ک ر پ ش ن

اتوار 4 اکتوبر 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

یوں تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ، یہی سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ، اپنے بڑوں سے بھی یہی سنا کہ پاکستان بننے کے بعد سے کسی وقت انہیں یہ سننے کو نہیں ملا کہ پاکستان پر اچھا وقت آیا ہے ، ہر گزرتے وقت کو بُرا ، بھاری اور کڑ اوقت کہا جاتا ہے آج بھی صورت حال یہی ہے ، یہی سننے کو مل رہا ہے ، غور کیا جائے تو یہ سننا ہمیشہ حقیقت کے مطابق ہی رہا واقعی پاکستان اپنے بننے کے وقت سے اب تک نازک حالات سے ہی گزر رہا ہے اس کی کئی وجوہ ہیں ، پاکستان کا ہمسایہ ملک جسے پاکستان کے ساتھ ہی انگریزسے آزادی ملی ، اس نے تو روز اول سے ہی طے کر رکھا تھا کہ پاکستان کو اس کے نام اور اس کی سوچ اس کے نظریے کی سزا دینی ہے ، اسے آزادی کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔

(جاری ہے)

یقینا ملک میں عدم استحکام کی ایک یہ بڑی وجہ اور بنیادی وجوہ میں سے ہے ، دوسرے دشمن بھی سازشیں کرتے ہی آرہے ہیں اور بہت سے دوست نما دشمنوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔
لیکن دشمنوں سے اگر کسی کو یہ توقع تھی کہ وہ پاکستان کو پھلنے پھولنے اور مستحکم ہونے کا وقت دیں گے ، تو یہ بڑی ہی احمقانہ سوچ اور بے وقوفانہ تمنا اور خواہش تھی ، وہ کیسا دشمن ہے جو ہم سے دشمنی ہماری خواہش اور مرضی کے مطابق رکھے، یہ دشمنی تو نہ ہوئی اسے تو شاید نورا کشتی کہتے ہیں۔

دشمن حقیقی ہو اوردشمنی نورا کشتی جیسے کرے ، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ تو ہونا ہی تھا ، پاکستان بننے سے پہلے ہی سازشیں عروج پر تھیں ،بننے کے بعد بھی جس کا جتنا بس چلا اس نے پاکستان کو کم زور کرنے بلکہ اسے مٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔
لیکن ہمارا مسئلہ صرف دشمن نہیں ، دشمن کی چالیں نہیں ، غیروں کی سازشیں نہیں ، ہمارا مسئلہ اپنوں کی بے وفائی ہے ، ہمارا مسئلہ ،اپنوں کی نمک حرامی ہے ، ہمارا مسئلہ بے غیرتی بھی ہے ، بز دلی بھی ہے ، رنگین دنیا سے فائدے اٹھانا بھی ہے اور سب سے بڑھ کر خود غرضی اور بس اپنے لیے جینے کی سوچ اور نظریے نے ہمیں ہمیشہ کم زور کیا ، گھائل کیا ، نقصان پہنچایا ، دشمن کو حاوی ہونے کا موقع دیا ، ہم اپنے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور گھن کی طرح چمٹے ہوئے ہیں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دیمک اور گھن کے باوجود چیز سلامت رہے ، مضبوط ہو ، محفوظ ہو، مستحکم ہو ۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم یہ سب لاشعوری طور پر نہیں کر رہے ، پورے شعور کے ساتھ کر رہے ہیں ، یہ کوئی ایسا کام نہیں جو ہم سے کسی نے ان جانے میں لے لیا ، اور ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس کی چال میں آگئے ، نہیں ، ہر گز نہیں ۔ ہم نے جو کیا وہ جان بوجھ کر کیا ، کسی بہکاوے ، بہلاوے اور پھسلاوے میں آکر نہیں پورے شعور کے ساتھ کیااور برابر کیے چلے جا رہے ہیں۔


صرف ایک چیز کا ذکر کافی ہے ، آنکھیں کھولنا چاہیں ، ملک کو مضبوط کرنا چاہیں تو صرف ایک ہی چیز کا خاتمہ کافی ہے جو ہماری قوم اور پورے ملک کو گھن کی طرح کھا اور دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ، اور ہم بڑی ہنسی خوشی اس کھانے اور چاٹنے میں شریک ہیں، جانتے بوجھتے ہوئے ۔ وہ ہے.... ” ک ر پ ش ن “..... جی ہاں کرپشن کو دیمک کہیے ، گھن کہیے جو مرضی کہیے ، کون نہیں جانتا کہ اس کرپشن نے ہمیں دنیا پوری میں بد نام کر دیا ،لیکن ہم بڑی ڈھٹائی سے اس کو گلے لگائے ہوئے ہیں ، پاکستان کے گزشتہ صدر نے ان خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے، جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو گیا ہے ، بڑے فخر سے کہا تھا: ” پاکستان کوئی لمیٹڈ کمپنی نہیں جو دیوالیہ ہو جائے ، پاکستان ان لمیٹڈ ہے “ یہ صدر صاحب اس معاملے میں ہمیشہ سے مانے ہوئے اور منجھے ہوئے کھلاڑی تصور کیے جاتے رہے ہیں ، اور دنیا یہ بھی جانتی ہے انہوں نے کبھی اس پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا ، ان کا موقف ہی یہ تھا کہ مل جل کر کھیلا جائے اور مل بانٹ کر کھایا جائے ۔

اس ملنے اور کھانے کی داستانیں کتنی مشہور ہوئیں اور کہاں کہاں مشہور نہیں ہوئیں لیکن سب جانتے ہیں کبھی اس میں کمی نہیں آئی۔
آج بھی کرپشن کی کہانیاں سننے میں آرہی ہیں ، شاید طریق کار بدل گیا ہو ، شاید شرح میں کچھ کمی ہو گئی ہو ،شاید انداز بدل گیا ہو شاید زاویہ تبدیل ہو گیا ہو ، ممکن ہے واقعات میں کچھ کمی ہو گئی، کھل کر کھانے کی بجائے چھپا کر کھایا جا رہا ہو ، جیسے کچھ عرصہ پہلے تک رمضان میں بس اڈدوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور ہسپتالوں میں کھایا پیا جاتا تھا، اب تو خیر شرم حیا ختم ہو گئی ہے ، کھل کر روزہ خوری ہوتی ہے ، لیکن پہلے بہانے سے ہوتی تھی ، اسی طرح کرپشن آج بھی جاری ہے بس ذرا چوری چھپے ، بچ بچا کرکی جا رہی ہے،جس کو موقع ملا ، اس نے چوکنے اور چھوڑنے کی کوشش نہیں کی اور جس کو موقع نہیں ملا اس نے دوسروں کا ڈھنڈورا پیٹا اور کہا اب ہمیں موقع ملنا چاہیے کب تک یہ دو پارٹیاں ملک کو لوٹتی رہیں گی ، حقیقت یہی ہے کہ احتساب کرنے والے خود چوری کرتے ہیں اور پھر سینہ زوری بھی تو یہ بد عنوانی اور غبن کیسے ختم ہو ، یہ کرپشن کیسے ختم ہو؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :