اردو کا مخمصہ

جمعہ 18 ستمبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

زبانوں کے معاملے میں دنیا مختلف طرح کے تجارب کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ علاقائی زبانیں علاقائی سطع تک تو درست ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک زبان کو قومی زبان کا درجہ یا دوسری علاقائی زبانون پر ترجیح دینے سے کئی طرح کی قباہتیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اور پھر تمام علوم اسوقت انگریزی زبان کے مرہون منت ہیں۔ یورپ کے ممالک میں قومی زبان میں پی ایچ ڈی تک تعلیم نہیں ہوتی مثلا ڈنمارک نے کئی دہائیاں قبل یہ عقلمندانہ فیصلہ کیا تھا کہ اعلی تعلیم انگریزی میں ہو گی تاکہ ہر نئی تحقیق کو ڈینش میں ترجمہ کرنے کی کھکھیڑ سے بچا جا سکے دیگر ممالک بھی اسی راہ پر آ رہے ہیں۔


ہمیں اس تفاخر سے باہر آجانا چاہیے کہ اردو خودبخود (یعنی خواہ مخواہ) کوئی ترقی یافتہ اور تاریخی طور پر مالامال زبان ہے اور اسے بس نافذ کر دیا جائے تو پل بھر میں ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

اردو کے اسی فیصد الفاظ (جن میں سو فیصد افعال اور بنیادی لفظ شامل ہیں) سنسکرت اور مقامی پراکرتوں سے آئے ہیں۔ اصطلاحات اور لغات بنانے والے بیشتر افراد کی عربی فارسی کی استعداد بھی صفر کے آس پاس ہے اور جو جانتے بھی ہیں وہ سترھویں صدی کے ذخیرے سے آگے بڑھنے کے قابل نہیں۔


عدالتی نظام سے متعلق سبھی اصطلاحات انگریزی میں ہیں۔ اسی طرح تمام جدید علوم انگریزی میں ہیں جن کا ترجمہ کر کے انہیں زبان کے قالب میں ڈھالنا جوئے شیئر لانے کے مترادف ہے ۔جہاں کئی اقوام عالم انگریزی زبان کو فروغ دے رہی ہیں، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کہ انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کی جگہ دی جائے، پاکستان مخالف سمت چل پڑا ہے۔

ماہرین لسانیات اور ملکوں کے مابین تعلق پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اردو ایک خوبصورت زبان ہے، اس میں ما فی الضمیر بیان کرنے کی بے انتہا صلاحیت ہے، اور گزشتہ دو تین صدیوں میں بر صغیر ہند کا بہترین ادب اس زبان میں تخلیق کیا گیا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگ یہ زبان بولتے ہیں، خاص کر بڑے شہروں میں۔ مگر پاکستان کا کوئی بھی خطہ خاص طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے جسے اردو زبان بولنے والوں کا خطہ کہا جائے۔

اس کے علاوہ اردو زبان پاکستان کے پہلے پہلے حکمرانوں کی اس متنازع خواہش کا شکار رہی جس کے تحت انھوں نے انتظامی، سیاسی اور لسانی یکسانیت ملک کی مقامی ثقافتوں پر مسلط کرنیکی کوشش کی جس کے نتیجے میں سیاسی دوریاں پیدا ہوئیں۔کئی لوگوں کا یقین ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی داغ بیل اس وقت ڈال دی گئی تھی جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے یہ اعلان کیا تھا کہ اردو مملکت کی سرکاری زبان ہوگی، اگرچہ مشرقی پاکستان میں بنگالی کو صوبائی زبان کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔

مشرقی پاکستان، جہاں پاکستانیوں کی اکثریت آباد تھی اور جو اس بات کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس ملک کی دوسری سرکاری زبان بنگالی ہوگی، 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہوگئے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ زبان کے بارے میں ریاست کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔
اردو زبان پر اس طرح کا اصرار شاید ملکی ترقی کی رفتار کو آہستہ آہستہ سست کرڈالے اور ملک کو دنیا کی ترقی کی سمت سے 180 درجے کے زاویے سے مخالف سمت کی طرف دھکیل دے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اس معاملے میں تنہائی کا شکار ہوجائیں۔

۔۔یہ انگریزی سیکھنے کی خواہش کو کمزور کر دے گا اور پھر غالباً آہستہ آہستہ ہمیں دنیا بھر سے الگ (تنہا)کر کے رکھ دے۔
’ ہم اس وقت ساٹھ یا ستر کی دہائی میں نہیں ہیں جب انگریزی زبان صرف اعلیٰ کاروباری حلقوں یا سیاسی اشرفیہ کی میراث ہوتی تھی۔ آج کل تو تقریباً ہر گلی محلے اور ایک گاوٴں میں بھی کم از کم ایک نہ ایک انگلش میڈیم سکول ضرور کھلا ہوا ہے۔


قانون سے منسلک ماہریں کا کہنا ہے کہ اس وقت قوانین، عدالتی فیصلوں، ان کی تشریحات اور مطبوعات کے لاکھوں صفحات ہیں جنہیں وکلا مقدمات کی تیاری کے لیے ترتیب دیتے ہیں۔ ایسی کوئی انتظامی صلاحیت نظر نہیں آتی ہے جو ہماری ایک نسل کی زندگی میں اردو زبان کے الفاظ کا ذخیرہ تیار کرسکے، تمام مواد کا ترجمہ کر سکے، اور اصطلاحات کو مستعمل بنا سکے۔


1990 سے بننے والی مختلف حکومتوں نے پانچ شعبوں یعنی حکومت، انتظامیہ، عدلیہ، افواج اور تعلیم، میں تکنیکی اصطلاحات کو اردو زبان میں بنانے یا ان کا ترجمہ کرنے کے لیے کئی ادارے قائم کیے۔
پاکستانیوں کی اکثریت کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اور بہت ساری اردو اصطلاحات کے وہ معنی جو اردو کی جائے پیدائش والے علاقوں میں لیے جاتے ہیں وہ پاکستان کے موجودہ علاقوں میں سمجھے جانے والے معنی سے مختلف ہیں۔

سرکاری اور دفتری امور میں کثرت سے استعمال کے باوجود اردو اور انگریزی پاکستان میں زیادہ بولی جانے والی زبانیں نہیں ہیں۔ پاکستان میں پنجابی سب سے بڑی زبان ہے جس کے بولنے والے تقریباً 48 فیصد ہیں۔
قومی زبان کا معاملہ سن 1960 اور 1970 کی دہائیوں کی دنیا میں اہم ہوتا تھا کیونکہ اس وقت قومی ریاستیں اپنی حیثیت کو ایک منفرد انداز میں منوانے کی کوشش کرتی تھیں، تاہم آج حالات مختلف ہیں۔

اب انگریزی زبان کسی نو آبادیاتی کے حاکموں کی زبان نہیں بلکہ اب یہ ابلاغ عامہ کے لیے دنیا بھر میں رابطے کی زبان ہے۔مگر آج بھی جس طرح ثقافتی یکسانیت کے حامی موجود ہیں اسی طرح اس خیال سے اختلاف رکھنے والے بھی موجود ہیں۔
ہامرے ہاں ایک مغالطہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کی چین والے صرف اپنی زبان میں بات کرتے ہیں ایسا کبھی تھا اب چین دنیا کے ساتھ تجارتی رشتے استوار کر رہا ہے اس لئے زبان کے معاملے میں اس کے بھی اصول بدل چکے ہیں جس کو جس زبان کی ضرورت درپیش ہوگی وہ بلا ہدایت اسے رابطے کی زبان بنا لے گا جیسے چینی خود بخود انگریزی سیکھ رہے ہیں اور مغربی باشندے چینی سیکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔


اس لئے اردو زبان کا فروغ ایک الگ بات ہے اسے دنیا بھر سے رابطے کی زبان بنانا دنیا سے لاتعلق ہونے کے مترداف ہوگا کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہماری لکھی ہوئی دستاویز کا ترجمہ کرتا پھرے۔ دنیا آگے کی طرف جارہی ہے اور ہم۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :