واہ رے عمران خان۔۔۔۔عجب تیراانصاف

جمعہ 18 ستمبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

جذبات کی غلامی بچوں کا کام ہے بڑوں کا نہیں۔۔ قوم کے بڑوں کو جذبات کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان غیرت مند بھی ہوں گے۔۔ ایماندار اورامانت دار بھی ۔۔ لیکن کامیاب سیاستدان نہیں۔ کیونکہ کامیاب سیاستدان اپنے اردگرد جمع چمچوں کی باتوں پر فوری ایمان لاتے ہیں نہ جھگڑالو قسم کے لوگوں کی طرح کبھی جذبات کا ہتھیاربن سوچے اورسمجھے استعمال کرتے ہیں۔

قوم کے لیڈر بننے کیلئے تو جذبات کو پہلے مرحلے میں ایک نہیں تین طلاقیں دینی پڑتی ہیں کیونکہ اگر قوم کا لیڈر ہی جذبات کے نیلے سمندر میں بہہ جائے تو پھر اس قوم کو سمندر میں غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ عمران خان پاؤں کے ساتھ کانوں کے بھی کچے ہیں۔ جس طرح وہ ایک جگہ اور ایک بات پر قائم نہیں رہتے اسی طرح وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین بھی بہت جلد کر لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

سابق صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کو پارٹی سے نکالنے کا حکم اور بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے والے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کارروائی کی کہانی اس چوں چوں کا مربہ لگ رہا ہے جو سیاست کے آداب و اخلاق سے نابلد سیاسی چوزے عمران خان کے کانوں میں چوں چوں کرکے تیار کرتے ہیں۔ خواتین کی طرح سرگوشیاں کرنا سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتا نہ ان سرگوشیوں پر فوری ایمان لانا قوم کے لیڈروں کے شایان شان ہے۔

میں نہیں کہتا کہ سابق صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کوئی فرشتہ ہے اور نہ ہی میرا مطلب کسی چور، ڈاکو اور لٹیرے کادفاع کرنا ہے۔ جو مجرم ہو اس کو سرعام نشان عبرت بنانا چاہیے لیکن جہاں شکوک و شبہات جنم لے۔ وہاں مجرم کو سزا دینے سے قبل ان شکوک و شہبات کو ختم کرانا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ضیاء اللہ آفریدی کو پارٹی سے نکالنے سے پہلے سابق صوبائی وزیر کے ان الزامات کی تحقیقات کی جاتی جو انہوں نے اسمبلی فلور پر پرویز خٹک اور دیگر کے خلاف لگائے۔

کپتان کے کانوں میں چوں چوں کرنے والی شخصیات کے خلاف آواز اٹھانے پر تو عمران خان کو دکھ ہوتا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں جب پسند و ناپسند کی بنیاد پر انصاف تقسیم کیا جاتا ہے اور ناپسندیدہ سیاسی شخصیات کو نیب اور انٹی کرپشن کے ذریعے ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں تو اس وقت عمران خان کو دکھ نہیں ہوتا۔ یہ تو پھر وہ والی بات ہوئی کہ جب دوسروں کے بچے روئے تو سر پر درد ہوتا ہے لیکن جب اپنے روئے تو پھر دل پر درد ہوتا ہے۔

انصاف کا پیمانہ پرویز خٹک اور ضیاء اللہ آفریدی کیلئے ایک ہونا چاہیے جب پرویز خٹک ضیاء اللہ آفریدی کے خلاف کچھ کرے اس وقت عمران خان کو تکلیف اور دکھ نہ ہو لیکن جب ضیاء اللہ آفریدی پرویز خٹک کے خلاف کچھ بول پڑے توپھراس وقت عمران خان کو وزیر اعلیٰ کے خلاف ضیاء اللہ آفریدی کی زبان درازی پر دکھ ہو۔ یہ انصاف نہیں ظلم ہے۔ عمران خان کیلئے کارکن، پارٹی عہدیدار اور وزیر اعلیٰ و صوبائی وزراء سب برابر ہیں۔

پرویز خٹک کے خلاف باتوں یا الزامات پر اگر عمران خان کو دکھ ہوتا ہے تو پارٹی کے کسی غریب کارکن اور رہنماء کے خلاف باتوں، الزامات اور اس کے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں پر بھی کپتان کو دکھ ہونا چاہیے۔ میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا توں سے انصاف کے تقاضے ہر گز پورے نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی انصاف عام اور احتساب سرعام تھا پھر انصاف اور احتساب کو سرعام کرنے میں ڈر کیوں…؟ ایک ضیاء اللہ آفریدی کو پارٹی سے فارغ اور بلدیاتی الیکشن میں مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے والے پارٹی کے بلدیاتی ممبران کے خلاف کارروائی کرنے سے انصاف اور احتساب سرعام نہیں ہوگا۔

کارروائی ان کے خلاف بھی ہونی چاہیے جن کی وجہ سے ضیاء اللہ آفریدی کو اتنے آگے جانے کی ہمت ہوئی ۔اسی طرح ایکشن ان کے خلاف بھی لینا چاہیے جن کی وجہ سے تحریک انصاف کے بلدیاتی ممبران کو بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے کی زحمت اٹھانی پڑی اورتحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اچھے بھلے شریف کارکن اوررہنماء بغاوت کرنے پرمجبورہوئے۔

ہانڈی تب ابلتی ہے جب پکتی ہے۔کھڑے کھڑے کوئی شخص بغاوت نہیں کرتا۔ظلم کی حدیں جب پاراورصبرکاپیمانہ لبریزہوتاہے تب انسان کے پاس حالات سے بغاوت کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں رہتا۔بلدیاتی الیکشن میں مخالف امیدواروں کوووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے ممبران کے ساتھ پارٹی قیادت کی جانب سے ضرورکہیں نہ کہیں کوئی ظلم وزیادتی ہوئی ہوگی تب وہ انتہائی قدم اٹھانے پرمجبورہوئے ورنہ اس طرح کے شریف لوگ آ بادگھروں کی دیواروں سے کبھی اینٹ اورپتھرنکال کرپڑوسیوں کے حوالے نہیں کرتے ۔

بیماری کی تشخیص کئے بغیر دوائیاں کھانے سے صحت ٹھیک نہیں خراب ہوتی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رکھا جائے تو بات پھر موت تک جاتی ہے اس لئے عمران خان کو فریق ثانی سے پہلے فریق اول چاہے وہ پرویزخٹک ہویاکوئی اورکے خلاف بھی اسی طرح سخت کارروائی کرنی ہوگی تب انصاف کاپیمانہ برابراورتقاضے پورے ہونگے ورنہ ایک فریق کے خلاف کارروائی اوردوسرے کے سرپردست شفقت رکھنے سے معاملات زیادہ گھمبیرہونگے اورپھر57نہیں پورے کے پورے ممبران،عہدیداران اورکارکنان پی ٹی آئی کی دیواروں سے اینٹ اورپتھرنکال کراپنے ہاتھوں سے مخالفین کے حوالے کریں گے۔

اس لئے عمران خان اس وقت جذبات کے ذخیرے کوسنبھال کررکھیں اوراپنی توجہ حقیقی معنوں میں انصاف عام اوراحتساب سرعام کرنے پرمرکوزکریں ۔یہ جذبات آئندہ بھارت اورامریکہ کیخلاف کام آئیں گے،غریب کارکنوں اوررہنماؤں پراس وقت اس کے اظہارسے فائدے کی بجائے الٹانقصان ہوگا۔پی ٹی آئی کے کارکنوں اورخیبرپختونخواکے عوام کواس وقت جذبات نہیں انصاف کی ضرورت ہے مگرلگتاہے کہ بدقسمت انصاف آج بھی عمران خان کی نظروں سے اوجھل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :