اردو کا ساتھ دیں!

جمعرات 24 ستمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

لارڈ کارنیوالس ہندوستان کا گورنر جنرل تھا ۔ کمپنی نے اسے 1786میں ہندوستان کا گورنر جنرل بنا کر بھیجا ۔ہندوستان کی تاریخ میں یہ دور بڑا ہم تھا ، 1757کی جنگ پلاسی کے بعد انگریز قوم کے حوصلے بلند ہو چکے تھے ، سراج الدولہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے شہید ہو چکا تھا ، کمپنی کے ملازمین پہلے ساحلی علاقوں تک محدود تھے اب سر عام شہروں میں گھومتے تھے ۔

کمپنی نے اپنی حفاظت کے لیئے مختصر سی فوج بھی رکھ لی تھی ، ہندوستان کے مقامی لوگ جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف تھے جبکہ اٹھارویں صدی میں یورپ میں صنعت اور ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہو چکا تھا ۔ہندوستان کے راجا جب آپس میں لڑتے تو کمپنی سے فوج اور اسلحہ کرائے پر لے لیتے ۔ انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پکے ہوئے پھل کی طرح انگریز کی جھولی میں آگرا تھا ۔

(جاری ہے)

اب کمپنی کو برصغیر پرمستقل راج کرنے کے لیئے ایک نئے سسٹم اور نظام کی ضرورت تھی ، کمپنی نے اس کی ذمہ داری لارڈ کانیوالس کے سپرد کر دی ، کارنیوالس آگے بڑھا اور برصغیر کے انتظامی امور کو چلانے کے لیئے ایک نیا نظام وضع کیا جسے آج ہم” بیورو کریسی “کے نام سے جانتے ہیں ۔ کارنیوالس سے پہلے جو انگریز افسر اور حکمران ہندوستان آتے تھے وہ مقامی آبادی اور عوام میں گھل مل جاتے تھے ، مقامی زبان بولتے ، روایتی کھانے کھاتے ، مشرقی لباس پہنتے اور ہندوستانی ثقافت میں رچ بس جاتے حتیٰ کہ وہ فارسی زبان میں شاعری بھی کرتے تھے۔

کارنیوالس نے پہلی بار اس کا نوٹس لیا ، اس نے انگریز سول سروس افسران کو ایک اجلاس میں طلب کیا اور انہیں احساس دلایا کہ تمہاری یہ شان نہیں کہ تم ان مقامی لوگوں میں گھل مل جاوٴ، ان کو سلام کرو ، ان کے پاس بیٹھو اور ان کی مجالس کا حصہ بنو ۔ کارنیوالس کی یہ ”اصلاحات “بیورو کریسی کا سب سے بڑا المیہ ثابت ہوئیں اور ہم کارنیوالس کی ان ”اصلاحات “کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں ۔

پہلے یہ بیو رو کریٹ اور سول سرونٹ عوام میں گھل مل جاتے تھے ، عوام کے ساتھ کھانا کھاتے ، مقامی زبان بولتے، مقامی لباس پہنتے اور شام کو علماء ، پنڈتوں اور نوابو ں کی محفل میں جایا کرتے تھے لیکن جب سے کارنیوالس نے بیوروکریسی میں ”اصلاحات “کیں تب سے بیورو کریسی کے مزاج نے ایک سو اسی زاویئے مخالف سمت میں سفر شروع کر دیا ۔سول سروس کے ساتھ فوج میں بھی یہ” اصلاحات“ کی گئیں ۔

اب صورتھال یہ ہے کہ جمہوری ممالک میں اصل حکومت بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے ، ان کی اپنی ترجیحات اور اپنے مفادات ہوتے ہیں ، یہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ عوام پر ان کا رعب اور دبدبہ برقرار رہے ، اسی لیئے یہ مقامی زبان میں بات کریں گے اور نہ ہی مقامی لباس پہنیں گے ۔ ان کی نوے فیصد میٹنگز اردو میں ہوتی ہیں لیکن یہ اس کی کاروائی انگریز ی میں لکھتے ہیں، یہ عدالتی فیصلے بھی انگریزی میں تحریر کریں گے ۔

اس سے بڑی نا انصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے مجرم کے خلاف جو فیصلہ سنایا ہے اسے اس کی سمجھ ہی نہیں ، اسے پتا ہی نہیں کہ اس پر کیا الزامات عائد کیئے گئے ہیں ۔ یہ اپنے بچوں کو تعلیم بھی انگریزی میں دلائیں گے ، ان کی کوشس ہوتی ہے کہ ان کے بعد ان کی اولادیں ان کی وارث بنیں ، یہ اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی لندن ،پیرس اور نیو یارک بھیج دیں گے اور یہ انہیں ہارورڈ اور آکسفورڈ میں تعلیم دلائیں گے ۔

شایدہم دنیا سے کیوں نہیں سیکھتے یا ہم نے نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے ،ڈنمارک ، سویڈن ، انڈیااور سنگا پور دنیا کے وہ ممالک ہیں جنہوں نے آج سے تیس چالیس سال پہلے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا تھا لیکن یہ بڑی مشکل سے واپس اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے ہیں ،انہوں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ہے ، یہ اب واپس آ رہے ہیں اور اپنی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں ۔

آپ جب تک اپنے بچوں کو اپنی مقامی اور مادری زبان میں تعلیم نہیں دیں گے آپ اسے اچھا سائنسدان ، لیڈ ر اور تخلیق کا رنہیں بنا سکتے ۔ تخلیق کار کسی بھی معاشرے میں آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں ، کسی بھی قوم اور تہذیب کی بقاء اس قوم کے تخلیق کاروں پر منحصر ہوتی ہے ، اگر کسی ملک کے تخلیق کار جدید مسائل اور چیلنجز کا ادراک کر کے ان کا مناسب حل پیش کر سکیں تو وہ معاشرہ آگے نکل جاتا ہے بصورت دیگر اس کے زوال کا پر وانہ جا ری کر دیاجاتا ہے ۔

دنیا کا ہر وہ شخص تخلیق کار ہے جو کو ئی نیا خیال ،نئی سوچ،نیا آئیڈیا،نیا طریقہ ،نیا حل ،نئی ایجاد اور نئی فکر پیش کرتاہے ۔ تخلیق کا ری سے معاشرے میں نئی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں ، غور و فکر کے نئے راستے کھلتے ہیں اورتخلیق کا ری کے عمل سے ہی معاشرے کا جمود ٹوٹتا ہے اور نئی نئی ایجادا ت سامنے آتی ہیں ۔اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک اجنبی زبان میں تعلیم کی وجہ سے ہمارے معاشروں میں تخلیق کا ری بانجھ ہو چکی ہے، ہم گزشہ ستر سالوں سے کو ئی ایسا تخلیق کا ر پیدا نہیں کر سکے جو ہمیں آگے کی طرف لے جائے۔

ہم دنیا کو کوئی نئی ایجاد نہیں دے سکے ۔ آپ خود سوچیں جب ایک اسٹوڈنٹ کا اپنا conceptکلیئر نہیں ہو گا تو وہ نئی theoriesکیسے پیش کر ے گا ،جب ایک اسٹوڈنٹ کو کو ئی بات سمجھ ہی نہیں آئے گی تو وہ نئے آئیڈیاز ،نئے نظریات اور نئی سوچ کیسے دے گا اور وہ ایک تخلیق کا ر کیسے بنے گا ،شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے ہم نے انگلش کو ذریعہ تعلیم بنا یا ہے ہمارے ہاں نئے آئیڈیاز ،نئی تھیوریز اور تخلیقی کا م نہ ہو نے کے برابر ہے ۔

آپ ماس کمیونیکیشن یا صحافت کے شعبے کو دیکھ لیں ہمارے ننانوے فیصد اخبارات اردو میں چھپتے ہیں اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سمیت ہمار ی نوے فیصد صحافت اردو پر منحصر ہے لیکن ہماری یونیورسٹیوں میں ماس کمیونیکیشن کا شعبہ ایک سو ایک فیصد انگلش پڑھا رہا ہے ۔ ہم پہلے تیس پینتیس سال زبان سیکھنے میں لگا دیتے ہیں اور پینتیس سا ل بعد جب ذہنی و جسماتی قوتیں ساتھ چھوڑجاتی ہیں اور گھریلو ذمہ داریوں کا بھو جھ سر پر آن پڑتا ہے تو اس وقت ہمیں ریسرچ یاد آتی ہے اور ہم ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسز لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

یہ اعترا ض کیا جاتا ہے کہ اگر انگریزی پڑھنے والا انگریز بچہ تخلیق کار بن سکتا ہے تو ہمارا بچہ کیوں نہیں ،یہ اعتراض بجائے خود کم فہمی اور کوتاہ بینی کا شاخسانہ ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ انگریزی اس بچے کی مادری زبان ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ بچہ صرف کلاس روم میں انگریزی نہیں پڑھتا بلکہ وہ راستے میں ، گھر جا کر اوراپنے دوستوں میں بھی انگریزی میں بات کرتا ہے ،اس کا کھیل اوردوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی انگریزی میں ہوتی ہے ، وہ محاورے اور ضرب لاامثال بھی انگریزی کے استعمال کر تا ہے،وہ ڈرامے اور فلمیں بھی انگریزی میں دیکھتا ہے اور وہ سوچتا بھی اپنی زبان میں ہے لیکن ہمارے بچے کا ماحول اس سے یکسر مختلف ہے ،وہ کلا س روم میں انگریزی پڑھتا ہے ، راستے میں اور دوستوں کے ساتھ اردو میں بات کرتا ہے اور گھر آ کر اسے اپنی مادری زبان پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی میں با ت کرنی پڑتی ہے ، وہ ڈرامے اور فلمیں اردو میں دیکھتا ہے اور اس کی سوچ اور فکر کے زاویئے بھی مقامی اور علاقائی زبانوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔

اب آپ خود بتائیں یہ بچہ تخلیق کا رکیسے بن سکتا ہے ؟صحیح لفظو ں میں ہم اسے چوں چوں کا مربہ کہہ سکتے ہیں جسے نہ اپنی زبان آتی ہے اور نہ وہ انگریزی پر دسترس رکھتا ہے ۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہر فرد اپنی اپنی جگہ پر اردو کے نفاذ کوششیں کرے، افراد کی ذہن سازی، سیاسی لیڈروں پر دباوٴاور مقامی اسکولوں میں اردو میں تعلیم ۔جس سے جو ہو سکتا ہے اسے اپنی ذمہ داری سمجھے اور اپنے حصے کا کام کرتا جائے ،آج نہیں تو کل ، لیکن یہ نافذ ضرور ہو گی،اب ذیادہ عرصہ اس ملک اور قوم کو ایک اجنبی زبان کا غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :