12 ستمبر 1948 -قائد اعظم کو دفن کر دیا گیا

پیر 14 ستمبر 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

قائد اعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948 کو رات 10 بج کر 20 منٹ پر گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں ہوا۔ بابائے قوم کی تدفین اگلے دن 12 ستمبر 1948 کو کراچی ہی میں کی گئی۔12 ستمبر کا دن اس لئے بھی اہم ہے کہ تدفین کے عمل میں قائد اعظم کی شخصیت، سیاسی افکار، مساوات پر مبنی سوچ، تاریخی حقائق اور آزاد پاکستانی ریاست کے تخیل کو ان کے جسدِ خاکی کے ہمراہ کفن میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے داب دیا گیا۔

پیچھے بچے وہ قائد اعظم جو شیروانی زیبِ تن کئے اور قائد کیپ سر پر رکھے آج سرکاری دفاتر کی دیواروں پر تصویر کی صورت میں ٹنگے ہم پر مسکراتے نظر آتے ہیں۔ یہ مسکراہٹ کسقدر معنی خیز معلوم ہو سکتی ہے اس کا جواب وہ افراد ضرور دے سکتے ہیں جو تاریخ کا مطالعہ اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ! جو اتنا علم نہ بھی رکھتے ہوں لیکن کم از کم پاکستان کے موجودہ حالات ان کے لئے باعثِ تشویش ہوں اور پاکستان سے محبت کا جذبہ بھی دل کے کسی کونے میں موجود ہو تو ان کو بھی قائد اعظم کی یہ مسکراتی تصویر کسی حد تک شرمندگی کا احساس ضرور دلاتی ہو گی ۔

(جاری ہے)

لیکن بات ہے احساس کی!!!
قائداعظم کے پاکستان کی جہت 12 ستمبر کے بعد جس تیزی اور انداز سے تبدیل کی گئی وہ بھی قابلِ دید ہے۔قائد اعظم کی تدفین کے محض چار ماہ بعد مارچ 1949 میں پہلی قانون ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کی جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کے منافی تھی۔ وہ تقریر جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نے اسی قانون ساز اسمبلی سے مخاطب ہو کر کی تھی اور پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے پالیسی بیانیے کا درجہ رکھتی تھی۔

پالیسی بیانیہ تو دور کی بات اس تقریر کو قائد اعظم کی زندگی ہی میں ہر قسم کے سرکاری و غیر سرکاری ریکارڈ سے حذف کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی گئی تھی۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم کے سیاسی ہیرو دادا بھائی نوروجی تھے جو ایک عدد پارسی تھے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں ریاست کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل تھے۔ایک غیر مسلم کو وزارتِ قانون کا اہم ترین قلمدان سونپنا بذاتِ خود اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قائد اعظم کے نزدیک ریاست کے لئے تمام شہری مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور مذہب کا ریاستی امور اور قانون سازی کے عمل میں کسی قسم کا دخل نہیں ہو سکتا۔

قرار دادِ مقاصد نے قائد اعظم کے ریاست کے تصور کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں ۔ ریاست کے لئے مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جن بنیادوں پر قائد اعظم نے علیحدہ ریاست کا مقدمہ اقلیتوں کے لئے جیتا تھا وہی حالات قائد اعظم کی وفات کے بعد مقتدرِ اعلی نے قراردادِ مقاصد اور دیگر اقدامات کے ذریعے سے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے لئے پیدا کردیے۔


قائد اعظم کا حلقہ انتخاب بمبئی تھا جو بھارت کا حصہ بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی علاقوں کے اپنے سیاستدان، جاگیرداراور مذہبی شخصیات جنہوں نے قیامِ پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اب اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھے۔ قائد اعظم کے نواب آف ممدوٹ ، خان آف قلات، میاں ممتاز دولتانہ اور دیگر علاقائی و صوبائی قائدین سے اختلافات یا ناراضگی یہ اشارہ کرتی ہے کہ ان قائیدین کے لئے علاقائی ، صوبائی و ذاتی مفادات پاکستانیت پر حاوی تھے۔

قائد اعظم ان افراد کے کام کی رفتار، احکامات پر عمل درآمدگی اور طریقہ کار سے بھی نا خوش تھے۔ 11 ستمبر 1948 بھی ہمارا کارنامہ ہے جب گورنر جنرل پاکستان کو کراچی پہنچانے کے لئے خراب ایمبولینس فراہم کی گئی جو بیچ راستے سڑک پر جا رکی تھی۔ اس خراب ایمبولینس میں قائداعظم اس بری حالت میں پڑے تھے کہ اپنے چہرے پر بیٹھنے والی مکھیاں بھی نہیں اڑا پا تے تھے۔

بلاشبہ قائداعظم کی تدفین کا سلسلہ ان کی زندگی ہی میں شروع کیا جا چکا تھا اور یہ سب بھارت میں نہیں بلکہ قائد اعظم کی اپنی تخلیق پاکستان میں کیا گیا۔ بس تدفین کی تکمیل12 ستمبر 1948کو ہوئی!
آج کا پاکستان کسی زاویے سے قائد اعظم کا پاکستان نہیں۔ آج کا پاکستان دفن شدہ قائد اعظم کا پاکستان ہے جن کو ہم نے مخصوص و محدود نظریہ کے حصول کی خاطر اتنا ہی زندہ رکھا ہوا ہے جتنا کہ اس نظریے کے لئے ان کی ضرورت ہے۔

یوں بھی پاکستانی قوم نظریات کے خود ساختہ مقبرے بنانے اور ان پر دن رات دیے روشن کر کے زندہ و جاوید رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
اگر واقعتا قائداعظم کے پاکستان کی تعمیر کرنی ہے توقائد اعظم کو سرکاری دفاتر میں لٹکی ایک تصویر سے نکال کرپاکستانی عوام کے اذہان میں حقیقی معنوں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے! پاکستانی عوام کو حق حاصل ہو کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہر پہلو پر کھل کر بحث کر سکیں۔

قائد اعظم کے سیاسی و مذہبی افکار پر بات ہو، ذاتی زندگی کو سمجھا جائے، قیام پاکستان کے بعد سے وفات تک کے واقعات پر بات ہو۔ ہمیں قائد اعظم کو قومی سطح پر سچائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے وگرنہ قائد اعظم یوں ہی دیوار پر تصویر کی مانند لٹکے مسکراتے رہیں گے کہ کسی دن تو قوم اس مسکراہٹ کا مطلب سمجھ پائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :