کیسے بنے گا نیا پاکستان؟

ہفتہ 10 اکتوبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

پاکستان کی ایک مقبول جماعت کا یہ نعرہ” بنے گا نیا پاکستان“ اتنا سحر انگیز تھا کہ پورئے پاکستان کے نواجوان جو ق در جوق اس نعرے کے سحر کا شکار ہوتے گئے ”تبدیلی“ ہی ایک سب سے بڑا سچ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سچ ہمارے ہاں گرد آلود ہوچکاہے تبدیلی کے نعرئے مگر حقیقی تبدیلی جو انسان کی ھالت بدل دئے وہ کہیں نظر نہیں ہاں جو تبدیلی یہاں نظرآتی ہے وہ صرف اور صرف مہنگائی، لاقانونیت اور اخلاقی انحاط میں اضافے کی صورت نظرآتی ہے۔

پاکستان میں عام آدمی کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ، کسی بھی انسان کو برئے سے برئے حالات میں بھی زندہ رہنے کے لئے جن لوزامات کی ضرورت ہوتی ہے روٹی ،کپڑا ،مکان ،صحت تعلیم اور امن و امان کا ماحول وہ یہاں میسر نہیں غیر جانبدارا اداروں کے اعداد و شمار کو تو چھوڑیے خود حکومت کے وزیر با تدبیر جناب اسحاق ڈارکا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کی چالیس فیصدآبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

(جاری ہے)


خط غربت سے نیچے جو افراد زندگی گزار رہے ہیں کسی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ” خط غربت“ کیا ہے، پاکستان کے ایک بڑئے علاقے ”تھر“ میں ”انسانی بچوں“ کے ساتھ حکومت کی ستم ظریفی کے مظاہرئے بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں، پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی کمی کی بنا پر بچوں کے اموات میں اضافہ، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی اور بچوں کو تعلیم فراہم کرنے والے سرکاری تعلیمی اداروں کے استائذہ کرام اور مذہبی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کے معلموں کی زہنی حالت کا تجزیہ بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک مسلسل کے بعد تو بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

مگر ”میگا پراجیکٹ “کے نشے میں شرسار حکمرانوں کو اس کی ہوش ہی کہاں کہ ہماری نئی نسل کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ سکول کیوں چھوڑ رہے ہیں نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو اس قدر ہولناک رپورٹ شائع کر کے حکومت کی ” اعلیٰ کارکر دگی“ کو سوالیہ نشان بنانے پر تلے رہتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں جن میں 50 فیصد سے زیادہ بچوں کا تعلق اس پنجاب سے ہے جس میں میٹرو چلتی ہے اور لیپ ٹاپ بانٹے جاتے ہیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے صرف دو کروڑ ستر لاکھ بچے اسکول جا رہے ہیں پاکستان میں حکومت کی طرف سے تعلیم کے شعبے میں ” ہنگامی حالت” کے نفاذ کے باوجود صورتحال بدستور خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔اس بارے میں حال ہی میں جاری کی گئی ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں ایسے طلباء کی تعداد 75 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو دسویں جماعت میں پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق تیسری جماعت میں زیر تعلیم اکیاسی فیصد بچے دوسری جماعت کی انگریزی کتاب کے جملے پڑھ نہیں سکتے۔ اسی طرح ریاضی کے سوالات حل نہ کر سکنے والے طلباء کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔
یہ اقوال زریں ہر جگہ سننے کو ملتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے بہترین تعلیمی نظام کا مرہون منت ہوتا ہے اور صحت کی جملہ سہولتوں کے بغیر افراد معاشرہ سے کسی اچھی کارکردگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور جب اعداد و شمار کے زریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ نومولود بچوں کی اموات میں پاکستان پوری دنیا میں سرِ فہرست ہے اور پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 59 بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا وہ پیدا ہونے کے کچھ دیربعد مر جاتے ہیں۔

اور زچہ و بچہ کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ سے زائد بچے مر جاتے جاتے ہیں۔افریقہ کا پسماندہ ملک نائیجیریا بھی پاکستان سے بہتر ہے تو اسے پاکستان کے خلاف سازش کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ کیا سالانہ دو لاکھ بچوں کی یہ اموات قتل ہیں یا نہیں اور ہیں تو قاتل کون ہے؟ ہماری ناکامی اور نااہلی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو سے بچانے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔

پاکستان بچوں کے حوالے سے دنیا کا بدترین ملک بن چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں نو کروڑ بچوں کے لیے صرف پانچ ہزار ماہر اطفال ڈاکٹر موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں ان اندھوں پر بھی لاٹھیاں برسا دی جاتی ہیں جنہیں زرا سا دھکا لگ جائے تو وہ گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں۔۔۔
اب اگر اس طرح کی ابتر صورت حال کے بعد لوگ ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں تو کیا یہ ان کا حق نہیں جس عمران خان کو امید اور روشنی کا استعارہ سمجھ کر نواجون اس کا ساتھ دے رہے ہیں اس نے اپنے اٹھارہ سالہ سیاسی سفر میں کیا تبدیلی پیدا کی نوجوانوں کے زہنوں کو کسی مثبت ڈگر پر ڈالا؟ جواب نفی میں۔

۔بلکہ ماسوائے مخالفانہ بیان بازی کے موصوف کے کریڈٹ میں اور کیا آتا ہے؟ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان حالات میں تبدیلی کا خواب تو ہر کوئی دیکھ بھی رہاہے اور عوام کودکھایا بھی جارہا ہے مگر ”قیادت“ کا نام و نشان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
ٹھیک ہے ہمیں ایک ”نیا پاکستان چاہئے“ مگر ایسا نیا پاکستان جس میں اندھوں کو لاٹھیاں نہ کھانی پڑیں ،انصاف واقعتاً ملے اور انتظامیہ عوام کی خادم ہو، عام آدمی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور اس کی مناسب جائز ضروریات پوری ہوں عوام سے لیے گئے ٹیکس کااستعمال عوام کے مسائل کے خاتمے کے لئے کیا جائے نہ کہ حکمرانوں کے اللے تللوں پر خرچ ہو صحت اور تعلیم کی سہولت میعاری اور مفت ہو۔

اور لوگ اس طرح کے شعر نہ گنگناتے پھریں۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
ابھی حال ہی میں دیکھیں لاہور کے حلقہ این ائے 122میں الیکشن کمشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس سے کئی گنا پیسہ خرچ کیا جارہا ہے جو قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔کیا یہ لوگ نیا پاکستان بنائیں گے یہ تبدیلی لائیں گے اس سوال کا جواب عوام کو خود ڈھونڈھنا ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :