میں مسلمان کب تھا۔۔۔؟

جمعہ 2 اکتوبر 2015

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

جیسے ہی پانچ سال کے ہوئے ابا علاقے میں بنی قریبی مسجد کی مدرسہ گاہ لے گئے امی بہت نارض تھیں کیونکہ امی چاہتی تھیں میں اُن کے مکتبِ فکر کے مدرسے میں داخلہ لوں ابا دیوبند فکر سے تعلق رکھتے تھے اور امی بریلوی مکتبِ فکر سے اورہم اپنی معصومیت کے پانچ سالہ دور میں ہر مکتبِ فکر سے آزاد صرف اِس فکر سے نڈھال تھے کہ اگر سبق یاد نہ کیا تو مولوی کی روز مارکھانا پڑیگی۔

داخلہ ہونے کے بعد ابا خوشی خوشی اور ہم رونتی صورت بنائے گھر میں داخل ہوئے سامنے دیکھا امی غصے میں خولتی صورت بنائے بیٹھی ہیں۔ ہم اپنی رونتی صورت لئے امی کی گود میں جابیٹھے امی اپنے لال کو کلیجے سے لگاتے ہوئے ابا سے مخاطب ہوئیں دیکھو جی میں صاف کہہ دیتی ہوں میرا لال کوئی مدرسے نہیں جائے گا یہ نورانی قائدہ نہیں یسرن القرآن پڑھے گا اور میں خود اِسے شام کو پڑھایا کروں گی میرا لال تمھارے جیسا نہیں بنے گا نہ نیازنہ فاتحہ نہ درود چلے ہیں مسلمان بننے ۔

(جاری ہے)

امی کا اتنا کہنا تھا بس پھر کیا تھا اُس دن ہم نے مذہبی منافرت پر مبنی پہلی لڑائی دیکھی دو قائدوں کے چکر میں دونوں بے قائدہ ہوچکے تھے اور خوب ایک دوسرے کے مکتبِ فکرپر کفر کے فتوے برسارہے تھے۔ گھمسان کی لڑائی کے بعدیک لخت ماحول میں خاموشی طاری ہوئی کیونکہ باورچی خانے میں کُوکر بول اُٹھا تھا، بس پھر کیا تھا امی ہرِ فکر سے بے نیاز صرف اِس فکر میں کچن کی طرف دوڑیں کہ کہیں کباب کے لئے چڑھا قیمہ فرقہ پرستی کی نظر نہ ہوجائے۔

امی جلدی جلدی کھانا تیار کرکے ابا کے لئے درسترخوان پڑوسنے لگیں ابا کا موڈ آف تھا شاید اُنکے دماغ میں ابھی بھی مذہبی منافرت سے متعلق کسی مولوی کا درس چل رہا تھا لیکن امی کے ہاتھ کے بنے کھانے کی مہک نے ابا کے دماغ میں اُمڈتے طوفانوں کو تھمنے پرمجبور کر دیا ابا سے ذیادہ دیر اپنے ذہن کی غلام گردشوں میں رہا نہ گیالہذا جلدی ہی دسترخوان پرتشریف فرما ہوگئے امی نے ابا کو کباب کے ساتھ سِل باٹے پر پسی املی اور پودینے کی چٹنی پیش کی جسے ابا کباب کے ساتھ چٹخارے لے لے کر کھاتے ہوئے کھانے کی تعریف کرنے لگے جبکہ امی مکھن سے چپڑے اِن الفاظوں پر اپنی مسکراہٹ چھپانے سے قاصر تھیں۔

ہم یہ تمام ماجرہ بڑی حیرانی سے دیکھ رہے تھے اورباورچی خانے میں بجتے اُس کُوکر کے بڑے احسان مند تھے کہ جس نے پل بھر میں منافرتوں کے اُمڈتے طوفانوں کو تھما دیا تھا۔
امی کے بتائے ہوئے رستے پر ہم زیادہ دیر چل نہ سکے کیونکہ فطری طور پر ہمارا ذہن اسطرف چلنے کو تیار نہ تھا اسکی ایک وجہ تو گھر میں ابا تھے دوسری وجہ مطالعے کاوہ شوق تھا جوہمیں فارغ اوقات میں ابا کی کتابوں سے بھری الماری تک پہنچا دیتا تھا۔

جس میں دین تو کم مخالفین کے عقائد پرتکفیری کلمات زیادہ ہوا کرتے تھے۔راستہ تبدیل کرنے کے بعد مطمئین ہوئے کہ بس اب سب ٹھیک ہے لیکن شاہد مطالعے کے شوق نے اپنی جڑیں ہمارے وجود کے اندر تک پھیلا دی تھیں۔لہذا کچھ شعور پایا تو محسوس ہوا کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ مسجد کا مولوی بظاہر تو قرآن و حدیث کی بات کرتا ہے لیکن جب بات فروعی مسائل کی آتی ہے تو بجائے قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے دو ڈھائی سو سال بعد لکھی گئی کسی تیسری کتاب کو لے بیٹھتا ہے جہاں آخرت کے عذا ب کو اعمال کا نتیجہ جبکہ دنیا کے عذاب کو مقدر یا تقدیر کا فیصلہ سمجھاجاتا ہے۔

اعتراض ہوا تو آگے بڑھنا مجبوری بنی اور اپنے اُس دوست سے رہنمائی لی جو جانے کب سے ہمارے پیچھے پڑا تھا اور کہتا تھا کہ جس پر ہو وہ راستہ درست نہیں ہے قول وفعل میں تضاد ہے لہذا اصل راستہ قرآن و حدیث ہے جس پر چل کر ہی اپنے لئے جنت کمائی جاسکتی ہے۔لہذا اِس بارے جب تحقیق کی تو پتا چلا کے پچھلے دونوں راستے تکفیربازوں کی زد میں ہیں جوکمایا سب رائیگا ں گیا۔

لہذا ایک بار پھر کمر باندھی اورتیسری راہ لی ابھی راہ فراغت حاصل ہی ہوئی تھی کہ دماغ میں پھر کسی مندر کی طرح گھنٹیاں بجنے لگیں معلوم یہ ہوا کہ تیسری راہ بھی پہلی اوردوسری راہ کی بہن ہی ہے ۔یا اللہ کیا ماجرہ ہے میرے پروردگار تو تو ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے ،تو پھر اتنی دشواری کیوں کیا سبب ہے کہ ہماری پہنچ تجھ تک نہیں بن پارہی کچھ توگڑبڑ ہے کہاں گڑبڑ ہے یہ پتا لگانے کی ضرورت ہے اور پتا لگانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ بات صرف عقائد کی نہیں مشیت خداوندی کی ہے ایسے ہی آنکھیں موندے رہنا خود کے لئے اورساری انسانیت کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے اِس لئے آنکھیں کھول کر جینا ہوگا حقیقت کو سمجھنا ہوگا ۔

لیکن یہ سب کس طرح ممکن ہے میرے رب تو ہی بتا تجھے کہاں تلاش کروں کس طرح تلاش کروں اور کتنا تلاش کروں جب اِن سوالوں نے جنم لینا شروع کیا اور اُوت کر باہر آنے لگے تو مذہبی لبادے میں چھپے ناخداؤں کوجن کے کبھی آنکھ کا تارے ہوا کرتے تھے کھٹکنا شروع ہوگئے۔عجیب بات ہے خدا قرآن میں بار بار انسان کو غورو فکر کرنے اور تحقیق کرنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف ایک مولوی چاہتا ہے کہ ہم اُس کی کسی بات پر سوال نہ کریں کیونکہ اگر ہم سوال کریں گے تو کافر ہوجائیں گے ۔

قارئین اگر خدا نے ہم سے اندھی تقلید کروانی ہوتی تو ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کیوں دیتا سچا مومن تو وہ ہے جو ہر بات کو سب سے پہلے اپنی عقل کے ترازو پر تولے نہ کہ آنکھیں بند کر کے ہربات میں مولوی کی اندھی تقلید کرتا پھرے۔
بندگی ہم نے چھوڑدی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہوجائیں
مولوی کو شاید ایسا محسوس ہوا کہ ہم اُس کی دکان اور مسجد کے ساتھ بنے اُس کے مکان کے دشمن ہوگئے ہیں لہذا تینوں راستے جن کی سمت جد ا جدا تھیں ایک ہوئے ۔

بجائے اِس کے کہ ہماری بات پر غور وخوض کرتے پھاپا کُٹنی کا کردار ادا کرتے نظر آئے اور اپنے وہی روایتی انداز میں تکفیر سازی کے مجسمے تراشنے لگے ۔میرا اِن تکفیر بازوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ مجھ پر تکفیری کلمات صادر کرنے سے پہلے مجھے یہ بتادیں کہ میںآ پ لوگوں کی نظر میں مسلمان کب تھا۔۔؟؟ میں بریلوی ہوکر بھی کافر تھا ،میں دیوبندی ہوکر بھی کافر تھا، میں اہلحدیث ہوکر بھی کافر ہی رہااور آج فکرِ پرویز سے جڑ کربھی کافر ہی ہوں تو دین کے ٹھیکیداروں مجھے اتنا بتادوں میں مسلمان کب تھا۔

خدارا مجھے بتاؤ میں مسلمان کب تھا ۔ ۔۔؟؟میں نے قرآن پڑھا مگر میں ناکام رہا خود کو سنی ثابت کرنے میں وہاں نہ مجھے کوئی شیعہ ملا نہ بریلوی ، نہ دیوبندی اور نہ ہی اہلحدیث۔ میں نے کوشش کی کہ اسوہ محمد ﷺ کو پڑھ کر اپنے آپ کو کسی فرقے سے جوڑوں مگر یہاں بھی مجھے ناکامی ہوئی ہرجگہ ماسوائے ایک مسلمان (مسلم) کے اپنی کوئی دوسری پہچان نہ ملی ۔

اگر فرقے کا کہیں ذکر بھی آیا تو رد کرنے کے انداز میں ایک گناہ ایک تنبیہ کی حیثیت سے اِن سب واضح احکامات کے باوجود آج ہم مسلمان کے علاوہ سب کچھ ہیں بس مسلمان نہیں ہیں۔اقبال فرماتے ہیں
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
اسی حوالے سے1953 ءء میں جسٹس منیر کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں مسلمان کی تعریف بیان کرنے سے متعلق فیصلہ شامل تھا ۔

رپورٹ میں تحریر تھا کہ ہم مسلمان کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ تمام علماء کی بیان کردہ تعریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اِس بنیادی سوال پر دو علماء میں اتفاق نہیں ہر عالم ِ دین کی بیان کردہ تعریف دوسرے سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالمِ دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کرلے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے ،قارئین یہ ہے مولوی کا دین اور اُس کا مسلماں ہونا۔


مکتب و مُلا و اسرارِ کتاب
کورمادرزاد و نورِآفتاب
(خلاصہ: مدرسے اور ملا کا قرآن سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے پیدائشی اندھے اور سورج کا)
کسی نے سچ ہی تو کہا ہے ملاایسی مخلوق کو کہتے ہیں جو اپنے فرقے کے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتا۔
قارئین قرآن کا اصلی مقصد انسانیتِ عامہ کا تزکیہ اور اُس کا ارتقا ہے۔ یہ تمام انسانیت کو اسی بنیادی اُصول و مقصد کی طرف لوٹانے آیاہے۔

اِس کا پیغام یہ ہے کہ سب انسان ایک ہیں رنگ و نسل اور قوم کا فرق حقیقی نہیں ۔ دھڑے بندیاں اور گروہ بنانے کی طبقہ وارانہ ذہنیت غلط ہے ۔ قرآن نے زندگی کے یہی عالم گیر اور ناقابلِ تغیر اُصول پیش کئے ہیں اِن کو اگر غور سے سمجھ لیا جائے تو ذہن و حدتِ انسانیت کی صحیح روح کو پالیتا ہے۔اورمیرا الحمداللہ قرآن پر اور اُس کے حرف حرف پر پورا اور مکمل ایمان ہے اور مجھے اِس ایمانی کیفیت پر کسی مولوی سے سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت نہیں۔
اپنے ہونٹ سئیے ہیں تم نے
میری زباں کو مت روکو
تم کو اگر توفیق نہیں تو
مجھ کو ہی سچ کہنے دو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :