قربانی کی کھالیں

بدھ 30 ستمبر 2015

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

پاکستان میں” دینی مدارس“ اسلام کی نشرواشاعت ،علوم ِقرآن وسنت کی تعلیم ،دینی اقدار وروایات کے تحفظ ،مذہبی خدمات کی فراہمی اور عوام الناس کا دین مبین سے رشتہ برقرار رکھنے کے حوالے سے جو گراں قدرخدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ایسے دور میں جب تعلیم کاروبار بن کر رہ گئی ہو ،تعلیم کے نام پر لوگوں سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کی جاتی ہوں ،ایک ایک گھنٹے کی منہ مانگی قیمت لی جاتی ہو ،نجی تعلیمی ادارے باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرگئے ہوں اور تعلیم کے فروغ کے لیے معرض وجود میں آنے والی این جی اوز کروڑوں ڈالر کے بجٹ پر چل رہی ہوں،ایسے دور میں جب مریض ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہوں لیکن فیس کی وصولی کے بغیر انہیں دوا بھی نہ دی جاتی ہو،ایسے ماحول میں جہاں بل کی ادائیگی تک جنازے روک کر رکھے جاتے ہوں ،ایسے دیس میں جہاں قضائے حاجت کے لیے بھی جیب میں کم از کم دس روپے کا نوٹ ہونا ضروری ہو ایسے میں وہ دینی اور تعلیمی ادارے جو قوم کے بچوں کو بالکل مفت تعلیم دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ جہاں قیام وطعام ،لباس وپوشاک ،علاج معالجہ اور کتب سمیت چیزیں مفت مہیا کی جاتی ہیں ۔یہ دینی ادارے قوم کے تیس لاکھ بچوں کی کفالت کر رہے ہیں اور وہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا وہ ان مدارس نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے ،وہ بوجھ جو حکومت کے سر ہونا چاہیے اسے ان اداروں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ان دینی مدارس نے کبھی جبرا ً فیس وصول نہیں کی ،ان کی آمد ن کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ،یہ عوام الناس کے چندوں سے چلتے ہیں،صدقات ،زکوٰة اور فطرانہ اور کھالیں وصول کرکے اس ہوش ربا مہنگائی کے دور میں اپنا کام چلاتے ہیں اورپاک وطن کے خوش نصیب لوگ اپنا دینی اور ایمانی فریضہ سمجھتے ہوئے ان مدارس کے ساتھ تعاون کرتے چلے آرہے ہیں ۔


لیکن اب ایک عرصے سے اس پر محنت ہو رہی ہے کہ کسی طریقے سے مدارس کے ساتھ تعاون کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔چنانچہ مدار س کے خلاف پروپیگنڈہ مہم اسی منصوبے کا حصہ ہے ،مدارس اور علماء کرام کی کردار کشی کی کوششیں اسی مقصد کے لیے ہیں ،مدارس کے خلاف کریک ڈاوٴن کرکے انہیں عوام الناس کی نظروں میں مشکوک بنانے اور عوام الناس کا اعتماد مجرو ح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مدارس کا تعاون کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔ پہلے پہل یہ سب انفرادی طور پر ہوتا رہا لیکن اس سال عیدِ قربان کے موقع پر قومی پیمانے پر مدارس کی بڑی تعداد کے خلاف معاشی کریک ڈاوٴن کیا گیا ۔
ابتداء ً یکطرفہ اور غیر منصفانہ طور پر مدارس پر کھالیں جمع کرنے کے لیے این او سی کا حصول لازمی قرار دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ مدارس کی مشکیں کسنے کے لیے اس سے قبل کسی کے ذہن میں ایسا کوئی شگوفہ کیوں نہ پھوٹا ؟کیا کسی این جی اویا کسی اور ادارے کے لیے اس قسم کی کوئی قدغن ہے ؟اس سے ملتے جلتے جتنے سوالات کر لیے جائیں ہر ایک کا جواب نفی میں آئے گا ۔پھر سوال یہ ہے کہ مدارس کے لیے ایسی پابندی کیوں عائد کی گئی ؟ واضح سی بات ہے کہ محض مدارس کو تنگ اور پریشان کرنے کے لیے۔


دینی مدارس کی نمائندہ تنظیمات کے قائدین نے ملک کی موجودہ نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوچا کہ عین عید کے موقع پر اس یکطرفہ اور غیر منصافہ فیصلہ کے خلاف سخت ردعمل دینے اور احتجاج کا ماحول بنانے کے بجائے مناسب موقع پر متعلقہ ذمہ داران کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا جائے گا لیکن اسی این او سی کی ظالمانہ پابندی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ لمحہ بہ لمحہ شکنجہ مزید تنگ کیا جاتا رہا ۔

عید سے قبل مدارس کے ذمہ داران کو کچہریوں اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کے چکر کاٹنے پڑے ،وہاں انہیں بیوروکریسی کے روایتی ہتھکنڈوں اور رویو ں کا سامنا کرنا پڑا ،کسی نے فائل کو پہیہ لگانے کا ماحول بنانے کی کوشش کی ،کوئی آج کل پر ٹالتا رہا اور بالآخر عید کی رات اور کہیں ایک آدھ دن پہلے انہیں صاف لفظوں میں این او سی جاری کرنے سے انکا ر کر دیا گیا ۔


یہ تمام افسوسناک رویہ اور اندازصرف پنجاب میں اختیار کیا گیا۔خیبر پختونخواہ میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی ،بلوچستان سے ایسی کوئی شکایت نہیں ملی ،اندروں سند ھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔البتہ کراچی سے کافی تشویشناک اطلاعات موصول ہوتی رہیں لیکن پنجاب میں تو عجیب صورتحال رہی ۔مجھے جب سے اس صورتحال کی اطلاع ملی میں نے اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے رابطہ کیا ۔

وزیرا علی ٰ پنجاب سے توباربار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہو پایا،جبکہ رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر قانون ،چیف سیکرٹری پنجاب ، ہوم سیکرٹری پنجاب اور کئی اضلاع کے ڈی سی اوز اور ڈی پی اوز سے بات ہوئی ۔مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ صوبائی ذمہ داران اور ضلعی افسران کے موقف میں واضح تضاد نظر آیا ۔صوبائی ذمہ داران طفل تسلیاں دیتے رہے کہ” کسی مدرسہ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ،جلد ہی این او سی جاری کر دئیے جائیں گے ،مدارس تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں ہم مدارس کی آڑ میں شرپسند عناصر کو کھالیں جمع کرنے سے روکنے کے لیے کھالیں جمع کرنے کے عمل کو کسی سسٹم کے تحت لانا چاہتے ہیں ،آپ بے فکر رہیں کسی مدرسہ پر اس کی زَد نہیں پڑے گی “ ایک ہفتے تک ہمیں بالائی سطح پر اس قسم کے جملے سننے کو ملتے رہے جبکہ ضلعی اور مقامی سطح پر مدارس کے ذمہ داران کے سامنے ٹال مٹو ل سے کام لیا جاتا رہا ،کبھی ”صاحب“ کے سیٹ پر نہ ہونے کا عذر ،کبھی ویریفکیشن کا بہانہ ،کبھی اسپیشل برانچ کی کلیئرنس کی شرط ۔

پہلے یہ کہا گیا کہ مدارس کو کیمپ لگانے کی اجازت نہیں ،اگر کوئی مدرسہ میں کھال لاکر دے گا تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہوگی ،کبھی کہا گیا کہ بینر ز اور اشتہارات نہیں لگائے جا سکتے اگر زبانی ترغیب سے کوئی کسی ادارے کو کھال دینے پر آمادہ ہوتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور پھر عین موقع پر بینرز اتارے گئے ،اشتہارات پھاڑے گئے ،کیمپ اکھاڑے گئے اور مدارس کے مسافر طلباء کے ساتھ نامناسب بلکہ توہین آمیز سلوک کیا گیا ۔


بعض مدارس نے کیمپ نہیں لگائے ،بینر نہیں لٹکائے ،اشتہارات نہیں چپکائے وہ چپ ہو کر اپنے اپنے مدارس اور مساجد میں بیٹھ گئے اہلِ علاقہ نے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کھالیں ان کے ادارے میں پہنچائیں ان اداروں پر یلغار کرکے کھالیں ضبط کی گئیں ان کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کروائے گئے ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بعض مدارس کی طرف سے اجتماعی قربانی کا عمل جو محض عوام الناس کی سہولت اور ان کی ضرورت کے لیے سرانجام دیا جاتا ہے اس میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔


یہاں قربانی کی کھالوں کے حوالے سے ایک اور امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سال عید کے موقع پر قربانی کی کھالوں کے ریٹ میں جو حیرت انگیز طورپر کمی دیکھنے میں آئی اس پر ملک بھر کے اہل درد اور اہل دین دل گرفتہ اور دل شکستہ ہیں ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کھالوں اور چمڑے کے بیوپاریوں کی اجارہ داری اور مناپلی کا شاخسانہ ہے کہ انہوں نے محض اپنے مفادات کے لیے مدارس کی معاشی کمر توڑنے کی کوشش کی جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی حکومت جو دودھ کے نرخ بھی مقرر کرتی ہواور صرف پانچ روپے اضافی نرخ لینے پر گوالوں کے خلاف کریک ڈاوٴن ہوتا ہو اس حکومت کے دور میں وہ کھال جو کبھی تین ہزار کی بکتی تھی صرف ہزار بار ہ سو ریٹ لگانے پر کوئی نوٹس نہ لینا کوئی اور ہی کہانی سنا رہا ہے بلکہ آوازِ خلق تو یہ ہے کہ یہ ریٹ کا معاملہ بھی دانستہ طور مدارس کی معاشی ناطقہ بندی کے منصوبے کا حصہ ہے اور کھالوں کے بیوپاریوں نے یہ سب ”کسی “ کی شہ پر کیا ہے۔


اس دفعہ تو یہ سب ہو گیا لیکن اہلِ مدارس اور ملک کے محب وطن اور دین کا درد کھنے والے طبقات کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب اتفاقی نہیں ہوا بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو ا۔اب کی بار تو ایسے ہوا کہ دینی مدارس کی قیادت کے سامنے مسلسل غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا رہا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل آخر کب تک چل سکتا ہے؟کھالوں کے معاملے میں مدارس کو نقصان پہنچانے والوں کو اگر کل کسی وقت مدارس کے تعاو ن کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ کیا کریں گے اور جن لوگوں کے وعدوں پر عید کے موقع پر صوبے بھر کے مدارس کے ذمہ داران کو صبر وتحمل اور قانون کی پاسداری کی تلقین کی جاتی رہی ان کی بات کا آئندہ کیا اعتبار کیا جائے گا ؟اب کی بار تو یہ سب کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ مدارس کے پاس نہ کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا وقت رہے اور نہ ہی زنجیر عدل ہلانے کی گنجائش باقی ہو …اہل مدار س نہ مشاورت کرسکیں اور نہ احتجاج کی منصوبہ بندی لیکن کیا آخر ایسا کب تک کیا جا سکے گا ؟
اس معاملے میں حکومتی طرز عمل سامنے رکھتے ہوئے بہت جلد ایسی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ ”دینی مدارس “کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نہ صرف یہ کہ ازالہ ہو بلکہ مستقبل میں دینی مدارس امتیازی رویوں اور غیر منصفانہ اقدامات سے محفوظ رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :