حکمران ، فرد شناسی کی قوت کو بروئے کار لائیں

پیر 14 ستمبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

سب اچھا ہے کے بلند و بالا دعوے کر نے اور میرٹ کے بڑے بڑے تمغے اپنے سینے پر سجانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کاحالیہ دنوں میں ایک ایسا میگا سیکنڈل منظر عام پر آیا ہے جس نے ، ان کے تما م تر دعووں کو کرپشن کی آگ میں بھسم کر کے رکھ دیا ہے۔نا اہلی اور فرد شناسی کی ایسی بد ترین مثال ان کے دور میں قائم ہو تی ہے کہ ہر ادارہ ہی جس کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو جا تا ہے ۔


نندی پور پاور پروجیکٹ میں بھی ایک دفعہ پھر فرد شناسی کی ایک ایسی نااہلی سامنے آئی ہے کہ یہاں بھی 19ویں گریڈ کے ایک ایسے افسر کو جو باغبانی کے شعبے کا تجربہ رکھتااور بقول کامران خان جو پھول پھلواڑی کا ماہر تھا،پہلے تو اسے کروڑوں روپے سے شروع کئے جانے والے سولر انرجی کے منصوبے ،جس کے تحت مختلف شہروں میں شمسی توانائی کے کچھ پول لگائے گئے تھے جواب، ناکارہ دکھائی دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ اس کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے یہ منصوبہ 22ارب سے 81ارب تک جا پہنچا ہے ۔ظلم تو یہ ہے کہ قوم کی ایک خطیر رقم اس میں جھونکے کے باوجود یہ منصوبہ بند ہو چکا ہے۔نندی پور پاور پروجیکٹ حکومتی نا اہلی اور اپنوں کو نوازے جانے کی پایسی کی وجہ سے سفید ہاتھی بن چکا ہے اور جس کی وجہ سے اس کی روشنیا ں گل ہو گئیں ہیں جسے اب روشن کر نے کا سوچا بھی جائے تو اس کے لئے پاکستانی قوم پر ماہانہ اڑھائی ارب روپے کا بوجھ برداشت کر نا پڑے گا۔


قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ میڈیا پر اس سیکنڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نے تحقیقات کا جو حکم صادر فر مایا تھا اس کی روشنی میں اس سب کا ملبہ ایم۔ڈی محمد محمود کے کھاتے ڈال دیا ہے۔ واضح رہے یہ وہی صاحب ذی وقار ہیں جن کی اعلیٰ خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے خادم اعلیٰ کی سفارش پراس سال مارچ میں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔


قارئین ! ویسے تو پورے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں حکمران فرد شناسی میں بُری طرح نا کام رہے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن کے سا تھ ساتھ نا اہلیوں کے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں اور عوام میں حکو مت مخا لف جذبات جنم لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کئی اداروں سمیت تعلیم اور صحت کے ادارے تباہ حالی کی کنارے پر کھڑے ہیں۔ خادم اعلیٰ کا اربوں روپے ،تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لئے مختص کر نے کے باوجود تعلیمی اداروں میں طلبا ء کی تعداد کم ہو تی جا رہی ہے۔

نا اہل اور بد دیانت افسروں کی وجہ سے اساتذہ میں بھی بد دلی پھیلتی جا رہی ہے۔ جس کی تازہ مثال ای۔ڈی۔او ایجوکیشن لاہور اور تما م ڈی۔ڈی۔اوز کی ملی بھگت سے میرٹ اور سنیارٹی کے تقاضے پورا کر نے والے اساتذہ کی بجائے نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو سفارشوں اور بھاری نذرانوں کے عوض اگلے گریڈز میں ترقی دی گئی ہے۔
محکمہ صحت بھی ایسے کرپٹ اور ضمیر فروش افسروں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔

سر کاری ہسپتالوں میں لوگ علاج کے لئے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے بیڈز نہیں ہیں۔پینے کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے۔ چلڈرن ہسپتال سمیت کئی ہسپتالوں میں مفت ادویات اور ٹیسٹوں کی سہولیات ختم کر دی گئیں ہیں۔مئیو ہسپتال لاہور جہاں روزانہ سینکڑوں مریض علاج کے لئے آتے ہیں اور شدید رش کی وجہ سے لوگ اپنی باری کا انتظار کر تے ،سسک سسک کے مر جاتے ہیں یہاں کا سر جیکل ٹاور نا اہل افسروں اور ان کی بد نیتی کی وجہ سے کئی سال گذر جانے کے بعد بھی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہاہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق شہر لاہور کے متعدد سر کاری ہسپتالوں میں مریضوں کی تشخیص کر نے والی مشینیں خراب اور ناکارہ پڑی ہوئی ہیں اورجونکوں کی طرح فنڈز کو ڈکارنے میں مصروف ، بیورو کریسی نامی مخلوق فائلوں کا پیٹ بھرتی ،سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتی ہے۔
قارئین !سب چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی موجودہ حکومت زرداری حکومت کے مقابلے میں عوام الناس کو مختلف سہولیا ت پہنچانے کے لئے کافی حد تک متحرک دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود اداروں کی بد حالی ،کرپشن کی داستانوں کا منظر عام پر آنا ، عوام کی مختلف سر کاری اداروں میں تذلیل ، یہ سب صرف ہمارے حکمرانوں کی ”فرد شناسی “ کی قوت سے خالی ہونے کی وجہ سے ہے۔

حکمران اور بالخصوص خادم اعلیٰ پنجاب ،صیح معنوں میں ملک کی عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ جذبہ خدمت خلق رکھنے لوگوں کو اداروں کا سر براہ لگا یا جائے جو حقیقی معنوں میں لوگوں کا خدمت گذارہو ں نہ کہ ایسے لوگ جن کی وجہ سے پوری دنیا میں آپ کی جگ ہنسائی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :