اچھی اچھی باتیں

اتوار 20 ستمبر 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

چلیں چھوڑیں سب جھگڑے ۔آج اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو تو اللہ میاں سے بھی ناراض ہی رہتا تھا مگر ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو اپنے دشمن سے بھی خفا نہیں ہوتے، دوستوں سے بھلاکیوں گلہ کریں۔ اویس احمد امریکا میں ہیں، ہم نے لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی ایام میں ساتھ کرکٹ کھیلی اور بہت انجوائے کیا۔ دنیا جہان کے موضوعات پر گپ شپ کرتے تھے، اختلاف رائے بھی ہوتا تھا،کبھی تلخی نہیں ہوئی۔

ہر چیز کو تبدیل کرنے یا درست کرنے کی آرزو رہا کرتی تھی اور پھر اپنا انداز یا طریقہ کار۔ مگر اب وہ بہت زود رنج ہوگئے ہیں۔ معلوم نہیں امریکا کی آب وہوا کا اثر ہے یا پھر شادی کے آفٹر شاکس آتے ر ہتے ہیں۔ جب کبھی میں پاکستان کے جرنیلوں کا ذکر چھیڑتا ہوں تو پھر وہ فیس بک پر بہت لمبا تبصرہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

معلوم نہیں جرنیلوں کے جوتوں میں ایسا کیا ہے کہ شاعر نے کہا تھا

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
چونکہ آج اچھی اچھی باتیں کرنے کا موڈ ہے تو پیارے دوستو، یہ مت کہنا کہ شاعر نے یہ شعر جرنیلوں کیلئے نہیں کہا تھا وگرنہ میرا دوست پھر ناراض ہوجائے گا۔

اور ہاں، یاد رہے کہ اچھی اور پیاری باتیں کرتے ہوئے کوئی یہ ذکر ہرگز نہ چھیڑے کہ یہ پشاور میں فضائیہ کے بڈھ بیر کیمپ پر حملہ کس قدر ناکام تھاکہ دہشت گردوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ ارے یار، صرف 30انسان ہی تو دہشت گردوں نے مارے ہیں اور صرف چالیس ہی زخمی ہوئے ہیں۔ اب بھلا یہ کوئی بڑی کارروائی تھی، ہم نے تو اس ملک میں ایک وقت میں دو سو جنازے بھی اٹھتے دیکھے ہیں۔

افغانستان سے آنے والے بزدل پاکستانی طالبان دہشت گردوں نے کیمپ کے اندر گھس کر سولہ نمازیوں کو شہید کیا تو اس میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا بات ہے، راول پنڈی کی پریڈ لین مسجد میں خودکش حملے کو بھول گئے؟۔ یقینا یاد بھی نہیں رہا ہوگا کہ ایسا کوئی حملہ ہواتھا، ارے بھئی ، اس میں کتنے نمازی شہید ہوگئے تھے۔ مگر ہم نے کسی دہشت گرد کو نہیں چھوڑا، سب کو جہنم واصل کردیاگیا۔

اف، یہ کیا ہے، پھر وہی بحث۔
یہ صحافی لوگ بھی نری مصیبت ہیں۔ پتہ نہیں کیسا سوچتے ہیں، کہاں سے یہ کیڑے ان کے دماغ میں کلبلاتے رہتے ہیں۔کیسے کیسے سوالات کرتے ہیں۔ کیسی کیسی نرالی منطق لے کر آتے ہیں۔ اب جبکہ فضائیہ کے کیمپ میں گھسنے والے سارے دہشت گردوں کو چن چن کر مار دیا گیا ہے تو بات ختم ہوگئی۔ کوئی ایک ٹیررسٹ بھاگ کر گیا ہوتو بتائیں۔

کسی ’بڑے صحافی‘ نے کبھی کوئی ایسا ویسا سوال پوچھا ہے، بڑے صحافی وہی ہوتے ہیں جو رات کو ٹی وی کے ٹاک شوز میں نازل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ تجزیہ کار جن کے ساتھ ریٹائرڈ لکھا ہوتاہے۔ ایسے کسی بھی ’ اعلی پائے‘ کے سمجھدار نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ دہشت گرد جب افغانستان کے سرحدی میں جب اس حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے تو ہمارے خفیہ والے کہاں تھے؟۔

ٹیررسٹوں کے گروپ جب وہاں سے روانہ ہوئے تو انٹیلی جنس نے کوئی اطلاع فراہم کی؟۔ سرحد پار کرکے قبائلی علاقوں تک آتے ہوئے دہشت گردوں کو کسی نے پہچانا۔ وہاں تو فوج آپریشن میں بھی مصروف ہے۔ درندے اپنے ہتھیاروں اور خطرناک عزائم کے ساتھ پشاور پہنچے اور پھر کیمپ میں بھی گھس گئے مگر خفیہ والے انٹیلی جنس شیئرنگ کیوں نہ کرسکے؟۔ ایسا کوئی سوال ’عقلمند صحافی‘ کبھی نہیں کرے گا، یہ صرف خاک چھاننے والے ٹکے سیر رپورٹر ہی کرتے ہیں جن کے سرمیں بھوسا بھرا ہوتا ہے۔

اسی لیے یہ رپورٹر کبھی میڈیا کے ڈاکٹروں کی طرح کے اینکر نہیں بن سکتے، ہمیشہ رپورٹر ہی رہتے ہیں، معمولی سی تنخواہ پر کام کرنے والے چھوٹے لوگ۔ ارے بھئی، جانے دو۔ یہ کیا بحث لے کے بیٹھ گئے۔
چھوڑیں جی،اچھی اور پیاری باتیں کرتے ہیں۔ اب دیکھیں اس سے خوبصورت بات کیا ہوسکتی ہے جو ہمارے وزیردفاع خواجہ آصف نے کی ہے۔ (کچھ ناہنجارکہتے ہیں کہ وزیرموصوف نے آج تک اپنی جائے مخصوصہ نہیں دیکھی، مطلب کہ وزارت دفاع کے دفتر جناب کو جانے ہی نہیں دیا گیا)۔

دفاعی امور کے وزیر کہتے ہیں کہ پشاور حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں کیونکہ حملہ آور پشتو اور فارسی بول رہے تھے۔ دیکھیں کتنے پتے کی بات ہے سیالکوٹ کے مرد دانا نے، مگر لوگوں کو سمجھ ہی نہیں۔ اب دفاع سے متعلق امور پر بریگیڈئر سے نیچے کے رینک کے بندے کو تو منہ بھی نہیں کھولنا چاہیے مگر کیا کیا جائے یہاں بہت سے نکمے جن کوگھر میں کوئی نہیں پوچھتا جرنیلوں سے سوال پوچھنا شروع کردیتے ہیں۔

اب جنرل صاحب ٹوئیٹر استعمال نہ کریں توکیا کریں۔
اچھی باتیں کیا کریں، اچھی سوچ رکھا کریں۔ خوش وخرم زندگی گزاریں اور صبح وشام شکریہ، شکریہ کہاکریں۔ اپنے اردگرد ایسے دوست اکھٹے کریں جو خوشگوار موڈ میں ہوں اور انہی کا شکریہ ادا کیاکریں۔ باقی اگر کسی نے اپنا نام بدل کرشکریہ رکھ لیا ہے تو ہمیں اس بارے میں ہرگز علم نہیں ہے۔ کچھ ایسے لوگوں کو پتہ چلایا گیا ہے جو کسی عہدے یا ٹائٹل کو شکریہ کہہ کر خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ایسے افراد سے فاصلہ اختیار کریں اور ان سے متعلق معلومات کاناشکروں کے ساتھ فوری تبادلہ کریں۔


اچھی سوچ اور پیار ی باتیں کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ بڑے والے کالے جوتے خریدیں اور ان کو چمکا کر رکھا کریں، ویسے بھی سردی آرہی ہے پاؤں گرم رہیں گے۔ صبح سویرے دفتر جایا کریں، ٹی وی پر صرف خون گرمانے والے گانا دیکھا کریں، اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہاہے اس کے پیچھے اسی کمینے دشمن کا ہاتھ ہے۔

اور آج کل افغانستان بھی ہمارے خلاف ہے، معلوم نہیں کیوں؟۔ مگر دشمن وہاں سے بھی وار کررہاہے۔ اگر آپ کے اردگرد کوئی ایسا شخص ہے جس کو اس دلیل پر یہ سوجھتی ہے کہ بھارت اور افغانستان اس لیے سب کچھ کررہے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کررہے تو فورا سے پہلے اس غدار کی اطلاع شکریے کے ساتھ بحریہ ٹاؤن یا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی والوں کو دیں تاکہ ان سوسائٹیوں میں اس کا پلاٹ نمبر دیکھا جاسکے۔

اگر بھارتی پیسے سے اس نے پلاٹ نہ خرید رکھا ہوتو پاکستانی روپے سے خرید کردیا جاسکے، اگرپھر بھی اس کا دماغ ٹھکانے نہ لگے تو ایسے سرپھروں کو ہونے والی این جی اوز کی فنڈنگ انسداد دہشت گردی کے تحت بنے نیشنل ایکشن پلان والوں کے ذریعے دیکھی جائے گی۔ہمیں دہشت گردی کو ہرصورت ختم کرنا ہے اور دہشت گردوں کے ایسے تمام دوستوں اور خیر خواہوں کو بھی منطقی انجام تک پہنچانا ہے جو اس طرح کی احمقانہ سوچ رکھتے اور سوال پوچھتے ہیں۔


دہشت گردی کے خلاف حکومت اور جرنیل ایک صفحے پر ہیں، اور پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو اپنے دماغ کا علاج کرائے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کاوہ فیصلہ ہے جس کے تحت اب وہ متنازع بل منظور کرلیا گیاہے جس میں کسی رنگ دار جوتے کے متعلق کسی بھی قسم کی ایسی ویسی پوسٹ فیس بک، یا ٹوئٹ کے ذریعے ٹوئٹر پر لگائی جائے گی تو ان صاحب کو کئی برس تک جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ اس لیے آئندہ آپ لوگ محتاط رہا کریں اور ہمیشہ اچھی اچھی باتیں شیئر کیا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :