ سے کوئی بھی وزیر خارجہ ابھی تک نہیں بنایا جاسکاہے۔جبکہ مشیر خارجہ کی حیثیت میں دوسابقہ خارجی امور کے لوگ میاں صاحب کے ساتھ ضرور نظر آتے ہیں۔

اس وقت واشگنٹن کے سفارتی حلقوں میں یہ بات سنی جارہی ہے۔کہ امریکہ پاک بھارت معاملات میں دونوں ملکوں کے لئے اقوام متحدہ کے ذریعے بہتر تعلقات چاہتا ہے ۔جبکہ اس امریکی تجویز سے برطانیہ اور چین بھی مشنوع ہیں۔امریکہ کوایران اور افغانستان کے حوالہ سے بھارتی رویہ پر صرف تشویش ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ خطہ کے ممالک جنگی کیفیت کاشکار ہوں۔جبکہ صدر امریکہ کے پالیسی بیان کے مطابق جنگ اور پیسے سے کسی ملک پر قبضہ رکھا تو جاسکتا ہے۔

مگریہ عمل مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔وہ پاکستان کی افواج کے حوالے سے مطمین ہے۔مگر پاکستان میں جوسیاسی صورت حال ہے اس پر وہ خوش نہیں اور بنیادی طور پر یہ معاملہ جناب نواز شریف کے دورہ میں فریقین کے لئے اہم ہوگا۔پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں اس نے برطانیوی سرکار کو معاملہ فہمی دے رکھی ہے اس کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان میں امن اور سکون ہو اور وہ اس کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی لوگوں کے بارے میں نرم گوشہ بھی رکھتا ہے۔

واشگنٹن کے سفارتی حلقوں کاخیال ہے کہ ایم کیواہم کے قائد الطاف حسین کے معاملہ پر برطانیوی حکومت مفادات کے تناظر میں معاملہ کوطول دہ رہی ہے۔ جناب چوہدری نثار کے امریکی دوستوں کاخیال تھا کہ اس دفعہ الطاف حسین پر فردے جرم عائد کر دہی جائے گی۔مگر سب انداز کے غلط ثابت ہوئے حکومت پاکستان نے جو ثبوت دیئے تھے ان کو بھی اہمیت نہیں دی گی۔


جناب وزیراعظم کے دورہ امریکی دوست پاکستان کی افواج کے کمان دار جنرل راحیل کے حوالے سے حکومت پاکستان کومشورہ دینے کاخیال رکھتے ہیں اور اس کی بازگشت پاکستان کے سفارت خانہ میں بھی ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف کواضافی مدت قبول ہوگی۔پاکستان کے مستبر حلقے کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا صرف اگلے کمان دار کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کے بعد اب جوبھی چیف بنے گا اس کی مدت ملازمت چار سال ہوگی۔

تاکہ وہ مزید یک سوئی سے اپنے امور سرانجام دے سکے اس وقت پاکستان کی افواج میں دوفول جنرل 29لیفٹنٹ جنرل اور تقریباََ160کے قریب میجرجنرل ہیں۔جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت29نومبر2016تک ہے۔اس کے بعد سنیارٹی لسٹ کے مطابق چار جنرل کانام آتا ہے۔لیفٹنٹ جنرل مقصود احمد۔جو13جنوری2017 کو ریٹائر ہونگے اور اجکل اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ منسلک ہیں ان کت بعد لیفٹنٹ جنرل زبیر محمود حیات۔

لفیٹنٹ جنرل سید واجد حسین۔لیفٹنٹ جنرل نجیب اللہ خان ہیں یہ چاروں جنرل اپنی مقررہ مدت ملازمت ایک ہی دن یعنی13جنوری2017کو مکمل کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ اگرجنرل راحیل کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہوتا یاوہ نہیں لیتے کونسا جنرل پاکستان کی افواج کاچیف ہوسکتا ہے اس وقت جس نام پر زیادہ تکرار نہیں ہے وہ جنرل زبیر محمود ملک کاہے۔اس وقت 31جنرل میں لیفٹنٹ جنرل عامر ریاض کی بارئی 31نمبر پر ہے۔

وہ کور کمانڈرکوئٹہ میں اور ان کی مدر ملازمت23ستمبر 2019ہے۔اگرتو چیف کی مدت ملازمت تین سال رہی تو اس صورت میں لیفٹنٹ جنرل عامر ریاض اگلے آرمی چیف بن سکتے ہیں۔یہ صرف اندازہ ہے یہ تمام معلومات ہمارے امریکی دوستوں کی نظر میں ہے۔میں نے امریکی مہربانوں سے کہا کہ یہ سب معلومات تو پاک فوج کی جانب سے نٹ پرہے اور اس میں حیرانگی کیسی پھر یہ نہ معاملہ ہے نہ مسئلہ تو امریکی دوست اتنی توجہ کیوں دیتے ہیں۔

ہمارے دوست کاجواب حیران کن تھا۔اس کا کہنا تھا تمہارے جتنے بھی سیاست دان ہے۔تمہارے وزیرخزانہ آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لے رہے ہیں۔اور وہ ہماری سفارش پرلے رہے ہیں مگر اس کے بدلے میں اعداد شمار اور کاروائی سب کی سب قابل یقین ہیں۔فوج کے لوگ اس معاملہ میں امومی بات کرتے ہیں اور اختلاف پر بات سنتے ہیں اور مشورہ بھی دیتے ہیں۔تمہارے ملک کی معاشی حالت قابل فکرہے پھر کرپشن کی وجہ سے نظام حکومت اپنا کردار اداکرنے میں نام ہے۔

تمہارے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش نہیں۔سب لوگ فوج اور جنرل راحیل کانام جاپ رہے ہیں۔اب تم ہی بتاؤ ہم کس کوتوجہ دیں اور کس کی بات سنیں اور یہ معاملہ امریکی سرکار کاہے۔امریکی پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں پاکستان اس علاقہ میں اہم چیف کا ملک ہے۔بھارت کے ساتھ وہ جنگ نہیں چاہتا اور ہم بھی بھارت کوبادرکرانا چاہتے ہیں کہ ترقی کے لئے جنگ مناسب نہیں۔


اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے کے کیا مدف ہوسکتے ہیں۔ایک تو معاملہ امریکی امداد کاہے۔اس کے بارے میں امریکی دوستوں کاکہنا ہے کہ جو امدادہم پاکستان کی سرکار کودیتے ہیں وہ خاص طورپر اور جو ہم عوامی مفادات کے منصوبوں پر لگاتے ہیں ان میں کرپشن اور بدانتظامی بہت ہے۔ اس معاملہ پر دونوں فریق تجاویز کاتبادلہ کریں گے۔

پھر کشمیر کے معاملہ پر امریکہ کواخلاقی نہیں امومی مدد بھی کرنی ہوگی۔کیا پاکستان کے وزیراعظم امریکی دوستوں کابدرکرواسکیں گے۔ امریکی دوست ایک دفعہ پھر سیاسی حلقوں میں این آر اؤ کی قسم کامعاہدہ چاہتے ہیں۔اس پر میاں نواز شریف اور فوج کاکیا ردعمل ہوگا۔وہ اہم ہے پہلے جنرل پرویزمشرف کے دور میں کواپنا این آراؤ آیا تھا۔اس میں اہم کردار امریکہ اور برطانیہ کاتھا۔

ملک میں کرپشن کے خلاف کاروائی اور دہشت گردوں کے لئے فوجی کاروائی کے تناظر میں اپنا این آر اؤلانا مناسب ہوگا۔کیونکہ دہشت گرد کرپشن کرنے والے حلقوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔یہ معاملہ اہم ہے دیکھیں اس دفعہ میاں صاحب کتنے لوگ لاتے ہیں اور کتنے جہاز ان کے لئے سامان لائیں گے۔اور امریکی کونسے پاکستانی کھانوں سے متاثر ہوتے ہیں اور کتنا خرچا کرتے ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :